چاروں صوبوں سے ممبر ایگزیکٹو کمیٹی کی 9 نشستوں پر عاصمہ جہانگیر گروپ کے امیدوار کامیاب
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
اسلام آباد ( نیوزڈیسک) بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے ممبر ایگزیکٹو کمیٹی کی 9 نشستوں پر عاصمہ جہانگیر گروپ کے امیدوار منتخب ہوگئے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات کے آفیشل نتائج جاری کر دیئے گئے جس میں عاصمہ جہانگیر گروپ نے میدان مار لیا۔
حتمی نیتجے کے مطابق ایڈووکیٹ ہارون الرشید 1898 ووٹ لے کر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ملک زاہد اسلم اعوان 1915 ووٹ کے ساتھ سیکرٹری بار منتخب ہوگئے۔
بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب سے تینوں نائب صدور بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر گروپ کے منتخب ہوئے جبکہ حامد خان گروپ کے نائب صدر سندھ کی نشست پر ملک خوشحال خان اعوان منتخب ہوئے ہیں۔
فنانس سیکرٹری کی نشست پر عاصمہ جہانگیر گروپ کی سائرہ خالد راجپوت 2049 ووٹ لے کر منتخب ہوئیں جبکہ ایڈیشنل سیکرٹری کی نشست پر عاصمہ جہانگیر گروپ کے سردار طارق حسین 1835 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: عاصمہ جہانگیر گروپ کے پر عاصمہ جہانگیر گروپ
پڑھیں:
گوگل کے چیف ایگزیکٹو کی اے آئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی پیشگوئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان اس بات پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں کہ آیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) دنیا بھر میں لوگوں کی ملازمتوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے یا نہیں۔
اسی موضوع پر گوگل کے سی ای او سندر پچائی نے بھی اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق اے آئی ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے اثرات سے کوئی بھی ملازمت محفوظ نہیں، حتیٰ کہ ان کی اپنی نوکری بھی اس سے متاثر ہوسکتی ہے۔ اس لیے لوگوں کو حالات کے مطابق خود کو تیار رکھنا ہوگا۔
ایک حالیہ انٹرویو میں سندر پچائی نے کہا کہ “اے آئی انسانی تاریخ کی سب سے اہم ٹیکنالوجیوں میں سے ایک ہے، جس میں بے شمار فائدے چھپے ہیں۔ ہمیں سماجی بے چینی کے باوجود اس ٹیکنالوجی پر کام جاری رکھنا ہوگا۔”
گوگل خود بھی اے آئی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر تحقیق و ترقی کر رہا ہے۔ اکتوبر 2025 میں کمپنی نے اپنا نیا ماڈل جیمنائی 3 متعارف کرایا، جسے عالمی سطح پر بھرپور پذیرائی ملی۔
سندر پچائی نے اعتراف کیا کہ جہاں اے آئی کئی نئے مواقع پیدا کرے گی، وہیں کچھ نوکریاں متروک بھی ہوسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “اس ٹیکنالوجی کے ارتقاء سے نئی مہارتوں اور ملازمتوں کی ضرورت پیدا ہوگی، جبکہ کچھ شعبے ختم بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بطور معاشرہ ہمیں اس پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔”