میئرکراچی کا اعتراف، اچھی روایت
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
تنویرکا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے، وہ ایک کریانہ کی دکان پرکام کرتا ہے۔ تنویر نیپا چورنگی سے گزر رہا تھا تو کسی نے بتایا کہ گزشتہ روز نیپا چورنگی کے قریب ڈپارٹمنٹل اسٹورکے سامنے ایک بچہ گٹر میں گر گیا جس کی لاش برآمد نہیں ہوسکی ہے۔ تنویر نے اندازہ لگایا کہ بچے کی لاش پانی میں بہتی ہوئی کس سمت گئی ہوگی۔ اس نے فورا سرسید یونیورسٹی کے قریب برساتی نالہ کا معائنہ کیا۔
اس کو بچے کا پیٹ نظر آگیا۔ تنویر نے اس نالے میں چھلانگ لگائی۔ بلدیہ کا ریسکیو کا عملہ 18 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جو کا م نہ کرسکا تھا، وہ اس بہادر لڑکے نے انجام دیا۔ صورتحال کی ستم ظریفی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب تنویر نے 3سالہ بچے کی لاش نکالی تو قریب ہی ڈیوٹی پر موجود پولیس کے سپاہیوں نے لاش لے کر اس کو تھپڑ مارے، اس وقت ایک ٹی وی رپورٹر بھی موجود تھا۔ اس رپورٹر نے تنویرکا انٹرویو اپنے چینل پر نشر کردیا۔ گلشن اقبال کے سپرنٹنڈنٹ پولیس نے معاملے کو سنگین ہونے سے بچانے کے لیے فوری فیصلہ کیا اور تنویر اور اس کے والد کو اپنے دفتر بلایا۔
تنویر اور اس کے والد کو ہار پہنائے اور تنویر کے ساتھ اپنی تصویر اخبارات میں شایع کرائی۔ تین سالہ ابراہیم کے گٹر یا برساتی نالہ میں گرنے اور ا س کی ماں کی آوازیں کی گونج وزیر اعلیٰ ہاؤس تک پہنچ گئی۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب، ابراہیم کے دادا کے گھر پہنچ گئے اور اپنی ناکامی کا اقرار کر لیا۔ سندھ حکومت نے پہلی دفعہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سانحے کے ذمے دار کئی اعلیٰ افسران کو معطل کردیا اور تحقیقاتی رپورٹ میں اس سانحے کی ذمے داری ریڈ لائن کی انتظامیہ اور بلدیہ کے حکام پر عائد کی گئی۔
کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ ایک بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹور کے سامنے یہ نالہ کے ایم سی کا گٹر نہیں ہے اور کے ایم سی کے سیوریج لائن کے نقشہ میں یہ گٹر ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ گزشتہ 7برسوں سے زیرِ تعمیر ریڈ لائن سے منسلک ہوجاتا ہے۔ ریڈ لائن کی تعمیر کرنے والے انجینئروں نے عجیب منصوبہ بندی کی ہے کہ ملیر کنٹونمنٹ کے علاقے سے لے کر پرانی سبزی منڈی تک روزانہ اس طرح کے برساتی نالے نظر آتے ہیں۔ یونیورسٹی روڈ کے دونوں اطراف اچانک پانی جمع ہوجاتا ہے۔
حادثہ کا ذمے دار برساتی نالہ بھی ریڈ لائن کی ناقص تعمیر کا نتیجہ ہے۔ جب یہ حادثہ ہوا تو بچے کے والدین نے شور مچایا، کسی نے مشورہ دیا کہ ریسکیو آپریشن کی فورس کو بلایا جائے۔ فوری طور پر ٹیلی فون کے ذریعے اس حادثے کی اطلاع متعلقہ عملہ کو دی گئی مگر کوئی فرد موقع پر نہیں پہنچا۔ کسی دانا شخص نے غمزدہ باپ کو مشورہ دیا کہ اس نالے کی کھدائی کے لیے ہیوی کرین منگوائی جائیں۔ جب ایک پرائیویٹ کرین آپریٹر سے رابطہ کیا تو اس شخص نے 15 ہزار روپے مانگے۔
ابراہیم کے باپ کے پاس فوری طور پر 15 ہزار روپے نہیں تھے، وہ اپنے جاننے والوں سے پیسے مانگتا رہا۔ یہ بھی خبریں شایع ہوئیں کہ ریسکیو کا عملہ کئی گھنٹے بعد حادثے کے مقام پر پہنچا۔ عملہ اپنے کام میں اتنی مہارت نہیں رکھتا تھا کہ 18 گھنٹے گزرنے کے باوجود بچے کی لاش تلاش نہ کی جاسکی۔ ایک اور سانحہ یہ ہے کہ بڑے کاروباری ادارے اپنی Corporate Social Responsibility قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ متاثرہ خاندان جس اسٹور میں خریداری کرنے گیا تھا تو اس اسٹور کی روزانہ کی آ مدنی لاکھوں میں ہوتی ہے، اگر اس اسٹور کی انتظامیہ اس برساتی نالے پر چند ہزار روپے خرچ کر کے چھت ڈلوا دیتی تو پھر کسی شریف آدمی کو اس نالے پر گتا رکھنے کی ضرورت نہیں تھی اور ایک بچے کی جان ہی نہ جاتی بلکہ پورا خاندان اس صدمے سے دوچار ہونے سے بچ جاتا۔
کراچی میں گٹر کے ڈھکن چوری ہونے اور گٹر میں لوگوں کے گرنے کے حادثات معمول کی بات ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن جو امدادی سرگرمیوں میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتی ہے کی رپورٹ کے مطابق رواں سال میں کراچی میں گٹر اور نالوں میں گر کر 23 افراد جاں بحق ہوئے۔
ان جاں بحق ہونے والوں میں کم سن نوعمر اور بچیاں شامل ہیں۔ اس مسئلے پر شایع ہونے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ہیروئنچی گٹر کے ڈھکن چراتے ہیں۔ پارکوں اور پلوں کی لوہے کی ریلنگ چرا کر لے جاتے ہیں، یوں بلدیہ کا عملہ ڈھکن لگاتا ہے مگر پھر یہ چوری ہوجاتے ہیں۔ ایک صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہیروئنچیوں کی سرپرستی ایک منظم مافیا گروہ کرتا ہے۔ اس مافیا میں پرانا سامان خریدنے والے کباڑی، بلدیہ اور پولیس کا عملہ شامل ہے۔
ظاہر ہے کہ ہیروئنچی یا کوئی اور فرد گٹر کے ڈھکن اور لوہے کی ریلنگ محض اس بناء پر چوری نہیں کرتا کہ ان اشیاء کو گھر میں محفوظ رکھا جائے بلکہ وہ ان اشیاء کو جلد از جلد فروخت کر کے پیسے حاصل کرتا ہے، یوں یہ سامان آسانی سے کباڑیوں کو فروخت ہوجاتا ہے، اگر کراچی پولیس اور شہر کی انتظامیہ شہر کے تمام کباڑیوں کو اس بات کا پابند کردے کہ کوئی بھی کباڑی گٹر کے ڈھکن اور لوہے کی ریلنگ نہیں خریدے گا اور اگر کوئی فرد یہ اشیاء لے کر ان سے رابطہ کرے گا تو اس کا شناختی کارڈ کاپی رکھی جائے اور خریدا گیا تمام سامان کا ایک رجسٹر میں اندراج کیا جائے تو پھر گٹر اور لوہے کی ریلنگ فروخت کرنے کا کاروبار شدید متاثر ہوجائے گا مگر صوبائی حکومت ، کراچی کے کمشنر یا اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان دیگر مسائل کے حل میں اتنے مصروف ہیں کہ اتنے معمولی مسئلے کا حل تلاش نہیں کر پائے۔
اس طرح کے سانحے کو مستقبل میں رونما ہونے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد لی جائے۔ شہریوں ، کونسلر، ٹاؤن کے عملہ اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کے واٹس ایپ گروپ بنائے جائیں۔ اس واٹس ایپ گروپ پر جیسے ہی گٹر کے ڈھکن یا لوہے کی ریلنگ چوری ہونے کی رپورٹ ملے تو بلدیاتی عملہ فورا دوسرے ڈھکن کا انتظام کرے اور ایس ایچ او ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوشش شروع کردے۔ ہر علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کی یہ ذمے داری بھی لگائی جائے کہ وہ ہر ہفتے کباڑیوں کا ریکارڈ چیک کرے۔ بلدیہ کے امدادی عملے کو جدید آلات فراہم کیے جائیں اور انھیں بین الاقوامی معیار کے مطابق تربیت دی جائے۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ریڈلائن کی صورتحال کے بارے میں ہائی کورٹ کے جج کی قیادت میں ٹریبونل بنا کر تحقیقات کرائی جائیں۔ اس رپورٹ کو اسمبلی میں پیش کیا جائے اور نااہل افسروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔ اگرچہ حکومت نے اس سانحے کے ذمے دارکئی افسران کو معطل کیا ہے جس میں ڈپٹی کمشنر ایسٹ بھی شامل ہے مگر ایک صحافی کا یہ سوال ہے کہ چند ماہ قبل جب لیاری میں ایک عمارت گری تھی اور بہت سی ہلاکتیں ہوئی تھیں تو سندھ حکومت نے فوری اقدام کرتے ہوئے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے کئی افسروں کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے تھے مگر جب پولیس نے عدالت میں چالان پیش کیا تو اس چالان میں کئی قانونی نقائص تھے جس کی بناء پر یہ افسران بری ہوگئے اور دوبارہ اپنے فرائض انجام دینے لگے۔ صحافی کا کہنا ہے کہ کیا اس دفعہ بھی کچھ ایسا ہی ہوگا؟
اس واقعے نے 20سال قبل پیپلز پارٹی کے ایک رہنما عبدالقادر اور شہلا رضا کے دو بچوں کی یاد تازہ کردی ہے جو اسی طرح گٹر میں گر کر جاں بحق ہوئے تھے۔ اس وقت بھی بڑا شور مچا تھا مگر کوئی دائمی اقدام نہیں ہوا تھا۔ اگر ہنگامی بنیادوں پر اس طرح کے اقدامات نہیں کیے گئے تو آج ابراہیم کی ماں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں تو کل کسی اور ابراہیم کی ماں کی آوازیں آرہی ہونگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گٹر کے ڈھکن ریڈ لائن لائن کی کا عملہ بچے کی کے لیے کی لاش
پڑھیں:
سخت ردعمل کیوں آیا؟‘ پی ٹی آئی رہنماؤں کا عمران خان کے بیانیے پر چونکا دینے والا اعتراف
پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں کے مطابق، کچھ سینئر رہنماؤں نے تسلیم کیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر فوجی قیادت کے خلاف بار بار طنز اور سخت زبان استعمال کرنے نے آئی ایس پی آر کے جمعے کو جاری کردہ سخت ردعمل میں اہم کردار ادا کیا۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ پی ٹی آئی کی قیادت کے زیرِ غور رہا، جہاں بعض رہنماؤں نے اعتراف کیا کہ عمران خان نے اپنی پوسٹس میں اعلیٰ فوجی افسران کے لیے اکثر توہین آمیز اور تنقیدی زبان استعمال کی۔ایک سینئر رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا: ’’اگر ہم بار بار یہی کرتے رہیں، تو دوسری طرف ردعمل کی توقع کیا کی جا سکتی ہے؟‘‘ ان کے مطابق گزشتہ دو سال کے دوران عمران خان کے اکاؤنٹ سے فوجی قیادت کے خلاف شاید سو سے زیادہ سخت پوسٹس کی گئی ہیں۔ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت کے لیے مشکل یہ ہے کہ اگرچہ کئی رہنما بانی چیئرمین کی بعض پالیسیوں اور فوج کے حوالے سے ان کے ذاتی حملوں پر اختلاف رکھتے ہیں، لیکن عملی طور پر پارٹی کے فیصلوں یا پیغامات پر ان کی رائے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ایک اندرونی ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کا بیانیہ آج بھی اڈیالہ جیل میں طے ہونے والے انداز کو ہی منعکس کرتا ہے، چاہے اندرونی سطح پر کتنی ہی تحفظات کیوں نہ ہوں۔زیادہ تر سینئر رہنما اب بھی ایسے سوشل میڈیا پیغامات کو شیئر یا لائک نہیں کرتے اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ صورتحال کو ٹھنڈا کیا جائے، مگر نہ تو عمران خان ان کی بات سنتے ہیں اور نہ ہی پارٹی کے پاس بانی چیئرمین کے اکاؤنٹس پر کسی قسم کا کنٹرول موجود ہے۔جمعے کو آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس بریفنگ میں پی ٹی آئی کے بانی پر سخت تنقید کی، انہیں ’’ذہنی مریض‘‘ اور ’’قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ‘‘ قرار دیا۔ اگرچہ ان کا بیان براہِ راست عمران خان کا نام نہیں لیتا، لیکن مقصد واضح طور پر جیل میں موجود رہنما اور ان کی پارٹی تھی۔فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا موجودہ بیانیہ ریاست مخالف ہے اور قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا بیانیہ بعض بین الاقوامی میڈیا میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے، جن کے ممالک کی افواج نے ماضی میں پاک فوج کے ہاتھوں شکست کا سامنا کیا ہے۔یہ بیانات دونوں فریقوں کے درمیان اب تک کی سب سے واضح کشیدگیوں میں سے ایک ہیں اور پی ٹی آئی کے اندر اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے اپنی حکمتِ عملی پر کس حد تک تقسیم ہے۔