غزہ امن مشن میں متعدد ممالک شمولیت پر آمادہ؛ امریکی وزیر خارجہ کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
غزہ امن مشن میں متعدد ممالک شمولیت پر آمادہ؛ امریکی وزیر خارجہ کا انکشاف WhatsAppFacebookTwitter 0 23 October, 2025 سب نیوز
غزہ کی صورتحال میں بہتری کےلیے عالمی سطح پر کوششیں تیز ہوگئیں۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے انکشاف کیا ہے کہ کئی ممالک غزہ کے لیے مجوزہ بین الاقوامی امن فورس میں حصہ لینے پر آمادگی ظاہر کرچکے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس فورس کا مقصد جنگ زدہ علاقے میں امن و استحکام قائم کرنا اور انسانی امداد کی راہ ہموار کرنا ہے۔
روبیو نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے اُس متنازع اقدام پر بھی تشویش ظاہر کی جس میں مغربی کنارے کے انضمام سے متعلق قانون سازی کی گئی ہے۔ ان کے مطابق یہ قدم غزہ امن معاہدے کےلیے ایک سنجیدہ خطرہ بن سکتا ہے اور خطے میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
امریکی درخواست پر برطانوی فوج نے بھی امن منصوبے کی نگرانی میں کردار ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ایک سینئر کمانڈر اور چند فوجیوں پر مشتمل ٹیم کو اسرائیل بھیج دیا گیا ہے، جو غزہ میں امن منصوبے کی پیش رفت کا جائزہ لے گی اور اس کی نگرانی کرے گی۔
دوسری جانب امریکی سینٹ کام کے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر نے واضح کیا کہ غزہ امن مشن کےلیے روانہ ہونے والے 200 فوجیوں میں امریکی فوجی شامل نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس مشن میں براہِ راست مداخلت سے گریز کرے گا لیکن اتحادی ممالک کی مدد اور رابطے برقرار رکھے گا۔
یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کم اور انسانی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ عالمی برادری اب ایک ایسے منصوبے کی تلاش میں ہے جو نہ صرف جنگ کو روکے بلکہ علاقے میں دیرپا امن کے قیام کے لیے بنیاد بھی فراہم کرے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین اور امریکہ کے درمیان معاشی و تجارتی مذاکرات کل سے ملائشیا میں ہوں گے چین اور امریکہ کے درمیان معاشی و تجارتی مذاکرات کل سے ملائشیا میں ہوں گے چین کا شامی عبوری حکومت سے دہشت گردی کے خلاف اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا مطالبہ امریکا کا روس کی دو بڑی آئل کمپنیوں پر پابندیاں لگانے کا اعلان اسرائیلی پارلیمنٹ نے مقبوضہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کی منظوری دے دی یورپی فریق چین اور روس کی کمپنیوں کے معمول کے تجارتی تبادلوں پر اعتراض کرنے کا اہل نہیں ہے ، چینی وزارت خارجہ بھارت اور افغان طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: امریکی وزیر
پڑھیں:
ٹیرف اور قرضے دنیا کے بیشتر ممالک کی ترقی میں رکاوٹ، ریبیکا گرینسپین
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 اکتوبر 2025ء) دنیا میں 72 فیصد تجارت عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے قواعد کے تحت ہوتی ہے۔ تباہ کن تجارتی جنگوں سے بچنے کے لیے اصولوں پر مبنی اس نظام کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔
یہ بات اقوام متحدہ کی تجارتی و ترقیاتی کانفرنس (انکٹاڈ) کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرینسپین نے جنیوا میں ادارے کے چار سالہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت دنیا ایسے مسائل سے بچنے میں کامیاب رہی ہے جس نے 1930 کی دہائی میں تجارتی محصولات میں اضافے سے جنم لیا جس کے نتیجے میں عالمی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ تاہم، حالیہ عرصہ میں اس حوالے سے بدترین خدشات نے جنم لیا ہے۔ Tweet URLانہوں نے کہا کہ اب تک دنیا کو تجارتی تحفظ مثبت سوچ کے ساتھ کی جانے والی بات چیت کے نتیجے میں ملا ہے جو اس وقت بھی جاری رہی جب بظاہر یہ بے معنی معلوم ہوتی تھی۔
(جاری ہے)
اس سوچ کی ضرورت آج پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے جب بڑھتے ہوئے تجارتی محصولات، مقروض ممالک پر قرضوں کی بھاری ادائیگیوں کی ذمہ داری اور بڑھتی ہوئی باہمی بےاعتمادی ترقی کی رفتار کو روک رہے ہیں۔مشکل معاشی فیصلےریبیکا گرینسپین نے کہا کہ بہت سے ممالک کو قرض اور ترقی کا بحران درپیش ہے۔ انہیں قرض کی ادائیگی کے لیے اپنی ترقی کے عمل کو روکنے جیسے نہایت مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔
امریکہ سمیت کئی بڑی معیشتوں کی جانب سے عائد کردہ محصولات کی شرح رواں سال اوسطاً 2.8 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔محصولات سرمایہ کاری کو روکنے، ترقی کی رفتار کو سست کرتے اور تجارت کے ذریعے ترقی کو انتہائی مشکل بنا دیتے ہیں۔
سرمایہ کاری میں کمیریبیکا گرینسپین نے خبردار کیا کہ عالمی سطح پر سرمایہ کاری میں مسلسل دوسرے سال بھی کمی واقع ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں آئندہ ترقی کمزور پڑ جائے گی۔
سرمایہ کاری کا موجودہ نظام زیادہ تر امیر ممالک کے منصوبوں کو ترجیح دیتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر زیمبیا میں ایک ڈالر کمانے کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری زیورچ کے مقابلے میں تین گنا مہنگی پڑتی ہے۔مال برداری (فریٹ) کے اخراجات انتہائی غیر مستحکم ہو چکے ہیں اور بندرگاہوں سے محروم یا جزائر پر مشتمل چھوٹے ترقی پذیر ممالک کو نقل و حمل کے اخراجات کی مد میں عالمی اوسط سے تین گنا زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔
اگرچہ مصنوعی ذہانت عالمی معیشت میں کھربوں ڈالر کا اضافہ کر سکتی ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں ایک تہائی نے ہی اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی ہے۔ 2.6 ارب لوگ اب بھی انٹرنیٹ سے محروم ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے اور زیادہ تر کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔
قرض کا بحراناقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیئربوک نے گرینسپین کے خدشات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال ترقی پذیر ممالک کا قرض 31 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔
قرض کے اس بوجھ کی وجہ سے حکومتیں اپنے لوگوں کے لیے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے بھاری رقوم قرضوں کی ادائیگی پر صرف کر رہی ہیں۔
جنرل اسمبلی کی صدر نے کہا کہ بین الاقوامی نظام پر اعتماد تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ عالمی معیشت کی مجموعی مالیت 100 کھرب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے لیکن دنیا کی نصف آبادی نے ایک نسل سے اپنی آمدنی میں کوئی خاص اضافہ نہیں دیکھا۔