ٹرمپ اور شی جن پنگ کی جنوبی کوریا میں ملاقات، تجارتی جنگ میں سیز فائر کی امید
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ نے جمعرات کے روز جنوبی کوریا کے شہر بسّان میں ملاقات کی، جسے دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں ممکنہ جنگ بندی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ ملاقات ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (APEC) اجلاس کے موقع پر گِم ہائے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہوئی۔ یہ دونوں رہنماؤں کی 2019 کے بعد پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔
شی سخت مذاکرات کار ہیں، ٹرمپصدر ٹرمپ، جن کے ہمراہ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹنک بھی شریک تھے، نے بات چیت کے آغاز پر کہا کہ وہ پرامید ہیں کہ ملاقات ’انتہائی کامیاب‘ ہوگی۔
ان کا کہنا تھا، ’ہم ایک بہت کامیاب میٹنگ کرنے جا رہے ہیں، مجھے کوئی شک نہیں۔ لیکن وہ (شی) ایک بہت سخت مذاکرات کار ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے چین اور امریکا کے درمیان دفاعی مذاکرات کا آغاز ہوگیا
چینی صدر شی جن پنگ نے مترجم کے ذریعے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی 2 بڑی معیشتوں کے درمیان وقتاً فوقتاً اختلافات معمول کی بات ہے، تاہم وہ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔
عالمی منڈیوں میں بہتری، یوان کی قدر میں اضافہملاقات کی خبروں کے بعد چینی کرنسی یوان کی قدر ایک سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، جب کہ وال اسٹریٹ اور ٹوکیو سمیت دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں مثبت رجحان دیکھا گیا۔
ماہرین کے مطابق سرمایہ کار اب تجارتی کشیدگی میں کمی کی امید کر رہے ہیں۔
شی جن پنگ نے کہا کہ چند روز قبل دونوں ممالک کے مذاکرات کاروں نے ایک دوسرے کے ’بنیادی خدشات دور کرنے پر اتفاقِ رائے‘ حاصل کر لیا ہے۔
امریکی وزیرِ خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے مطابق چین ایک سال کے لیے ریئر ارتھ منرلز کی برآمد پر پابندی مؤخر کرے گا اور دوبارہ امریکی سویا بینز کی خریداری شروع کرے گا۔
صدر ٹرمپ نے بدھ کو کہا تھا کہ وہ چینی اشیاء پر امریکی ٹیرف میں کمی کے بدلے بیجنگ سے فینٹینیل کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کے بہاؤ کو روکنے کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔
فینٹینیل ایک مہلک مصنوعی منشیات ہے جو امریکا میں اموات کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق، ملاقات میں سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کے مستقبل پر بھی بات چیت متوقع تھی، جسے امریکی حکومت نے چینی ملکیت کے باعث ممکنہ پابندی کی وارننگ دے رکھی ہے۔
پرانے تجارتی معاہدے کا خاتمہ قریب، نئے معاہدے کی دوڑ2019 میں طے پانے والے تجارتی معاہدے، جن کے تحت دونوں ممالک نے ٹیرف کی شرح میں کمی کی تھی، 10 نومبر کو ختم ہونے والے ہیں۔
اسی لیے بسّان کی یہ ملاقات ایک نئے تجارتی فریم ورک کی تیاری کے لیے نہایت اہم سمجھی جا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے چین نے ریئر ارتھ منرلز (نایاب معدنیات) پر برآمدی پابندیاں بڑھانے کی تجویز دی تھی جو ہائی ٹیک مصنوعات اور دفاعی ٹیکنالوجی میں بنیادی کردار رکھتی ہیں۔
ٹرمپ نے جواباً دھمکی دی تھی کہ وہ چینی برآمدات پر 100 فیصد ٹیرف عائد کریں گے اور امریکی سافٹ ویئر سے بننے والی مصنوعات کی چین کو برآمد پر پابندی لگا دیں گے۔
ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹرتھ سوشل‘ پر ایک پیغام میں کہا کہ جی ٹو جلد ملاقات کر رہے ہیں، اور ایک الگ پوسٹ میں اعلان کیا کہ امریکہ ایٹمی تجربات میں اضافہ کرے گا تاکہ چین کے بڑھتے ہوئے ہتھیاروں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
اس بیان پر سوال پوچھے جانے پر ٹرمپ نے کسی ردعمل سے گریز کیا۔
چین کے H-6K بمبار طیاروں کی تائیوان کے قریب پروازوں کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے واضح کیا کہ تائیوان کو ان مذاکرات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ امریکی قانون کے تحت واشنگٹن تائیوان کو دفاعی مدد فراہم کرنے کا پابند ہے۔
یہ بھی پڑھیے ہالی ووڈ فلمیں بھی امریکا چین ٹیرف جنگ کی زد میں آگئیں
بسّان کی ملاقات صدر ٹرمپ کے 5 روزہ ایشیائی دورے کا آخری مرحلہ تھی، جس کے دوران انہوں نے جاپان اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ نایاب معدنیات کے سمجھوتے طے کیے۔
امریکی صدر نے اس موقع پر کہا کہ دنیا جلد ہی ’ایک نیا، منصفانہ تجارتی نظام‘ دیکھے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: مذاکرات کا کہا کہ
پڑھیں:
ٹرمپ کا دورہ جنوبی کوریا، شمالی کوریا کا ایٹمی صلاحیت رکھنے والے کروز میزائلوں کا تجربہ
ورکرز پارٹی کے مرکزی فوجی کمیشن کے نائب صدر پک جونگ چون اس تجربے کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ اقدام ہماری رعب دار جنگی صلاحیت (Deterrence Power) کو وسعت دینے کا حصہ ہے، یہ ایک ذمہ دارانہ عمل ہے جس کا مقصد اسٹریٹجک ہتھیاروں کی قابلِ اعتماد کارکردگی اور دشمن کے خلاف ان کی مؤثریت کا مسلسل جائزہ لینا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوبی کوریا کے دورے سے صرف ایک روز قبل شمالی کوریا نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایٹمی وارہیڈ لے جانے کے قابل کروز میزائلوں کی ایک نئی سیریز کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ شمالی کوریا کی سرکاری خبر ایجنسی KCNA نے بدھ کے روز بتایا کہ اس ملک کی مسلح افواج نے سمندر سے فائر کیے جانے والے اسٹریٹجک کروز میزائلوں کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہ تجربہ مغربی ساحل پر ایک نئے جنگی بحری جہاز سے کیا گیا، جسے پیونگ یانگ کی ایٹمی صلاحیت میں اضافے کا اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ تجربہ دراصل بحری جنگی مشقوں کا حصہ تھا تاکہ نئے بحری جہازوں کے ہتھیاری نظام کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔ یہ تجربہ بالکل ایک دن پہلے کیا گیا جب ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی کوریا میں منعقدہ ایپک اجلاس (29 تا 30 اکتوبر) میں شرکت کے لیے پہنچنے والے تھے۔ ٹرمپ اس سے قبل کِم جونگ اُن سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کر چکے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شمالی کوریا کا یہ اقدام ایک سوچا سمجھا اور حساب شدہ سیاسی پیغام ہے، جس کا مقصد دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا اور اپنی فوجی طاقت کا اظہار کرنا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کِم جونگ اُن نے خود اس تجربے کی نگرانی نہیں کی، اور سرکاری اخبارات جیسے رودونگ شِمون نے اسے اندرونی سطح پر نمایاں طور پر رپورٹ نہیں کیا۔ خبر ایجنسی KCNA کے مطابق میزائلوں کو بحری جہاز کے عرشے سے عمودی لانچنگ پیڈ کے ذریعے فائر کیا گیا۔ میزائلوں نے تقریباً 130 منٹ تک فضاء میں پہلے سے طے شدہ راستے پر پرواز کی۔ میزائلوں نے اپنے ہدف کو انتہائی درستگی سے نشانہ بنایا۔ البتہ ان کے تکنیکی تفصیلات مثلاً رینج وغیرہ ظاہر نہیں کی گئیں۔ شمالی کوریا کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ میزائل تاکتیکی ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ملک کی ایٹمی قوت کی بنیاد مضبوط کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
ورکرز پارٹی کے مرکزی فوجی کمیشن کے نائب صدر پک جونگ چون اس تجربے کی نگرانی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ اقدام ہماری رعب دار جنگی صلاحیت (Deterrence Power) کو وسعت دینے کا حصہ ہے، یہ ایک ذمہ دارانہ عمل ہے جس کا مقصد اسٹریٹجک ہتھیاروں کی قابلِ اعتماد کارکردگی اور دشمن کے خلاف ان کی مؤثریت کا مسلسل جائزہ لینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شمالی کوریا کو اپنی ایٹمی جنگی تیاریوں کو مسلسل مضبوط کرتے رہنے اور اپنی بحری افواج کی جنگی صلاحیتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
مبصرین کے مطابق یہ تجربہ ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ شمالی کوریا اپنی ایٹمی قوت کو سفارتی اور عسکری توازن کے آلے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ٹرمپ کے دورۂ جنوبی کوریا سے عین پہلے یہ اقدام پیونگ یانگ کی جانب سے ایک سیاسی انتباہ ہے کہ وہ اب بھی خطے میں طاقت کے کھیل کا فیصلہ کن فریق بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔