آرٹیکل 191اے ون کو 191اے تھری کے ساتھ ملا کر پڑھیں،آرٹیکل کہتا ہے آئینی بنچ کیلئے ججز جوڈیشل کمیشن نامزد کرے گا، جسٹس عائشہ ملک
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 191اے ون کو 191اے تھری کے ساتھ ملا کر پڑھیں،آرٹیکل کہتا ہے آئینی بنچ کیلئے ججز جوڈیشل کمیشن نامزد کرے گا، ان آرٹیکلز میں کوئی قدغن نہیں ، یہ پروسیجرل آرٹیکلز ہیں،یہ آرٹیکل بنچز پر تو قدغن لگاتے ہیں لیکن سپریم کورٹ پر نہیں،ہم ان آرٹیکلز کو ایسے پڑھ رہے ہیں جیسے یہ مکمل قدغن لگاتے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ اس ادارے کی ساکھ کا انحصار26ویں آئینی ترمیم پر نہیں ہے،کیس کو دوسرے آزادبنچ کی جانب سے سنا جانا چاہئے،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس بنچ پر اعتماد نہیں کررہے؟وکیل احمد حسین نے کہا کہ 191پر فیصلہ اوریجنل فل کورٹ کی جانب سے ہونا چاہئے،جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ آپ کی استدعا میں اوریجنل فل کورٹ کا لفظ نہیں ہے،وکیل احمد حسین نے کہاکہ میں نہیں کہہ رہا کہ یہ بنچ آزاد نہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آپ نے کہا کیس دوسرے آزاد بنچ کے سامنے جانا چاہئے ،کیا ہم ججز بھی اس آزاد بنچ کا حصہ ہوں گے؟جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس اس آزاد بنچ کا حصہ ہوں گے؟
گوجرانوالہ کے 165 مستحق جوڑوں کی شادی ،’’ دھی رانی پروگرام ‘‘نے معاشرتی ناہمواریوں کا خاتمہ کیا : صوبائی وزیر سہیل شوکت بٹ
وکیل احمد حسین نے کہاکہ چیف جسٹس بالکل اس بنچ کا حصہ ہوں گے،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر ہم کیس نہیں سن سکتے تو حکم کیسے دے سکتے ہیں؟وکیل احمد حسین نے کہاکہ نئے آنے والے ججز کو فیصلے میں محفوظ کیا جاسکتا ہے،عدالت حکم کیلئے راستہ کیوں مانگ رہی ہے،ابھی تک تو وفاق نے فل کورٹ یا حکم دینے پر اعتراض نہیں اٹھایا،جسٹس امین الدین نے کہاکہ ہر وکیل کا اپنا موقف ہے ہم آئین پڑھ کر سوال کررہے ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کچھ وکلا نے کہا ترمیم کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں۔
خواجہ احمد حسین نے کہاکہ اس ترمیم کو پاس کروانے کا پروسیجر ہی فالو نہیں ہوا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ یہ سوال میرٹ پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل سے پوچھا جا سکتا ہے،جسٹس شاہد بلال حسن نے کہاکہ آپ اپنی اس درخواست کے ذریعے مرکزی ریلیف مانگ رہے ہیں،خواجہ احمد حسین نے کہاکہ میری درخواست میں 26ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا نہیں،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آرٹیکل 191اے ون کو 191اے تھری کے ساتھ ملا کر پڑھیں،آرٹیکل کہتا ہے آئینی بنچ کیلئے ججز جوڈیشل کمیشن نامزد کرے گا، ان آرٹیکلز میں کوئی قدغن نہیں ، یہ پروسیجرل آرٹیکلز ہیں،یہ آرٹیکل بنچز پر تو قدغن لگاتے ہیں لیکن سپریم کورٹ پر نہیں،ہم ان آرٹیکلز کو ایسے پڑھ رہے ہیں جیسے یہ مکمل قدغن لگاتے ہیں۔
سعودی ولی عہد 18نومبر کو وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات کریں گے
26ویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت کل دوبارہ ہوگی،خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہو گئے، شاہد جمیل کل آغاز کریں گے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے احمد حسین نے کہاکہ 26ویں ا ئینی ترمیم وکیل احمد حسین نے خواجہ احمد حسین احمد حسین نے کہ قدغن لگاتے ہیں ان ا رٹیکلز سپریم کورٹ نے کہاکہ ا
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے دو ججز کا اہم خط: چیف جسٹس اور جسٹس سرفراز پر تحفظات کا اظہار
سپریم کورٹ کے سینئر ججز، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے ایک تفصیلی خط میں عدالتی ضابطہ اخلاق میں مجوزہ ترامیم اور سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر سنجیدہ اعتراضات اٹھائے ہیں۔ خط چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ارکان کو ارسال کیا گیا ہے۔
اہم نکات:
دونوں ججز نے خط میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سپریم جوڈیشل کونسل میں شمولیت غیر موزوں ہے، کیونکہ ان کے خلاف ایک اپیل زیرِ التوا ہے۔
اسی طرح، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کے خلاف بھی ایک مقدمہ عدالت میں زیر غور ہے، اس لیے وہ خود بھی ضابطہ اخلاق میں ترامیم کے عمل سے علیحدہ رہیں تو بہتر ہوگا۔
خط میں الزام عائد کیا گیا کہ اس بار سپریم جوڈیشل کونسل کا آئینی طریقہ کارنظرانداز کیا گیا۔ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی میں شامل تین چیف جسٹسز نے پہلے ترامیم کی منظوری دی، پھر سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی انہی ترامیم کو منظور کیا — جو بقول ججز، آئینی اصولوں کے خلاف ہے۔
ججز کی تشویش:
جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے خبردار کیا کہ:
مجوزہ ترامیم سےعدلیہ کی آزادی کو خطرہ ہے۔
ان سےشفافیت متاثر ہوگی اور اختیارات چند افراد تک محدود ہو جائیں گے۔
ترامیم کو بعض مخصوص ججز کی آواز دبانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خط کے آخر میں دونوں ججز نے لکھا کہ ملک اس وقت جمہوری دباؤ اور آئینی بحران کے دور سے گزر رہا ہے، اور ایسے حالات میں صرف ایک بے خوف، آزاد اور اصولوں پر قائم عدلیہ ہی عوام کے اعتماد کا مرکز بن سکتی ہے۔
یہ خط نہ صرف عدلیہ کے اندرونی معاملات کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں آئینی عمل، شفافیت اور آزادی کے اصولوں پر ایک نظریاتی اختلاف موجود ہے۔