Jasarat News:
2025-10-26@09:31:01 GMT

علم اور مطالعے کی اہمیت

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مسلمانوں کی یہاں علم اور مطالعے کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ دنیا کی کوئی اور قوم یا ملت اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایمان کے بعد جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تقریباً 800 مقامات پر علم کی اہمیت اور ضرورت واضح کی ہے۔

رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ علم پیغمبروں کی چھوڑی ہوئی میراث ہے۔ حضور اکرمؐ نے ایک حدیث پاک میں فرمایا ہے کہ میں علم کا شہر ہوں۔ ابوبکرؓ اس کی بنیاد ہیں۔ عمرؓ اس کی دیوار ہیں۔ عثمانؓ اس کی چھت ہیں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔

اگر دنیا بھر کے عالموں پر نظر ڈالی جائے تو امام غزالیؒ بلاشبہ دنیا کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام غزالیؒ کے زمانے میں ایک عالم نے رسول اکرمؐ کو خواب میں دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ رسول اکرمؐ سیدنا موسیٰؑ اور سیدنا عیسیٰؑ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ کی اُمتوں میں کوئی امام غزالیؒ جیسا عالم ہے اور سیدنا موسیٰؑ اور سیدنا عیسیٰؑ کہہ رہے ہیں کہ ہماری امتوں میں آپ کی امت کے عالم غزالیؒ جیسا کوئی عالم موجود نہیں۔ آج مغربی دنیا کے پاس سائنس کا جتنا علم ہے۔ وہ سب کا سب مسلمانوں کے ذریعے ہی مغربی دنیا تک پہنچا ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی مسلمانوں میں بڑے بڑے عالم پیدا ہوئے ہیں۔ اس کی ایک مثال سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں جن کی کتابیں دنیا کی 75 زبانوں میں ترجمہ ہو کر کروڑوں لوگوں تک پہنچی ہیں۔ دنیا کی کسی بھی دوسری قوم یا امت کے پاس ایسا عالم نہیں جس کی کتابیں 75 زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہوں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہماری زندگی میں مطالعے کی اہمیت کیا ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مطالعہ حصول علم کا بڑا ذریعہ اور ذہن کی غذا ہے۔ اگر کوئی شخص چار پانچ وقت کھانا نہ کھائے تو جسمانی کمزوری کی وجہ سے اس کو چکر آنے لگیں گے۔ انسان اگر دوچار دن غذا استعمال نہ کرے تو جسمانی کمزوریوں سے بے ہوش ہونے لگے گا اور اگر اس کو دس بارہ دن تک کھانا پینا فراہم نہ ہو تو اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ یہی معاملا، مطالعے اور ذہن کا بھی ہے۔ انسان دو چار سال مطالعہ نہ کرے تو انسان کُند ذہن ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذہن کو نشوونما کے لیے غذا فراہم نہیں ہوپاتی۔ انسان آٹھ دس سال مطالعہ نہ کرے تو اس کی کُند ذہنی کم عقلی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اور اگر انسان دس پندرہ سال تک مطالعے سے محروم رہے تو انسان کے ذہن کی موت واقع ہوسکتی ہے اور انسان کی زندگی جہالت کی تاریکی میں ڈوب سکتی ہے۔ اور جہالت ایمان کی ضد ہے۔ اسلام کی ضد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ہر دور میں نہ صرف یہ کہ لاکھوں کتابیں لکھی ہیں بلکہ علم اور مطالعے کو عام کرنے کے لیے ہزاروں بڑے بڑے کتب خانے یا لائبریریاں قائم کی ہیں۔ ایک وقت تک مسلمانوں کے شہر بغداد، دمشق، قرطبہ، دہلی اور سمرقند و بخارا علم اور کتب خانوں کے بڑے بڑے مراکز تھے۔ اس زمانے میں مسلمانوں میں علم کا اتنا شوق تھا کہ مسلمانوں کے گھر اور چیزوں کے ساتھ ساتھ گھر میں موجود لائبریری سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ جس شخص کے پاس جتنی بڑی لائبریری ہوتی تھی اسے اتنا ہی عالم، علم دوست اور قابل عزت سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان ایمان علم اور مطالعے کی قوت سے تقریباً آٹھ سو سال تک دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ رہے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے مسلمانوں میں علم اور مطالعے کا شوق کم ہوگیا ہے۔ بالخصوص پاکستان میں علم اور مطالعے کی حالت اچھی نہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ ہے۔ لیکن ہمارے یہاں بڑے بڑے عالموں اور شاعروں کی کتابیں بھی ایک ہزار سے زیادہ شائع نہیں ہوتیں۔ یہ ایک ہزار کتابیں بھی تین چار سال میں فروخت ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں کے جو اخبارات شائع ہوتے ہیں ان کی مجموعی اشاعت چند لاکھ سے زیادہ نہیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے جس کی آبادی تین کروڑ ہے لیکن اتنے بڑے شہر میں ایک لائبریری بھی ایسی نہیں جہاں سے کتاب جاری کراکے گھر لائی جاسکے۔ ہمارے اکثر اسکول اور کالج لائبریریوں سے محروم ہیں۔ ہمارے گھروں میں قیمتی گاڑیاں ہیں، قیمتی فرنیچر ہے، قیمتی قالین ہیں، قیمتی ٹی وی اور فریج ہیں لیکن ہمارے اکثر گھر لائبریری سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے مگر ہمیں نہ اس پر افسوس ہوتا ہے نہ شرمندگی ہوتی ہے۔ ہم ایک زمانے میں بچوں کے ایک رسالے میں کام کرتے تھے۔ وہاں اکثر بچوں کے ایسے خطوط آتے تھے جن میں وہ کہتے تھے کہ ہمارے والدین ہم سے بہت محبت کرتے ہیں، ہمارا بہت خیال کرتے ہیں، ہماری غذا اور لباس پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں مگر وہ ہمیں دس روپے کا بچوں کا رسالہ نہیں خریدنے دیتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کی وجہ کیا ہے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ مہنگائی ہے، کتابیں مہنگی ہوگئی ہیں اور ہم اس وجہ سے انہیں خرید نہیں پاتے۔ لیکن اس حوالے سے ہمارے معاشرے کا معاملہ عجیب ہے، ہم پانچ ہزار روپے کا جوتا اور دس ہزار کا لباس خریدتے ہیں اور اسے ’’سستا‘‘ سمجھتے ہیں لیکن 200 روپے کی کتاب ہمیں ’’مہنگی‘‘ لگتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جوتے اور لباس کو ہم ’’ضروری‘‘ سمجھتے ہیں اور کتاب ہمیں ’’غیر ضروری‘‘ محسوس ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب ہماری پہلی پسند نہیں ہے بلکہ اکثر صورتوں میں ہماری آخری پسند بھی نہیں ہے۔ یعنی اگر ہمارے پاس 10 ہزار روپے ہوں اور ہمیں ان دس ہزار سے پانچ چیزیں خریدنی ہوں تو کتاب ان پانچ چیزوں میں شامل نہیں ہوگی۔

کتاب اور مطالعے سے دوری کا ایک سبب یہ ہے کہ معاشرے میں علم سے نہ عزت ملتی ہے۔ نہ شہرت ملتی ہے چنانچہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ علم اور مطالعے کا کیا فائدہ؟ اس کے برعکس دولت نے معاشرے میں بے انتہا اہمیت حاصل کرلی ہے۔ جس کے پاس دولت ہے اسے اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس کی عزت کی جاتی ہے خواہ اس نے یہ دولت رشوت، جھوٹ اور اسمگلنگ ہی سے کیوں نہ کمائی ہو۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے کا ہر شخص کسی بھی طرح سہی دولت مند بننا چاہتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا ایک بہت ہی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نے ہمارے ہیرو بدل دیے ہیں۔ کبھی ہمارے ہیرو عالم تھے۔ شاعر تھے۔ ادیب تھے۔ سائنس دان تھے۔ مگر اب معاشرے کے ہیرو کھلاڑی، اداکار اور سیاست دان ہیں اور ان تینوں کاموں کے لیے نہ علم کی ضرورت ہے۔ نہ مطالعے کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اگر معاشرے میں علم اور مطالعے کو اہم بنانا ہے تو ہمیں کتاب کو جوتے اور لباس پر ترجیح دینی ہوگی۔ علم اور مطالعے کو عزت اور شہرت کا ذریعہ بنانا ہوگا اور ہمارے ذرائع ابلاغ کو اپنی روش تبدیل کرکے ’’حقیقی ہیروز‘‘ کو نمایاں کرنا ہوگا۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ علم اور مطالعے کے فوائد کیا کیا ہیں؟

علم اور مطالعے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کے ذریعے ہم اپنے خالق مالک اور رازق کو پہچانتے ہیں۔ علم اور مطالعہ ہمیں اچھا انسان بناتا ہے۔ مطالعہ ہمیں عالم اور ذہین بناتا ہے۔ مطالعے سے انسان کو زبان و بیان پر عبور حاصل ہوتا ہے اور وہ کسی بھی محفل میں بات کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ مطالعے سے ہمیں علم ہوا ہے کہ دنیا کے کسی شعبے میں کس نے کیا کمال حاصل کیا ہے اور ہم وہ کمال کس طرح پیدا کرسکتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ علم اور مطالعے کے حامل افراد ہی دنیا کی قیادت کرتے ہیں۔ آخر ہم میں سے کون ہے جو اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا نہیں کرنا چاہے گا؟ تو آئیے آج ہی سے اپنی زندگی میں علم اور مطالعے کو غالب کرنے کی جدوجہد شروع کرتے ہیں۔

شاہنواز فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں علم اور مطالعے علم اور مطالعے کو علم اور مطالعے کی کہ علم اور مطالعے مطالعے سے ہے کہ علم کرتے ہیں کی اہمیت یہ ہے کہ کی کتاب ہیں اور دنیا کی بڑے بڑے اور ہم ہے اور کی وجہ کے پاس

پڑھیں:

ضم اضلاع کے بقایاجات فوری ادا کیے جائیں: سہیل آفریدی

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی—فائل فوٹو

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ ضم اضلاع کے بقایاجات فوری ادا کیے جائیں، ہمیں بھیک نہیں اپنا حق دیا جائے۔

باڑہ میں امن جرگے سے خطاب کرتے ہوئے سہیل آفریدی نے کہا کہ قبائل اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے، پاکستانی ہیں اور رہیں گے۔

وزیرِ اعلیٰ کے پی سے پارٹی قیادت کی ملاقات، بانی سے ملاقات کے بعد کابینہ تشکیل دینے پر اتفاق

پشاور میں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی سے پی ٹی آئی کی قیادت نے ملاقات کی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ضم اضلاع کے بقایاجات فوری ادا کیے جائیں، ہمیں بھیک نہیں چاہیے، ہمیں اپنا حق دیا جائے۔

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ میری نامزدگی پر اعتراضات اٹھائے گئے۔

وزیرِ اعلیٰ کے پی سہیل آفریدی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر ضلع میں امن جرگوں کا انعقاد کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ضم اضلاع کے بقایاجات فوری ادا کیے جائیں: سہیل آفریدی
  • افسوس بلوچستان کے بےشمار قدرتی وسائل اور اس کی دولت اب بھی زمین کے اندر دفن ہے، وزیر اعظم
  • نماز پڑھ کر بھی نماز برائیوں سے نہیں بچا رہی تو انسان اپنے اعمال پر نظر ثانی کرے، مولانا ضیاءالحسن نجفی
  • کشتیوں اور میزائلوں کی نقل و حرکت ہمیں مرعوب نہیں کر سکتی، ویزویلا
  • وفاق نے تحفظات دور کرانے کی یقین دہانی کرائی، مزید مسائل پیدا کرنا نہیں چاہتے، شازیہ مری
  • پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کرایے پرلائی گئی ہے،فوادچودھری
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کل ہونگے، افغان طالبان ہمارے خدشات دور کریں، دفتر خارجہ
  • بلٹ پروف گاڑیاں ہمیں دی جائیں، کے پی حکومت کے انکار پر سندھ کا وفاق کو خط
  • گھر میں ایک اور شکست، پاکستانی ٹیم ہمیں کب حیران کرے گی؟