افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی مرحلہ وار بحالی؛ 300 گاڑیوں کی کلیئرنس کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
کراچی:
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو مرحلہ وار بحال کردیا گیا ہے، جس کے بعد 300 گاڑیوں کی کلیئرنس کا آغاز کردیا گیا ہے۔
پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ دوحا میں طے پانے والے ”فوری جنگ بندی“ معاہدے کے تناظر میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ 10روز کی معطلی کے بعد مرحلہ وار بنیادوں پر بحال کردیا ہے۔ 10روز قبل تقریباً 300 سے زائد گاڑیاں مختلف مقامات پر پھنس گئی تھیں۔
ابتدائی طور پر چمن کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ آپریشن بحال کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانزٹ ٹریڈ (کسٹمز) کی جانب سے ایک تفصیلی حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق کارگو آپریشن کو 3 مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تمام معمول کے ٹرانزٹ ٹریڈ آپریشن ”فرسٹ اِن، فرسٹ آؤٹ“ (فی فو) کی بنیاد پر بیک لاگ کے کلیئر ہونے کے بعد بحال ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں ان 9 گاڑیوں کو کلیئر کیا جائے گا جو فرینڈ شپ گیٹ پر سرحد بند ہونے کے باعث واپس بھیجی گئی تھیں، ان گاڑیوں کا دوبارہ وزن اور اسکینگ کی جائے گی اور کسی بھی قسم کی تضاد کی صورت میں 100فیصد جانچ پڑتال کی جائے گی۔
دوسرے مرحلے میں ان 74 گاڑیوں کو پراسیس کیا جائے گا جو این ایل سی بارڈر ٹرمینل یارڈ سے واپس کی گئی تھیں، ان گاڑیوں کو بھی دوبارہ وزن اور اسکینگ کے عمل سے گزارا جائے گا اور اگر کسی فرق کی نشاندہی ہوئی تو ان کی مکمل تلاشی لی جائے گی۔
تیسرے مرحلے میں ہالٹنگ یارڈ میں موجود 217 گاڑیوں کو کلیئر کرکے سرحد پار بھیجنے کی اجازت دی جائے گی۔
حکم نامے کے مطابق تمام واپس آنے والی یا روکی گئی گاڑیوں کی نقل و حرکت کی تصاویر فرینڈ شپ گیٹ پر حاصل کرکے ریکارڈ میں محفوظ کی جائیں تاکہ شفافیت اور دستاویزی ریکارڈ کو یقینی بنایا جاسکے۔
ٹرانزٹ ٹریڈ کی بحالی سے تاجروں، ٹرانسپورٹرز اور کارگو آپریٹرز کو ریلیف ملنے کی توقع ہے، جنہیں سرحدی بندش کے دوران بھاری نقصان کا سامنا رہا۔ حکام کے مطابق بحال شدہ ٹریڈ آپریشنز میں سکیورٹی اور معائنے کے عمل کو مزید سخت کردیا گیا ہے تاکہ کسی قسم کی اسمگلنگ یا غیر قانونی تجارت کی روک تھام یقینی بنائی جا سکے۔
چمن بارڈر کو پاک افغان تجارت کا سب سے اہم زمینی تجارتی راستہ قرار دیا جاتا ہے، جہاں سے روزانہ درجنوں ٹرک اور کارگو کنسائمنٹس دونوں ممالک کے درمیان نقل و حرکت کرتے ہیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کی بحالی سے نہ صرف سرحدی تجارت میں روانی بحال ہوگی بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں بہتری کی توقع بھی ظاہر کی جارہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹرانزٹ ٹریڈ گاڑیوں کو جائے گا جائے گی گیا ہے
پڑھیں:
غزہ منصوبہ: اگلا مرحلہ جلد شروع ہونے والا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ ان کی انتظامیہ کا غزہ کے لیے تیار کردہ منصوبے کا اگلا مرحلہ جلد ہی شروع ہونے والا ہے۔
عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان انہوں نے ایسے وقت میں کیا جب خطے میں تشدد کی نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے، تاہم بدھ کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ دوسرا مرحلہ کب شروع ہوگا، تو ٹرمپ نے براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ یہ عمل بہت اچھا چل رہا ہے، ہمارے پاس مشرق وسطیٰ میں امن ہے، لوگ اسے نہیں سمجھ رہے۔
اس دعوے پر اسرائیلی فضائی حملوں میں ہونے والی اموات کی رپورٹس سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
حملے اس دھمکی کے بعد کیے گئے تھے، جو اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اس وقت دی تھی، جب رفاع میں فلسطینی مجاہدین کے ساتھ جھڑپوں میں اسرائیلی فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی تھی۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’فیز ٹو آگے بڑھ رہا ہے، یہ بہت جلد شروع ہونے والا ہے‘۔
انہوں نے اس سے پہلے 14 اکتوبر کو دعویٰ کیا تھا کہ دوسرا مرحلہ ’پہلے ہی شروع ہو چکا ہے‘۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ ٹیلیفون کال میں امریکی صدر نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے متعدد امور پر بات کی تھی، جن میں انہوں نے نیتن یاہو سے اپنا رویہ تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
کال کے دوران ٹرمپ نے نیتن یاہو سے پوچھا کہ ’وہ (حماس کے جنگجو) کیوں مارے جا رہے ہیں، انہیں ہتھیار کیوں نہیں ڈالنے دیے جا رہے؟۔
یہ سوال رفاع میں مبینہ طور پر مارے گئے حماس جنگجوؤں کے تناظر میں کیا گیا تھا، نیتن یاہو نے مبینہ طور پر جواب دیا کہ وہ ’مسلح اور خطرناک‘ ہیں، اسی لیے انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ غزہ میں جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر مذاکرات کسی بڑی پیش رفت کے بغیر جاری ہیں، ایسے وقت میں جب جنگ بندی خود خاصی نازک دکھائی دے رہی ہے۔
پہلے مرحلے میں 10 اکتوبر کو اسرائیلی افواج کا ایک ایسی لائن تک انخلا شامل تھا، جو اب بھی انہیں غزہ کے نصف سے زائد حصے پر عسکری کنٹرول دیتی ہے، حماس یا اس کے اتحادیوں کے پاس موجود تمام قیدیوں کی رہائی، اور غزہ میں داخل ہونے والی انسانی امداد میں اضافہ شامل تھا۔
اگرچہ 13 اکتوبر کو تمام زندہ قیدیوں کو رہا کر دیا گیا تھا، تاہم ایک لاش اب بھی غزہ میں موجود بتائی جاتی ہے۔
فی الحال اسرائیلی حکومت کا مطالبہ ہے کہ دوسرے مرحلے پر بات چیت تب تک شروع نہیں ہوگی، جب تک آخری مغوی کی باقیات واپس نہیں کی جاتیں، جو درمیانی ممالک امریکا، مصر، قطر اور ترکی کے ذریعے واپس ہونی ہیں۔
مصر غزہ کی تعمیرِ نو پر ایک کانفرنس کی میزبانی بھی کرے گا، جو اس علاقے کی انسانی ضروریات پر توجہ دے گی، مگر اس کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی۔
عملی طور پر یہ عمل زیادہ تر ٹرمپ پلان کے دھندلے نکات کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی کے محقق مائیکل ملشٹائن نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اس بات پر کوئی سنجیدہ غور نہیں کر رہا کہ جنگ کے بعد کا مرحلہ کیسا ہوگا۔