Express News:
2025-10-21@23:09:19 GMT

افغانستان کے بدلتے رویے اور پاکستان کی نئی آزمائش

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات دو ہمسایہ ممالک کے درمیان سفارتی روابط نہیں بلکہ تاریخی، تہذیبی مشترکات بھی ہیں۔ اس تاریخ میں اخلاص بھی ہے، قربانیاں بھی ، غلط فہمیاں بھی ہیں اور دغابازیاں اور مکاریاں بھی ہیں۔

دونوں ملکوں کے عوام بھی مذہباً مسلمان ہیں جب کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتو بیلٹ والے ایریاز کے لوگوں کی زبان، ثقافت اور روایات بھی افغانستان کے ان علاقوں کے ساتھ ہیں جو پاکستان کی سرحد سے متصل ہیں جب کہ شمال مشرقی افغانستان میں تاجک،ازبک، منگول، گجر، پامیری اور دیگر اقوام آباد ہیں۔

وقت کے تغیر نے ان رشتوں میں ایسی دراڑیں ڈال دی ہیں جنھیں پُر کرنے کے لیے اب جذبات نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ اور طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے۔جب 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان میں قدم رکھا تو پورے خطے کا سیاسی منظرنامہ بدل گیا۔ وہ جنگ جسے دنیا نے ’’سرد جنگ‘‘ کے اختتام کی علامت سمجھا دراصل جنوبی ایشیا کے لیے نئی مصیبتوں کا آغاز بن گئی۔ لاکھوں افغان شہری خوفزدہ ہوکر پاکستان آگئے۔

پاکستان نے ایک برادر ملک کے طور پر اپنے دروازے کھول دیے۔ اُس وقت کے حالات میں یہ قدم انسانی ہمدردی اور بردار اسلامی ملک کے عوام کے تحت درست تھا لیکن یہ فیصلہ آنے والی دہائیوں تک ہمارے سماجی، معاشی اور سیکیورٹی ڈھانچے پر گہرے اثرات چھوڑ گیا۔

افغان جنگ کے دوران پاکستان عالمی سیاست کا محور بن گیا۔ پاکستان کمیونسٹ سوویت یونین کے براہ راست ٹارگٹ میں آگیا،اسی لیے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔امریکا اور مغربی دنیا نے کمیونسٹ سوویت یونیں کے اثر کو روکنے کے لیے افغانستان کے جاگیرداروں، ملاؤں اور افغان شاہی اشرافیہ کو منظم کیا ، انھیں مالی امداد، اسلحہ دیا، گوریلا جنگ لڑنے کی تربیت اور جنگی حکمتِ عملی پاکستان نے مہیا کی، پاکستان نے نہ صرف عام افغانوں کو اپنے ہاں پناہ دی بلکہ مجاہدین کی قیادت اور شاہی افغان اشرافیہ کو بھی پناہ فراہم کی۔

ماضی کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کے گٹھ جوڑ نے اپنا فائدہ تو سوچا لیکن ہمارے معاشرے میں اسلحہ، انتہا پسندی اور بیرونی اثرات کے بیج بھی بو دیے۔ یہ وہ دور تھا جب ’’جہاد‘‘ کو ایک نعرہ بنا کر ریاستی پالیسی کا حصہ بنا دیا گیا اور جب جنگ ختم ہوئی تو وہی بندوقیں، وہی انتہاپسند نظریات اور وہی تربیت یافتہ گروہ ہمارے ہی امن کے دشمن بن گئے۔

2001 میں نائن الیون کے بعد ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اقوام عالم کا ساتھ دیا لیکن اس جنگ نے ہماری سرزمین کو بھی لہولہان کر دیا۔ ہزاروں قیمتی جانیں ضایع ہوئیں، اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور سب سے بڑھ کر ہماری سرحدیں غیر محفوظ ہو گئیں۔یہ وہی سرحد تھی جسے کبھی ہم پُرامن سمجھتے تھے۔ ہماری توجہ ہمیشہ مشرقی محاذ یعنی بھارت کی جانب رہی۔ لیکن آج مغربی سرحد بھی ہمارے لیے دردِ سر بن چکی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رہیں۔ مگر اب حالات اس کے برعکس جا رہے ہیں۔

افغانستان کی موجودہ قیادت کا رویہ محض سرد مہری پر مشتمل نہیں ہے بلکہ معاندانہ ہوگیا ہے۔سرحد پار سے فائرنگ، دہشت گردوں کی دراندازی، اور ہمارے خلاف غیرضروری بیانات ایک نئی بے چینی کو جنم دے رہے ہیں۔حالانکہ افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد یہ امید تھی کہ طالبان حکومت ایک برادرانہ رویّہ اپنائے گی لیکن عملی صورت حال اس کے الٹ دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان نے برسوں افغان قیادت کو سفارتی، انسانی اور معاشی سطح پر سہارا دیا مگر آج ہمارے ساتھ وہی میزبانی دشمنی میں بدلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پاکستان میں مٹھی بھر گروہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے وطن میں انتشار اور بدامنی پھیلانے کی کوشش میں ہے اور اس کے پیچھے وہی بیرونی ہاتھ کام کر رہے ہیں جو ہمیشہ اس خطے میں عدم استحکام کے خواہاں رہے ہیں۔

بلوچستان کی صورتحال بھی اسی منصوبہ بندی کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کے دشمن یہ جانتے ہیں کہ اگر بلوچستان میں انتشار پیدا کیا جائے تو پورا ملک غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔

بھارت جیسے ممالک اب صرف مشرق سے نہیں بلکہ مغرب سے بھی وار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی سرحد ان قوتوں کے لیے ایک نیا محاذ بن چکا ہے۔اگر ہم نے اپنی مغربی سرحد پر نرم پالیسی اختیار کی تو یہ خطرہ کنٹرول سے باہر بھی ہوسکتا ہے۔ یہ صورتحال بطور ریاست ہمارے لیے نہایت خطرناک ہے کیونکہ افغانستان اندرونی طور پر غیر مستحکم ہے اور وہاں مختلف نسلی و علاقائی دھڑوں کے درمیان طاقت کی رسہ کشی جاری ہے جب کہ دہشت گرد گروہوں کی بھی اس ملک میں سخت گرفت موجود ہے۔

پاکستان کی سیاسی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ صرف بیانات اور سفارتی نوٹس کافی نہیں ہیں۔ ہمیں افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی نئی بنیاد رکھنی ہوگی۔ ایک ایسی بنیاد جو جذبات سے زیادہ زمینی حقائق پر استوار ہو۔ ہمیں مستقبل کے تقاضوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اب وہ وقت نہیں رہا جب ہم صرف ’’برادر اسلامی ملک‘‘ کے نعرے پر اپنی سرحدی پالیسی بنا سکیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ افغان قیادت کے مفادات ہمیشہ پاکستان سے ہم آہنگ نہیں رہے اور نہ ہی وہ مستقبل قریب میں ہمارے مفاد میں ہوں گے۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ایک نئی افغان پالیسی تشکیل دے۔ ایسی پالیسی جو نہ صرف سرحدی سلامتی کو یقینی بنائے بلکہ افغانستان کے عوام کو بھی احساس دلائے کہ پاکستان ان کا دشمن نہیں بلکہ ایک بااعتماد ہمسایہ ہے۔ ہمیں اپنے قومی، عوامی و ریاستی مفادات کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ ہمیں اپنی داخلی یکجہتی کو مضبوط بنانا ہوگا۔ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان ہی بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اگر ہم اندر سے کمزور ہوں گے تو بیرونی طاقتیں ہمیں آسان ہدف سمجھتی رہیں گی۔

پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے بوجھ تلے دب کر رہنا چاہتا ہے یا ایک نئے، خودمختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے۔ اگر افغانستان سے دشمنی ہمارے مفاد میں نہیں تو پھر اندھی دوستی بھی تباہ کن ثابت ہوگی ہے۔ ہمیں دو انتہاؤںکے درمیان ایک سمجھدار، متوازن، دانشمندانہ اور پائیدار حکمتِ عملی اختیار کرنی ہوگی وہ راستہ جس میں قومی سلامتی بھی محفوظ رہے اور خطے کا امن بھی قائم ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہ افغانستان افغانستان کے پاکستان نے نہیں بلکہ پاکستان ا کے ساتھ رہے ہیں کے لیے ہے اور

پڑھیں:

افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں

پاکستانی پختون سرکاری دستاویزات میں اپنی قوم افغان لکھتے ہیں۔ افغانستان کی ہر حکومت کی طرح طالبان حکومت کے ساتھ بھی ہمارا بریک اپ چوراہے میں ہوا ہے۔ کوچی جب تھان سے سوٹ پھاڑ کر الگ کرتا ہے تو اک آواز آتی ہے۔ طالبان کےساتھ بریک اپ پر دل پاٹنے کی آواز بھی اس سے ملتی جلتی آئی ہے۔ غصہ اگر افغان طالبان پر ہے تو انہی پر اتاریں سب افغانوں کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں۔

اپنی شناخت افغان لکھنے والوں کی تعداد افغانستان سے زیادہ پاکستان میں رہتی ہے۔ مسئلے کو بڑھا کر کروڑوں افغانوں تک نہ پھیلائیں۔ اس کو سکیڑ کر 50 ہزار طالبان اور 10، 20  ہزار ٹی ٹی پی تک محدود کریں۔ پاکستان سے بیر رکھنے والے دو، چار فیصد افغانوں کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ سارے کل ملا کر دو، ڈھائی ملین سے زیادہ نہیں۔ ان میں بھی 98 فیصد منہ سے ہوائی فائرنگ کرنے والوں کی ہے۔ ان میں سے بھی اکثر منہ سے یہ ہوائی فائرنگ ہماری خدمات کے اعتراف میں ہی کرتے ہیں۔

پاکستان کو ایک لفظ میں ڈیفائن کرنا ہو تو یہ ایک سروائیر سٹیٹ ہے۔ ایسی ریاست جس نے ہر حال میں سروائیو کیا ہے۔ ملک کی اکثریتی آبادی الگ ہوئی۔ مارشل لا سہے، جمہوریت کو سر پر لاد کر چلتا رہا۔ اک متفقہ آئین بنایا چلایا۔ جنگیں اور علیحدگی کی تحریکیں بھگتی، دہشتگردی اور مسلح تحریکوں کا سامنا کیا۔ شدت پسندی، فرقہ واریت، نسلی لسانی پنگے دنگے دیکھے۔

یہ وار ہارڈنڈ ملک ہے۔ دنیا میں شاید کوئی دوسری مثال نہیں۔ کسی ملک کی سیکیورٹی فورسز نے اتنی دہائیوں تک ٹھنڈی گرم لڑائیوں کا تجربہ حاصل کر رکھا ہو۔ یہاں آپ کا دل چاہے گا کہ افغانستان کی مثال دیں۔ تو افغانستان کی ریاستی ڈھانچے کا موازنہ کر لیں پاکستان سے۔ وہاں کی اکثریتی آبادی ملک سے باہر بطور مہاجر گھوم رہی ہے اور اب پکڑ پکڑ کر واپس بھی بھجوائی جا رہی ہے۔ دونوں ملکوں کی معیشت کا، رہائشی سہولیات کا، فی کس آمدنی کا، دفاعی قوت کا، ٹیکنالوجی کا،  تعلیمی نظام کا، جدت کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔

پاکستانیوں نے ایک بات نہیں سیکھی وہ ہے خود پر اعتماد کرنا۔ ہمیں پتہ نہیں کون سی بیماری ہے کہ عدم تحفظ کے وہم جاتے ہی نہیں۔ پاکستان شیعہ آبادی رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ یہ بات ہماری طاقت ہے  لیکن ہمارے وہم اور سازشی تھیوریاں اس میں بھی مردانہ کمزوری تلاش کر سکتے۔ پاکستان پختونوں (افغانوں) کی سب سے بڑی آبادی کا حامل ملک ہے، بلوچوں کی سب سے بڑی تعداد کا وطن پاکستان ہے۔ بلوچستان سے زیادہ بلوچ سندھ اور پنجاب میں رہتے ہیں۔ پختوںوں، بلوچوں کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے۔ ہم اس طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں کہ ہل جل کر خود دکھا سکتے ہیں لیکن الگ نہیں ہو سکتے۔

افغانستان میں تزویراتی گہرائی کی کھدائی کرنا ہماری خواہش نہیں تھی، حوالدار بشیر کا شوق تھا۔ اب اگر تزویراتی گہرائی والا وظیفہ الٹ گیا ہے اور بھوت پریت نکل کر بے قابو ہیں۔ دیسی طبعیت کا تقاضہ یہی ہے کہ پہلے دل ٹھنڈا کرنے کے واسطے حرام خور نمک حرام وغیرہ وغیرہ کہا جائے اور ٹوں ٹوں بھی کی جائے۔ ایسا کرنا قومی مفاد کا بھی تقاضہ ہے۔ ضرور کریں، کہیں لیکن انہی کو جن کے ساتھ مل کر تزویراتی گہرائی کھود کھود کر گہری کی جا رہی تھی۔ ان باتوں کا فوکس طالبان پر رکھیں افغان پر نہیں۔

طالبان میں بھی کچھ فرق کرنا ضروری ہے۔ کچھ معززین ایسے ہیں جن کو حوالدار بشیر کے ہات اور لات دونوں لگی ہیں۔ ان کی معذوری غصہ اور لاتعلقی سمجھنی چاہیے۔ دوسرے وہ ہیں جو عزت سے پاکستان رہے اور اب بھی ہمارے بارے میں کلمہ خیر کہتے اور اچھا سوچتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو پاکستان میں پڑھے، اردو سیکھی، ادب پڑھا، پاکستانی اساتذہ کی محبت کے اسیر ہیں اور خاموش ہیں۔ ان کو کسی طرح بولنے اور کردار ادا کرنے پر حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔

آپ جیسے جیسے کیٹیگری بناتے جائیں گے تو اندازہ ہو گا کہ شرپسند کم اور اہل خیر زیادہ ہیں۔ ہمیں ایک اور بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان، اسفندیار ولی خان یا وہ سب جو ریاستی پالیسی سے ہٹ کر بولتے ہیں اور ان کی افغانستان میں سنی جاتی ہے۔ تو یہ سب ہماری طاقت ہیں کمزوری نہیں ہیں۔ ان کا کہیں بھی اثر ہے تو وہ ہم سب کا اثر ہے۔

انڈیا 5 ایمبولینس دے کر افغانستان کو پاکستان کے خلاف کھڑا نہیں کر سکتا۔ ہمیں تھوڑی ہمدردی افغانوں سے بھی کرنی چاہیے۔ لوگوں کی اولاد خراب نکلتی ہے ان کا ابا سوری امیر صاحب پرابلم چائلڈ نکل آئے۔ خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندی لگا کر بیٹھے ہیں اور جو سمجھائے اس کہتے ہیں ’نے منم‘ (نہیں مانتا)۔ افغانوں کے دل جیتنے ہیں تو خواتین کے لیے آن لائن تعلیم کا پاکستانی اسکولوں میں انتظام کرا دیں۔ جو لڑکیاں یہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، ان کو فیملی سمیت لمبی مدت کے ویزے دے دیں۔ پھر آپ کو بہت سے لوگ افغانستان سے بھی مل جائیں گے جو بتائیں گے کہ صورتحال خراب کرنے والے حرام خور ہیں کون سے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

متعلقہ مضامین

  • رفتارِ معیشت: آئی ایم ایف معاہدہ، امید یا آزمائش؟
  • ہمارے ہتھیار لبنان کی قوت ہیں، حزب اللہ
  • افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں
  • افغانستان کو آزادی ہمارے خون سے ملی، حافظ طاہر اشرفی
  • بٹر ڈپلومیسی
  • بدلتے موسم میں نزلہ،فلو اور کھانسی سے بچنے کے آزمودہ گھریلو طریقے
  • پاک افغان امن معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟
  • ’اسرائیل ہمارے کنٹرول میں نہیں رہا‘ دوحہ حملے کے بعد ٹرمپ کی شدید برہمی کا انکشاف
  • ملک حکمرانوں کے تعصبانہ رویے کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا ، جاوید قصوری