یورپی یونین کے سفیر ریمونڈاس کاروبلس نے کہا ہے کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس ترجیحی ٹیرف اسکیم کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس پر جلد ہی نظرثانی ہونے والی ہے۔

نجی اخبار میں شائع خبر کے مطابق ڈان نیوز ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جب سفیر کاروبلس سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کو اسکیم کی شرائط پوری کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں، ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دورہ ایک معمول کی مانیٹرنگ مشن کا حصہ ہوگا، جو اقوام متحدہ کے تمام ضروری کنونشنز پر عمل درآمد کا جائزہ لے گا، اور اس دوران نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ سول سوسائٹی تنظیموں، انسانی حقوق کے محافظوں، کمپنیوں اور مزدوروں سے بھی کافی تعداد میں ملاقاتیں ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ بعد ازاں ایک رپورٹ جاری کی جائے گی، جس میں اقوام متحدہ کے ان اداروں کی سفارشات شامل ہوں گی جو ان کنونشنز پر عمل درآمد کی نگرانی کرتے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ عمل درآمد ’انتہائی اہم‘ ہے، یورپی یونین نے 2014 میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا تھا، جس کے نتیجے میں رعایتی ٹیرف کے ذریعے پاکستان کی یورپی یونین کو ٹیکسٹائل برآمدات میں 108 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
اکتوبر 2023 میں، یورپی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اس اسکیم کو 2027 تک بڑھانے کے حق میں ووٹ دیا تھا، جس سے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو زیادہ تر برآمدات پر ڈیوٹی فری یا کم ڈیوٹی تک رسائی برقرار رکھنے کی اجازت ملی تھی۔

ایران-اسرائیل تنازع کے باعث جون سے التوا کا شکار جی ایس پی پلس مانیٹرنگ مشن اب پاکستان میں انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات اور اچھی حکمرانی سے متعلق 27 بین الاقوامی کنونشنز پر عمل درآمد کی جانچ کرے گا، جن پر اس تجارتی اسکیم کی بنیاد ہے۔

تشویش کے شعبوں کا ذکر کرتے ہوئے، سفیر نے انسانی حقوق، سزائے موت، توہینِ مذہب کے قوانین، جبری گمشدگیوں، اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، چائلڈ لیبر اور جبری مشقت جیسے معاملات کی نشاندہی کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ غالباً موجودہ جی ایس پی پلس اسکیم کا آخری مانیٹرنگ مشن ہوگا، کیوں کہ نئی اسکیم جلد، ممکنہ طور پر 2027 سے نافذ ہونے والی ہے، اور اگر پاکستان جی ایس پی پلس سہولت جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے دوبارہ درخواست دینا ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ مانیٹرنگ مشن کی رپورٹ اقوام متحدہ کے حوالے سے پاکستان کی پیش رفت اور اس کی ذمہ داریوں پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے انتہائی اہم ماخذ ہوگی۔

کاروبلس نے کہا کہ یورپی یونین نے پہلے ہی وہ اہم امور شناخت کر لیے ہیں، جن پر وہ پاکستان سے پیش رفت چاہتی ہے، اگرچہ یورپی یونین ’کچھ مثبت پیش رفت‘ بھی دیکھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ یورپی یونین کی ’ترجیحات‘ میں شامل ہے، ہمارے سوالات موجود ہیں اور ہمیں جی ایس پی پلس کے تناظر میں اس سلسلے میں مسائل نظر آتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یقیناً ہم سمجھتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں پر اکوائری کمیشن کی طرح کچھ ڈھانچے قائم کیے گئے ہیں، لیکن ہم دیکھیں گے کہ آیا یہ کافی ہیں یا نہیں، یقیناً ہمیں اداروں سے اس بارے میں بہت سے سوالات ہوں گے۔

حالیہ منظور شدہ 27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں پوچھے جانے پر سفیر نے اسے ’اندرونی معاملہ‘ قرار دیا، لیکن عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے کہا کہ ’ہماری مختلف رائے ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ یورپی یونین پاکستان میں اپوزیشن، تھنک ٹینکس، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی اداروں سے بھی رائے لے رہی ہے، انہوں نے حالیہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات پر بھی گفتگو کی ضرورت پر زور دیا۔

اگست میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے سابق یورپی یونین سفیر رینا کینکا نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ انسانی حقوق اور محنت سے متعلق اصلاحات میں ’قابلِ یقین‘ اور ’واضح‘ پیش رفت دکھائے، اور یہ اشارہ دیا تھا کہ یورپی یونین کی نئی تجارتی اسکیم سخت تر تقاضے رکھے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو مزید واضح پیش رفت دکھانے کی ضرورت ہے، خصوصاً نومبر میں ہونے والے جی ایس پی پلس مانیٹرنگ مشن سے پہلے۔‘‘

اسی طرح، جنوری میں یورپی یونین نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے جی ایس پی درجے کو یقینی نہ سمجھے۔

یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے انسانی حقوق اولوِف اسکوگ نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ عام شہریوں کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے فوجی عدالتوں کا استعمال نہ کرے اور اظہارِ آزادی کو محدود کرنے کے حالیہ اقدامات کی مخالفت کی تھی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ مانیٹرنگ مشن جی ایس پی پلس یورپی یونین پاکستان کو پیش رفت زور دیا دیا تھا تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کیخلاف عملی کارروائی ہونی چاہیئے محض مذمت کافی نہیں، جوزپ بورل

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سابق اہلکار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی محض مذمت ہی کافی نہیں لہذا قابض صیہونی رژیم کیخلاف عملی اقدامات اٹھانے ہونگے اسلام ٹائمز۔ الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں یورپی یونین کے سابق سیکرٹری خارجہ پالیسی جوزپ بورل نے تاکید کی ہی ہے کہ غزہ کی صورتحال "عملی کارروائی" کی متقاضی ہے لہذا اسرائیلی رویے کی محض مذمت سے "کوئی فرق نہیں پڑے گا"۔ غزہ میں خوراک اور امداد کے داخلے پر سخت اسرائیلی پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے، جوزپ بورل نے بھوک کے جنگی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کو ''کھلا جرم'' اور ''بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی" قرار دیا اور انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کے کچھ رکن ممالک اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جوزپ بورل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ (یعنی اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی) تشدد کو روکنے کی ضرورت کے بارے ان (یورپی) ممالک کے دعووں سے براہ راست متصادم ہے۔ یورپی یونین کے سابق سیکرٹری خارجہ امور نے اس بات پر بھی زور دیا کہ غزہ میں سیاسی حل کو آگے بڑھانے کے لئے تمام دستیاب دباؤ کا استعمال کیا جانا چاہیئے کیونکہ موجودہ صورتحال کا تسلسل نہ تو ''قابل برداشت'' ہے اور نہ ہی ''پائیدار"۔

متعلقہ مضامین

  • اسحق ڈار کی صدر یورپی یونین اور قطری وزیراعظم سے ملاقات
  • پاکستان کی افغانستان اور بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کم کرنے میں روس اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے، روسی سفیر
  • جی ایس پی پلس کنونشنز پر عملدرآمد، پاکستان کو مزید اقدامات کرنا ہونگے، یورپی یونین
  • عمران خان کی رہائی کا فیصلہ عدالتوں کا اختیار ہے: یورپی یونین سفیر
  • الطاف وانی کا مقبوضہ کشمیر میں مقامی آبادی پر بڑھتی ہوئی نگرانی کے اقدامات پر اظہار تشویش
  • بلغاریہ کی سفیر کا کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا دورہ
  • پاکستان اور ڈنمارک کا اقتصادی تعاون مزید مضبوط بنانے کا عزم
  • فش ہاربر کو یورپی یونین کے معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنے کا آغاز
  • اسرائیل کیخلاف عملی کارروائی ہونی چاہیئے محض مذمت کافی نہیں، جوزپ بورل