وزیراعظم شہباز شریف نے آر ایل این جی کنکشن کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2022 میں پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو بے پناہ دباؤ تھا کہ نئے کنکشن دیے جائیں لیکن اس وقت یہ ممکن نہیں تھا کیوں کہ گیس دستیاب نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ آج وہ دن آیا ہے کہ پورے پاکستان میں گھریلو صارفین کے لیے گیس کا اجرا کیا جا رہا ہے، لاکھوں درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ مخلوط حکومت اور اتحادیوں کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آج کنکشن کا اجرا ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: وفاقی کابینہ کا نئے گیس کنکشنز پر عائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ

اس سے قبل وفاقی کابینہ نے نئے گیس کنکشنز پر عائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، ساتھ ہی ملک میں زرعی اور ماحولیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کی بھی منظوری دی گئی۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر توانائی علی پرویز ملک اور وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم اور کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ عوام کو گیس کے نئے کنکشن فراہم کیے جائیں گے تاکہ اس حوالے سے درپیش مشکلات کا خاتمہ ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: گیس بحران کے باوجود حکومت کا 30 ہزار نئے گھریلو کنکشنز دینے پر غور

وفاقی وزیر توانائی علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ عوامی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے پابندی ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اب آر ایل این جی کے کنکشن جاری ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایل این جی شہباز شریف گیس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایل این جی شہباز شریف گیس

پڑھیں:

بیوی کے خُلع اور کسی بھی قسم کے گھریلو تشدد سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بیوی پر کسی بھی قسم کے گھریلو تشدد اور خلع سے متعلق درخواست پر اہم فیصلہ سنادیا۔

نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے سترہ صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس میں پشاور ہائی کورٹ اور فیملی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا کہ عورت کی مرضی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی، ازدواجی زندگی میں نفسیاتی اذیت جسمانی تشدد جتنی سنگین ہے، شوہر کی اجازت کے بغیر دوسری شادی تنسیخِ نکاح کے لیے جائز بنیاد ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عدالتوں کو خواتین سے متعلق محتاط الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جبکہ پارلیمنٹ نے ظلم کی تعریف قانون میں بیان کرنے کی کوشش نہیں بلکہ مختلف مثالیں دے کر اس کی نوعیت اور دائرہ کار کو واضح کیا ہے۔

تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ قانون میں دی گئی مثالیں حتمی نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے وضاحت کے طور پر دی گئی ہیں، عدالتوں کو گنجائش حاصل ہے کہ وہ ظلم کی مختلف صورتوں کو پہچان سکیں اور ظلم ثابت ہونے کی صورت میں انصاف کر سکیں۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ ظلم صرف جسمانی نقصان تک محدود نہیں ہے بلکہ ایسا طرزِ عمل جو ذہنی یا جذباتی اذیت پہنچائے اور عورت کے لیے عزت و سلامتی کے ساتھ گھر میں رہنا ناممکن بنا دے، وہ بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عدالتوں نے ظلم کو ایسے رویے کے طور پر بیان کیا ہے جو صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں، عدالتوں نے قرار دیا ہے کہ ظلم الگ الگ حرکات پر مشتمل ہو سکتا ہے جو بظاہر ایک دوسرے سے جڑی نہ ہوں، مجموعی طور پر نقصان پہنچانا اور عورت کے لیے نکاح میں رہنا ناقابلِ برداشت بنانا بھی ظلم ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے فیصلے میں لکھا کہ عدالتوں نے ظلم کی تعریف کو وسیع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظلم میں ذہنی اذیت دینا، گالم گلوچ کرنا یا جھوٹے الزامات لگانا بھی شامل ہے، جسمانی زخم شرط نہیں، بلکہ ظلم ہر ایسے رویے پر مشتمل ہو سکتا ہے جو عورت کو دکھ، مایوسی اور اعتماد کی کمی سے دوچار کرے۔

سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں لکھا کہ اگر اثرات تکلیف دہ اور شدید ہوں اور ازدواجی زندگی گزارنا ناممکن ہو جائے تو یہ ظلم کہلائے گا۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ انٹرنیشنل کنویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس جسمانی اذیت اور ظالمانہ، غیر انسانی یا تحقیر آمیز سلوک کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی نے اسے گھریلو ظلم کی شکار شادیوں پر بھی لاگو کیا ہے تاکہ تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور انصاف ہو سکے۔

عدالت نے خاتون کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے فیملی کورٹ اور ایپلٹ کورٹ کے فیصلے اور ڈگریاں، اور پشاور ہائی کورٹ کے حکم نامہ خلع، مہر و نان و نفقہ کی حد تک کالعدم قرار دے دیا۔

فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ نکاح کو اس بنیاد پر ختم کیا جاتا ہے کہ دوسری شادی ہوئی، لہٰذا بیوی کو اپنا مہر واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، مئی 2024 کے پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف درخواست پر، جس کے تحت درخواست گزار خاتون کی رِٹ مسترد ہوئی۔

درخواست گزار خاتون کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اس کی موکلہ نے نکاح کے خاتمے کی استدعا کی تھی، جج فیملی کورٹ پشاور اور ایڈیشنل جج نے درخواست گزار خاتون کی باتوں اور دلائل کو نظر انداز کیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ خاتون کی رضامندی کے بغیر خلع کا حکم دے دیا گیا اور حقِ مہر سے محروم کر دیا گیا، ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ فیملی کورٹ نے کیس کو کس انداز میں نمٹایا اور شواہد کا جائزہ کیسے لیا، فیملی کورٹ نے قرار دیا کہ رقم شوہر نے کبھی ادا ہی نہیں کی، اس لیے اسے خلع کے بدلے معاف شدہ مہر تصور کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم کا ملک بھر کے گھریلو صارفین کیلئے گیس کنکشن کھولنے کا اعلان
  • وزیراعظم کا ملک بھر کے گھریلو صارفین کیلئے گیس کنیکشنز کھولنے کا اعلان
  • گھریلو صارفین کے لیے ملک بھر میں گیس کنکشنز کھولنے کا فیصلہ کیا ہے: وزیراعظم
  • وزیراعظم کا ملک بھر میں گھریلو گیس کنکشن کھولنے کا اعلان
  • وزیراعظم کا ملک بھر میں گھریلو گیس کنکشن کھولنے کا اعلان   
  • وزیراعظم کا گھریلو صارفین کے لیے گیس کنیکشنز کھولنے کا اعلان
  • وزیراعظم کا ملک بھر میں گھریلو صارفین کیلئے گیس کنکشن کھولنے کا اعلان
  • بیوی کے خُلع اور کسی بھی قسم کے گھریلو تشدد سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
  • رانا ثنااللہ: تحریک لبیک نے وعدے پورے نہیں کیے، املاک کو نقصان پہنچایا ، پابندی کا فیصلہ شواہد کی بنیاد پر کیا گیا