ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید—فائل فوٹو

سندھ حکومت کی ترجمان  سعدیہ جاوید نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کا شور ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے ہوتا ہے۔

ایم کیو ایم رہنماؤں کی پریس کانفرنس پر اپنے ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے سعدیہ جاوید کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پہلے اپنے گھر کے معاملات ٹھیک کر لے، پھر دوسروں پر بات کرے، ان کے کارکن ان کی نہیں سن رہے تو عوام ان کو کیا سنیں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں دوسروں کے مینڈیٹ پر قبضہ کر کے راج کرنے والے ماسٹر پلان کیوں نہ بنا سکے؟ 2007ء سے 2013ء تک یہ لوگ ہماری حکومت کاحصہ رہے، تب بھی انہیں ماسٹر پلان یاد نہیں آیا۔

سعدیہ جاوید نے کہا کہ پیپلز پارٹی کراچی کے عوام کے لیے کراچی2047ء ماسٹر پلان لا رہی ہے، یہی ان کی تکلیف کی اصل وجہ ہے، ان کے وہ دن گزر گئے جب افسران، عوام اورسیاسی مخالفین کو ڈرا دھمکا کر چپ کرایا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے کراچی کے لیے وژن اور کام کو دیکھ کر ان کی حالت غیر ہو گئی ہے، ان کے رونے دھونے اور بے بنیاد مطالبات سے واضح ہے کہ انہیں اپنی سیاسی حیثیت کا باخوبی اندازہ ہو چکا ہے۔

سعدیہ جاوید نے کہا کہ پیپلز پارٹی کراچی کے لیے جلد مزید ترقیاتی منصوبے لا کر ان کی تکلیف میں اضافہ کرے گی، کراچی میں بھتہ خوری، غیر قانونی بھرتیاں، پرچی سسٹم اور ٹارگٹ کلنگ کا پوچھیں تو سب ایم کیو ایم کا نام لیں گے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: سعدیہ جاوید پیپلز پارٹی ایم کیو ایم نے کہا کہ کے لیے ایم کی

پڑھیں:

خطرہ

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ 18 ویں ترمیم سے چھیڑ چھاڑ آگ سے کھیلنے جیسا ہوگا، پیپلز پارٹی ایسی کسی ترمیم یا اقدام کی حمایت نہیں کرے گی جو وفاق کو کمزور کرے اور صوبوں کے حقوق پر ڈاکے کے مترادف ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو جمہوریت سے 1973 کا متفقہ آئین اور پسماندہ طبقات کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کا فلسفہ دیا۔

بلاول بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے 58 ویں یوم تاسیس پر میڈیا سیل بلاول ہاؤس میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ڈیجیٹل جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی تاریخی سیاسی جدوجہد آج کی سیاسی صورت حال اور مستقبل پر اس کے ممکنہ اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف اس وقت دشمن سازش کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے ذریعے دشمن پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔

ایک جانب بھارت ہے جو میلی آنکھ سے پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان کے ساتھ تلخیاں بڑھ رہی ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بجا طور پرکہا کہ ہمیں دشمن کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا اور سیاست کو اس رخ پر لے جانا ہوگا کہ دشمن ہمارے اندرونی سیاسی اختلافات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

بلاول بھٹو نے آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے یہ موقف اختیارکیا کہ ملک میں ایک آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا حصہ تھا۔

واضح رہے کہ یہ میثاق جمہوریت آج سے 19 سال پہلے 14 مئی 2006 کو پاکستان کی دو سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان لندن میں ہونے والا معاہدہ ہے جس میں مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترمیم، جمہوریت میں غیر سیاسی اداروں کی حیثیت، نیشنل سیکیورٹی، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں دونوں سیاسی جماعتوں کے نکتہ نظر کو بیان کیا گیا ہے۔

یہ معاہدہ آٹھ صفحات پر مشتمل ہے جس پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے دستخط بھی موجود ہیں، اسے عرف عام میں چارٹر آف ڈیموکریسی بھی کہا جاتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے یوم تاسیس پر اپنے خطاب میں جن باتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ نہایت اہم اور سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہیں۔

بالخصوص ملک میں امن و امان کی صورت حال، دہشت گردی کے واقعات، بھارت اور افغانستان گٹھ جوڑ سے ہونے والی دراندازی جس نے کے پی کے اور بلوچستان کو طویل عرصے سے نشانہ بنا رکھا ہے، اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے افسر اور جوان اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر، کے پی کے اور بلوچستان میں امن کے قیام اور فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔

لیکن چالاک، مکار اور عیار دشمن وقفے وقفے سے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو لمحہ فکریہ بھی ہے ۔

بلاول بھٹو نے بالکل درست کہا کہ ہمیں دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے یک جان ہو کر مقابلہ کرنا ہوگا اور سیاست کو اس رخ پر لے جانا ہوگا کہ دشمن ہمارے اندرونی سیاسی اختلافات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

اس تناظر میں جب ملک کے سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو صورت حال ہرگز تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی۔ اتحادی حکومت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پی پی اور مسلم لیگ (ن) میں اعتماد کا گہرا فقدان ہے۔

سندھ میں نہروں کی تقسیم سے لے کر 18 ویں ترمیم تک پیپلز پارٹی کے مطالبات کو حکمران (ن) لیگ توجہ دینے میں ناکام ہیں۔ کے پی کے میں پی پی پی کے گورنر کی تبدیلی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔

گورنر سندھ کو ہٹانے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور کہیں سندھ کی تقسیم اور نئے صوبوں کی بحث چھیڑی جا رہی ہے اور صوبوں کے حقوق اور 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ ادھر اپوزیشن کے ساتھ بھی حکمران اتحاد کے تعلقات میں اعتماد کی کوئی جھلک پروان چڑھتی نظر نہیں آ رہی ہے۔

کے پی کے میں گورنر راج لگانے کی افواہوں نے حکومت اپوزیشن کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو گورنر راج کی صورت میں سخت ردعمل دینے کی تیاری کر رہی ہے۔

ایسے حالات میں ملک میں نہ تو سیاسی استحکام آ سکتا ہے اور نہ ہی معاشی ترقی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ سیاسی اختلافات وطن عزیز اور قومی یکجہتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ 
 

متعلقہ مضامین

  • خطرہ
  • سندھ ضلع شکارپور میں ڈاکو راج کیخلاف آپریشن میں زخمی اہلکاروں کیلئے دعاگو ہیں، علامہ شبیر حسن میثمی
  • انسانی حقوق کے عالمی دن پر بھی ایم کیو ایم لسانی سیاست سے باز نہیں آئی، سعدیہ جاوید
  • انسانی حقوق کے عالمی دن پر بھی ایم کیو ایم لسانی سیاست سے باز نہیں آئی: سعدیہ جاوید
  • نظام انصاف کا کرپشن میں تیسرے نمبر پر آنا لمحہ فکر ہے،جاوید قصوری
  • یو اے ای میں نوکری تلاش کرنیوالوں کیلئے بہترین مہینہ کونسا ہے؟
  • اللہ کی مدد ہمیشہ مشکل سے پہلے آ جاتی ہے؛ منیب بٹ کا ایمان افروز بیان
  • "نوبل انعام" حاصل کرنے کیلئے ٹرمپ نے ذاتی طور پر "مدد کی درخواست" کی، محمد شیاع السودانی
  • ہمارے بچے مر رہے ہیں کراچی کا میئر کہاں ہے؟
  • حادثات و گٹروں کے سانحات پر سیاست