ہوم ورک آؤٹ آئیڈیاز ؛ جِم کے بغیر گھر پر فٹ رہنے کے آسان طریقے
اشاعت کی تاریخ: 15th, December 2025 GMT
ورزش کے لیے جم جانا بالکل بھی ضروری نہیں۔ آپ گھر پر رہتے ہوئے بھی سادہ ورک آؤٹ کرکے فٹ رہ سکتے ہیں۔
گھر پر ورزش نہ صرف وقت کی بچت کرتی ہے بلکہ آرام دہ ماحول میں باڈی کو فٹ رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ باقاعدہ ہوم ورک آؤٹ کرنے سے دل کی صحت بہتر رہتی ہے، وزن قابو میں رہتا ہے اور توانائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
آسان ہوم ورک آؤٹ رُوٹین
روزانہ صرف 30 منٹ کی ورزش جسمانی صحت کے لیے کافی ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہلکی اسٹریچنگ، اسکواٹس، لینجز اور پش اپس کو روزانہ کی ورزش میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
اسکواٹس: ٹانگوں اور کولہوں کے لیے بہترین۔
پش اپس: سینہ اور بازوؤں کو مضبوط کرتے ہیں۔
لینجز: ٹانگوں اور جسم کے توازن کے لیے مددگار۔
پلینک: پیٹ اور کور کے لیے مؤثر ورزش۔
بغیر آلات کے ورزش
کچھ لوگ جم یا آلات کے بغیر ورزش کرنے میں ہچکچاتے ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ورزش کے لیے درکار وزن کے لیے صرف جسمانی وزن ہی کافی رہتا ہے۔
سیڑھیوں پر چڑھنا
واک یا جاگنگ (صحن یا بالکونی میں)
ہلکا ڈانسنگ ورک آؤٹ
یہ تمام آسان طریقے گھر پر فٹ رہنے میں مدد دیتے ہیں۔
ورزش کے ساتھ خوراک کا توازن
ورزش کا اثر تب ہی زیادہ ہوتا ہے جب خوراک متوازن ہو۔ ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ پروٹین، سبزیاں، پھل اور ہلکی کاربوہائیڈریٹس ورزش کے ساتھ شامل کریں تاکہ پٹھے مضبوط رہیں اور توانائی برقرار رہے۔
پانی زیادہ پینا بھی ضروری ہے تاکہ ورزش کے دوران ہائیڈریشن برقرار رہے۔
ہوم ورک آؤٹ نہ صرف جسمانی صحت کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ دماغی سکون، توانائی اور روزمرہ کے کاموں میں مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ صرف 30 منٹ روزانہ، صحیح ورزش اور متوازن خوراک سے آپ گھر بیٹھے ہی فٹ اور توانائی سے بھرپور رہ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوم ورک آؤٹ ورزش کے کے لیے گھر پر
پڑھیں:
پاکستان میں پہلی بار بغیر ڈرائیور کے کار کی کامیاب ٹیسٹ ڈرائیو
این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے انجینئرز نے کامیابی کے ساتھ پاکستان کی پہلی ڈرائیورلیس گاڑی کا ٹیسٹ ڈرائیو انجام دیا جو مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے تیار کی گئی ہے۔
ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران گاڑی نے نید کیمپس کی سڑک پر ہموار انداز میں حرکت کی، جس نے موجودہ افراد کو حیران کر دیا۔
ڈرائیورلیس گاڑی پر کام ایک سال قبل این ای ڈی یونیورسٹی کے نیشنل سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلی جنس، شعبہ کمپیوٹر اینڈ انفارمیشن سائنسز میں شروع ہوا تھا۔ چین سے درآمد شدہ ایک برقی گاڑی کو روبوٹکس، میپنگ، سینسرز، کمپیوٹر وژن اور AI الگوردمز کی مدد سے خودکار گاڑی میں تبدیل کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں ٹریفک قوانین کی بڑی خلاف ورزیاں، فینسی نمبر پلیٹس کالے شیشوں والی کتنی گاڑیاں پکڑی گئیں؟
ڈاکٹر محمد خرم، ڈائریکٹر نیشنل سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور اس پروجیکٹ کے سربراہ نے بتایا کہ ٹیم نے ریڈار ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر وژن کے ذریعے نظام کو بہتر بنایا ہے۔ ابتدائی طور پر اسٹیئرنگ کنٹرول کے بعد اب آبجیکٹ ڈیٹیکشن، لین ریکگنیشن، اسپیڈ لمٹ ڈیٹیکشن اور سگنل لائٹ ریکگنیشن پر کام جاری ہے تاکہ گاڑی مکمل خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھ سکے۔
اس وقت گاڑی کی رفتار الگوردم میں 15 سے 20 کلومیٹر فی گھنٹہ کے درمیان رکھی گئی ہے اور نظام میں ٹرننگ موڈ اور آنے والی گاڑیوں کے لیے ٹریفک فیصلہ شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں مقبول لگژری گاڑیاں: ویگو سے فورچونر تک، کون سی بہتر انتخاب؟
ٹیم کے دیگر ممبر نے کہا کہ یہ گاڑی پاکستان کے غیر منظم شہری ماحول میں چلانے کے قابل چند گاڑیوں میں سے ایک ہے اور اس کے سینسر سسٹمز انتہائی مضبوط ہیں۔
یہ پراجیکٹ سابق این ای ڈی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش ہاشمت لودھی کے دور میں شروع ہوا اور موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر طفیّل احمد کے دور میں اہم سنگ میل حاصل کر چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی گاڑیاں