واہ رے پاکستان۔۔ تیری قسمت
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: واہ رے پاکستان تیری قسمت۔۔ کب تیرے حالات بدلیں گے؟ کب تجھ سے خزاں کا سایہ ہٹے گا؟ کب تجھے طاقتور اور غیر منتخب لوگوں کی گرفت سے آزادی ملے گی؟ کب تجھ سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی روح شاد ہوگی؟ کب تیرے حالات دیکھ کر مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی مضطرب روح و جسم کو اطمینان حاصل ہوگا؟ شاید۔۔ کسی دن ایسا ہوگا۔۔ تحریر: علی ناصر الحسینی
پاکستان بھی عجیب اسلامی و جمہوری مملکت ہے، جہاں کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا ہے۔ جہاں گدا، بادشاہ، مجرم حکمران، چور، چوکیدار، دہشت گرد، سفیر امن، ملک کے وجود اور قیام کا کھلا مخالف، مملکت کا ماما چاچا بنتے دیر نہیں لگتی۔ یہاں مہربانوں کی مہربانیاں ہی یہ چھو منتر رکھتی ہیں۔ "جو چاہے حسن آپ کا، کرشمہ ساز کرے" کے مصداق جس پر نظر کرم ہو جائے، اس پر سب کچھ نچھاور کیا جاتا ہے۔ جب چاہے کسی کا پٹا کھول دیا جائے، جب چاہا کسی کو لگام ڈال دی جائے۔۔ جب چاہا کسی کو نکیل ڈال دی جائے، جب چاہا کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ جب چاہا کسی کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جاتا ہے، جب چاہا کسی کو عسکری ہیلی کاپٹرز میں سیر و سیاحت کراتے پھریں۔ جسے چاہا کسی کو کالعدم قرار دے دیں اور جب ضرورت محسوس کی، اسی کالعدم کو کسی کو کالعدم قرار دینے کیلئے استعمال کر لیا جائے۔ جب دل کیا دہشت گردوں کو قومی دھارے میں شامل کروا لیا، جب چاہا انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا اور تو اور سیاسی میدان میں بھی حاضر تاریخ میں ایسے ہی عجوبے واقع ہوئے ہیں کہ تاریخ کے اوراق میں انہیں سیاہ ابواب ہی لکھا اور پکارا جائے جائے گا۔
ایک پارٹی اور اس کی قیادت کو جس بری طرح لتاڑا گیا تھا، اس سے بری طرح انہیں واپس لایا گیا کہ عدالتوں کے مفرور عسکری جہازوں پر بیٹھ کر وزارتوں کے حلف اٹھاتے دیکھے گئے۔ کہنے کو جمہوریت ہے، حکومت بھی معروف جمہوری سیاسی جماعتوں کی ہے، مگر جس قسم کا سیاسی ماحول بنا دیا گیا، اس کو سب جانتے بوجھتے، سمجھتے ہوئے اپنا اپنا حصہ لے کر چین کی بانسری بجا رہے ہیں اور مستقبل پر نظریں گاڑ کر بیٹھے ہیں کہ اگلی باری ان کی آجائے۔ ایسے ماحول میں کسی کو عوام میں جانے کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں ہوتی، نا عوام کے سامنے جواب دہ ہونے کا خوف باقی رہا ہے کہ سب جان بوجھ چکے ہیں کہ عوامی پرچی اور ووٹ کی کیا ارزش و اہمیت ہے۔؟ فارم 45 کے مقابل فارم 47 کا چلن سامنے آچکا ہے، لہذا عوام کے ووٹوں پر کون اعتبار کرے، کیوں بھاری رقوم خرچ کرے۔؟
اس ساری تمہید کا تعلق گذشتہ دنوں بعض دہشت گرد، تکفیری گروہوں کی طرف سے سامنے آنے والے اقدامات، اعلانات، گیدڑ بھبکیاں، بھونڈے اور گھسے پٹے الزامات جن کا سر ہوتا ہے نا پائوں، ایک بار پھر وفاقی دارالحکومت میں دیکھنے، سننے کا موقع ملا۔ یہ بھونڈے، گھٹیا الزامات ایسے وقت میں سامنے آئے، جب پاکستان و جمہوری اسلامی ایران کے درمیان ایک مضبوط اور توانا، اعتماد کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ اس وقت جو دوست بھی جمہوری اسلامی ایرن میں مقیم ہیں، یا زیارات و تجارت کی غرض سے آتے جاتے ہیں، وہ آگاہ ہیں کہ ایرانی حکومت، ایرانی عوام اہل پاکستان کے کس قدر ممنون، شکر گزار اور مرعوب دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے مثالی تعلقات کے دور میں یکا یک کراچی میں ہونے والے اکا دکا واقعات کو خواہ مخواہ ایران کے ساتھ جوڑ کر فتنہ انگیزی کی جا رہی ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا، جب بھی پاکستان میں کوئی ایرانی وفد کسی معاہدہ یا سرکاری دورے پر آ رہا ہوتا ہے تو ایسا کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی کچھ سرکاری وزارتوں کے نمائندگان کیساتھ کچھ معاہدے متوقع تھے کہ اسی دوران یہ فتنہ کھڑا کیا گیا۔ ماضی میں کلبھوشن یادیو کو ایسے وقت میں لانچ کیا گیا، جب ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی پاکستان کے دورے پر تھے۔ شاید اعلیٰ و مراکز طاقت میں بیٹھے کارپرداز یہ سب کھیل کھیلتے ہیں، تاکہ پاک ایران تعلقات مزید مضبوط نا ہوسکیں۔ وگرنہ پاکستان کے داخلی سطح پہ ہونے والی اکا دکا وارداتوں کو ایران کیساتھ جوڑنے کا تک ہی نہیں بنتا۔ اب ایک جائے نماز فروش کو مارنے کیلئے ایران سے آرڈر آنے لگے، اتنے بھی ویہلے نہیں وہ لوگ، جن پر الزام لگایا جاتا ہے۔
واہ رے پاکستان۔۔ تیری قسمت۔۔ کہ یہاں سب کچھ امریکہ کے ہاتھ میں سنتے اور دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ امریکہ، آئی ایم ایف، ورلڈ بنک جیسے اداروں اور امریکہ کے ایجنٹ سعودیوں، قطریوں، اماراتیوں کی دلالی میں ملکی سلامتی، قومی غیرت و حمیت اور خود مختاری کو بیچ دیا جاتا ہے۔ امریکہ خود جس پر کروڑوں ڈالرز انعام رکھتا ہے، اس کو ہی ایران کے خلاف، مقاومت فلسطین و مزاحمت اسلامی لبنان کے خلاف میدان میں اتار دیتا ہے۔ اس سے قبل افغانستان میں جنہیں ختم کرنے کیلئے آیا تھا، انہیں ہی ڈیل کرکے اپنے فوجی طیاروں میں لا کر کابل کی حکمرانی حوالے کرکے اربوں ڈالرز ماہانہ بھی دیتا ہے، تاکہ معیشت مضبوط ہو اور سرکاری ملازمین کو طالبان تنخواہیں ادا کرسکیں۔ شام میں احمد الشرع جولانی کو لاتا ہے، اس سے پابندیاں ہٹاتا ہے، اس کی مضبوط کرتا ہے۔
پاکستان نے امریکہ سے یہ سیکھا ہے یا امریکہ کو پاکستان نے یہ سکھایا ہے، اس کا تعین شاید ہم نا کرسکیں، مگر ہم اس پالیسی کی سزا ہمیشہ سے بھگت رہے ہیں۔ پاکستان اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ ہزاروں بے گناہوں کے قاتل، سرٹیفائیڈ دہشت گرد، جن کے اپنے نام اور ان کے گروہوں کے نام نیکٹا کی ویب سائیٹ پر ایسے ہی موجود ہیں، جیسے پینٹا گان کی ویب سائٹ پہ احمد الشرع جولانی کا نام موجود رہا ہے، جیسے سراج الدین حقانی کا نام پینٹا گان کی ویب سائٹ پہ موجود رہا ہے۔ ایسے پاکستان دشمن عناصر کو جب چاہتے ہیں، زبان درازیوں کیلئے، ماحول کو پراگندہ کرنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد جیسے شہر، جس میں دنیا بھر کے سفراء موجود ہوتے ہیں۔ اعلیٰ سرکاری وفود آتے جاتے ہیں۔ اس شہر میں قتل مقاتلہ، دہشت گردی کی دھمیاں، کسی دوست برادر مملکت کو للکارنے کی کھلی چھٹی آخر کس مقصد کے تحت دی جاتی ہے۔؟ کیا یہ ہماری حکومت کا پیغام تھا، جو ان کی زبانی پہنچایا گیا۔؟
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں دارالحکومت کی ایک سرکاری مسجد میں بیٹھ کر ایک ملاں آئے روز ملکی آئیں، قانون، اصول، پامال کرتا ہے، کھلے عام للکارتا ہے۔ حتیٰ دشمن ملک بھارت کیساتھ جنگ کے دوران بھی اپنی احمقانہ باتوں سے نہیں رکتا، یعنی اگر یہی باتیں کسی دوسرے مکتب فکر بالخصوص اہل تشیع میں سے کسی نے کی ہوتیں تو ان کا جینا حرام کر دیا جاتا، مگر یہ سرکاری مسجد پر قابض ملاں جھوٹ، افتراء اور بکواسات کا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہوئے ہیں۔ کسی ادارے کو جراءت نہیں کہ ایک لفظ بھی اس کے خلاف بول سکے، کسی وزیر مشیر، کسی ٹیلیویژن چینل کو توفیق نہیں کہ وہ ان پاکستان دشمن اقدامات کو کور کرسکے۔ یہاں پر شام میں تکفیریوں کی مزارات مقدس گرانے کی دھمکیوں اور اسی سے زیادہ ملکوں کے دہشت گردوں کی سرزمین شام و عراق میں جا کر امریکی و اسرائیلی جہاد کرنے کے اعلان کے بعد، جب پانی حد سے گزر گیا تو محبان اہلبیت رسول ؐ دنیا بھر سے روضہ ہائے مقدس کی حفاظت کی غرض سے از خود پہنچ کر عظیم کام کا حصہ بنے۔ جنہیں مختلف ملکوں کا ہونے کی وجہ سے الگ الگ نام دیا گیا۔
پاکستانی جوان جو وہاں پہنچے، ان کا نام زنیبیون تھا، زینبیوں فقط شام و عراق میں روضہ ہائے مقدس کی حفاظت کیلئے خود کو پیش کرنے والے تھے اور ان کو کسی نے یہاں سے بھرتی بھی نہیں کیا تھا، اب پاکستان میں تو یہ سلسلہ عام ہے کہ جس کسی پر پریشر بنانا ہو، اسے کسی گروہ کیساتھ منسلک کر دیا جاتا ہے، حتیٰ پہلے سے گرفتار لڑکوں کو ان کی گرفتاری کے بعد کسی ہونے والی واردات میں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہاں تو ہم نے دیکھا ہے کہ ایک بندے کو اٹھایا لاہور سے ہے، اس کی گرفتاری میانوالی سے ڈالی ہے، بندے کو اٹھایا سرگودھا سے ہے، اس کی گرفتاری اور بلوچستان کے کسی دور دراز شہر سے برآمدگی ڈال دی جاتی ہے اور میڈیا کا کیا کہنا کہ اداروں کی بھیجی گئی بے ہودہ، بے سر و پا، یکطرفہ خبر کو بنا تحقیق و سوچے سبق کی طرح ٹی وی چینلز پر پیش کر دیا جاتا ہے۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو کلیم عاجز
واہ رے پاکستان تیری قسمت۔۔ کب تیرے حالات بدلیں گے؟ کب تجھ سے خزاں کا سایہ ہٹے گا؟ کب تجھے طاقتور اور غیر منتخب لوگوں کی گرفت سے آزادی ملے گی؟ کب تجھ سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی روح شاد ہوگی؟ کب تیرے حالات دیکھ کر مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی مضطرب روح و جسم کو اطمینان حاصل ہوگا؟ شاید۔۔ کسی دن ایسا ہوگا۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: واہ رے پاکستان کب تیرے حالات دیا جاتا ہے تیری قسمت ہیں کہ رہا ہے ڈال دی
پڑھیں:
ڈاکوئوں کو غیر مسلح کرنے کا طریقہ درست نہیں جے یو آئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میرپورخاص(نمائندہ جسارت) جے یو آئی سندھ کے جنرل سیکریٹری علامہ راشد محمود سومری نے کہا ہے کہ سندھ میں ڈاکوؤں کو غیر مسلح کرنے کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن یہ طریقہ کار درست نہیں ہے، افغانی اپنے وطن چلے جائیں لیکن ان کی جائیدادوں کا معاوضہ دیا جائے ان خیالات کا اظہار انہوں نے میرپورخاص پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر مولانا حفیظ الرحمن فیض، رفیق احمد سومرو، حاجی عبدالمالک تالپور، مفتی عادل لطیف اور دیگر بھی موجود تھے انھوں نے مزید کہا کہ سندھ کے حکمران سندھ کی ترقی کا دیگر صوبوں سے موازنہ کریں لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو بنیادی انسانی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ جے یو آئی سندھ نے امن مارچ اور امن جرگے کئے ہمارے دباؤ کے نتیجے میں سندھ حکومت نے ڈاکوؤں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں لیکن ہمارا ہتھیار ڈالنے کے طریقہ کار درست نہیں ہے انہوں نے کہا کہ عوام کو بتایا جائے کہ ڈاکوؤں سے ہتھیار ڈالنے میں کتنی رقم میں ڈیل ہوئی ہے راشد محمود سومرو نے کہا کہ ڈاکو معصوم لوگوں کے ساتھ ساتھ پولیس افسران اور سرکاری ملازمین کے قتل میں ملوث ہیں ان کے لئے ریڈکارپیٹ بچھایا گیا اور بکرے ذبح کر کے انہیں کھلائے گئے انہوں نے کہا کہ اگر یہی ڈاکو کسی وزیر کے مشیر کے قتل میں ملوث ہوتے تو کیا انہیں اس طرح معاف کر دیا جاتا انہوں نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ 77 ڈاکووں نے ہتھیار ڈالے ہیں لیکن صرف 30 کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے کیا باقی جو ڈاکو عدالت میں پیش نہیں ہوئے کیا ان میں سے کسی کو وزیر داخلہ بنایا جائے گا انہوں نے کہا کہ ڈاکو کہتے ہیں کہ اب آزاد صحافت کریں گے کیا ڈاکوؤں کے بھیس میں صحافیوں کا ایک نیا گروپ بنایا جائے گا انہوں نے کہا کہ قصورواروں کو سزا ملنی چاہئے ورنہ کون سا پولیس افسر ڈاکوؤں کا مقابلہ کرے گا کیونکہ اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہی ڈاکو ہتھیار ڈالیں گے انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے طویل عرصے سے افغانوں کی پرورش کی ہے اب ان کے ملک میں امن و امان ہے اور ملک ترقی کر رہا ہے اور وہ مختلف ممالک سے اقتصادی معاہدے کر رہے ہیں اس لئے انہیں اپنے ملک واپس چلے جانا چاہئے لیکن ہمارے ہاں افغانوں کی واپسی کے طریقہ کار درست نہیں ہے انہیں ان کی جائیدادوں کا معاوضہ دیا جائے اور جو افغان نوجوان یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں انہیں تعلیمی ویزہ دیا جائے راشد محمود سومری نے کہا کہ سندھ میں عوام کی آواز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے عوامی مطالبات پر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے یہاں میرٹ اور انصاف کو قربان کیا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ سندھ میں منشیات فروشی عام ہو چکی ہے اضلاع کے ایس ایس پیز کروڑوں روپے دے کر ٹرانسفر اور پوسٹنگ حاصل کر رہے ہیں۔