اسرائیل ہمیں خود غیر مسلح کر کے دکھائے، سربراہ حزب الله
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
اپنے ایک انٹرویو میں شیخ نعیم قاسم کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جیلوں سے لبنانی قیدیوں کی رہائی، حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو اس معاملے کو آگے بڑھانا چاہئے، زیادہ فیصلہ کن انداز اختیار کرنا چاہئے اور زیادہ گرمجوشی سے سرگرم ہونا چاہئے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان كی مقاومتی تحریک "حزب الله" كے سیكرٹری جنرل "شیخ نعیم قاسم" نے كہا كہ یہ حکومت کا فیصلہ ہے کہ وہ ملک کے اندر مسلح و غیر مسلح مسئلے کے ساتھ کیسے نمٹتی ہے، اسرائیل کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار المنار ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم ایران کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہم نے اپنی آخری سانس تک دفاع اور مزاحمت کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اگر دشمن ہمارے ہاتھوں سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کرے گا تو اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ تعمیر نو کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں ہر ممکن اقدام کرنا چاہئے۔ حزب الله کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اسرائیلی جیلوں سے لبنانی قیدیوں کی رہائی، حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو اس معاملے کو آگے بڑھانا چاہئے، زیادہ فیصلہ کن انداز اختیار کرنا چاہئے اور زیادہ گرمجوشی سے سرگرم ہونا چاہئے۔ داخلی مسائل کے پس منظر میں انہوں نے کہا کہ ہم وزیر اعظم سے پُرامید ہیں۔ ہم تنازعہ نہیں بلکہ تعاون چاہتے ہیں، ہم ملک میں اتحاد و یکجہتی کے خواہاں ہیں۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ ہم حکومت کے ساتھ ہر ممکنہ تعاون کے لئے تیار ہیں۔ اگر وہ ایک قدم اٹھائیں گے تو ہم دس قدم اٹھائیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
حکومت کا گیس سیکٹر میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا فیصلہ
اسلام آباد:گیس مارکیٹ میں نجی شعبے کی شمولیت کے بعد حکومت نے گیس یوٹیلیٹیز کو کمرشل بنیادوں پر چلانے کیلیے بڑے پیمانے پر ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا فیصلہ کر لیا ہے۔
نئے گیس فیلڈز سے نجی شعبے کیلیے گیس کا حصہ 10 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کر دیا گیا جس کے بعدمارکیٹ میں مسابقت پیدا ہونے کی توقع ظاہرکی جارہی ہے۔
اس سے قبل ملک میں صرف دوسرکاری کمپنیوں کے ذریعے ہی گیس کی ترسیل و تقسیم ہوتی تھی۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے اوگرا کو ہدایت کی ہے کہ وہ گیس کمپنیوں کیلیے فکسڈ ایسٹ ریٹرن فارمولا ختم کر کے نیا ڈھانچہ تیار کرے۔
اوگرا کی جانب سے اس مقصد کیلیے کے پی ایم جی کے کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جو رواں ماہ کے آخر تک اپنی رپورٹ جمع کرائیں گے۔
مزید برآں پیٹرولیم ڈویژن بھی عالمی بینک کے تعاون سے گیس سیکٹرکی مجموعی ری اسٹرکچرنگ پر کام کر رہاہے۔
فی الحال سرکاری گیس کمپنیاں ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی اپنی بڑھتی ہوئی پائپ لائن نیٹ ورک کی وجہ سے منافع میں اضافہ کر رہی ہیں، جس کا بوجھ صارفین پر پڑتا ہے۔
ایس این جی پی ایل کے آپریٹنگ اخراجات 2019-20 میں 66 ارب روپے سے بڑھ کر 2023-24 میں 94 ارب روپے ہو چکے ہیں، جبکہ منافع 19 ارب سے بڑھ کر 38.9 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
حالانکہ گیس دستیابی مسلسل کم ہورہی ہے، صنعتی صارفین طویل عرصے سے فکسڈ ریٹرن فارمولے پر تنقید کرتے آئے ہیں۔
ان کامؤقف ہے کہ نیٹ ورک کے پھیلاؤ سے کمپنیوں کے منافع میں اضافہ، جبکہ گیس دستیابی میں کمی ناانصافی ہے۔
نجی شعبہ نہ صرف یو ایف جی کیلیے یکساں بینچ مارک کا مطالبہ کر رہا ہے، بلکہ کمپنیوں کے تنظیمی ڈھانچے کی از سرِ نو تشکیل اور ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن اورسیلز کیلیے الگ اکاؤنٹنگ سسٹم کی بھی سفارش کررہا ہے۔
ان کے مطابق ایسٹ بیسڈ ریٹرن کے بجائے فی ایم ایم بی ٹی یو مقررہ مارجن نافذ کیا جائے، گیس سیکٹرمیں کراس سبسڈی طویل عرصے سے بڑا مسئلہ رہی ہے۔
گھریلو صارفین کیلیے کم نرخ برقراررکھنے کیلیے صنعتی اورکمرشل صارفین پر زیادہ قیمتیں لگائی جاتی رہی ہیں،جس پر صنعت شدید اعتراض کرتی ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے بھی حکومت پرزور دیتے رہے ہیں کہ کراس سبسڈی کا نظام ختم کیا جائے، حکومت نے 2026 تک گھریلو صارفین کیلیے کراس سبسڈی ختم کر کے پاور سیکٹرکی طرز پر براہِ راست سبسڈی ماڈل متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ سبسڈی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے آمدنی کی بنیاد پرفراہم کی جائیگی،اس مقصد کیلیے بھی کے پی ایم جی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں،جبکہ خصوصی گروپ کراس سبسڈی کے متبادل نظام پر کام کر رہا ہے۔
اس وقت گھریلو صارفین 150 ارب روپے سے زائد کراس سبسڈی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، جس کا بوجھ صنعتی، کمرشل اورکیپٹو پاور صارفین پر ڈالا جاتا ہے۔