Express News:
2025-11-03@16:16:57 GMT

امور فطرتِ انسانی

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’دس چیزیں ہیں جو امور فطرت میں سے ہیں، مونچھوں کا ترشوانا، داڑھی کا چھوڑنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی بھر کر اس کی صفائی کرنا، ناخن ترشوانا، انگلیوں کے جوڑوں کو (جن میں اکثر میل کچیل رہ جاتا ہے اہتمام سے) دھونا، بغل کے بال کاٹنا، موئے زیر ناف کی صفائی کرنا، اور پانی سے استنجاء کرنا۔‘‘ (حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ مصعب نے بس یہی نو چیزیں ذکر کی ہیں اور فرمایا کہ دسویں چیز میں بُھول گیا ہوں اور میرا گمان یہی ہے کہ وہ کلی کرنا ہے۔) (مسلم شریف)

اس حدیث میں دس چیزوں کو ’’من الفطرۃ‘‘ یعنی امور فطرۃ میں سے کہا گیا ہے۔ بعض شارحین حدیث کی رائے یہ ہے کہ الفطرۃ سے مراد یہاں سنّت انبیائے کرامؑ یعنی پیغمبروں کا طریقہ ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اسی حدیث کی مستخرج ابی عوانہ کی روایت میں فطرۃ کی جگہ سنّت کا لفظ ہے، اس میں ’’عشر من الفطرۃ‘‘ کی بہ جائے ’’عشر من السنۃ‘‘ کے الفاظ ہیں۔

ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں انبیائے کرام علیہم السلام کے طریقے کو الفطرۃ اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ انبیاء علیہم السلام نے جس طریقے پر خود زندگی گزاری اور اپنی امتوں کو جس پر چلنے کی ہدایت کی اس میں دس باتیں شامل تھیں۔ گویا یہ دس چیزیں انبیاء علیہم السلام کی متفقہ تعلیم اور ان کے مشترکہ معمولات میں سے ہیں۔

بعض شارحین نے الفطرۃ سے دین فطرت یعنی دین اسلام مراد لیا ہے۔ قرآن مجید میں دین کو فطرت کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم: ’’پس سیدھا کرو اپنا رخ سب طرف سے یک سُو ہو کر دین حق کی طرف اﷲ کی بنائی فطرت جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اﷲ کی بناوٹ میں تبدیلی نہیں، یہ دین ہے سیدھا پکا۔‘‘ (الروم)

اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ دس چیزیں دین فطرت یعنی اسلام کے اجزاء یا احکامات میں سے ہیں۔ اور بعض شارحین نے الفطرۃ سے انسان کی اصل فطرت و جبلت ہی مراد لی ہے۔ اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ دس چیزیں انسان کی فطرت کا تقاضا ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے اس کی بنائی ہے۔

گویا جس طرح انسان کی اصل فطرت یہ ہے کہ وہ ایمان اور نیکی اور طہارت و پاکیزگی کو پسند کرتا ہے، اور کفر و فواحش و منکرات اور گندگی و ناپاکی کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح مذکورہ بالا دس چیزیں ایسی ہیں کہ انسانی فطرت (اگر کسی خارجی اثر سے ماؤف اور فاسد نہ ہو چکی ہو) تو ان کو پسند ہی کرتی ہے اور حقیقت شناسوں کو یہ بات معلوم اور مسلّم ہے کہ انبیاء علیہم السلام جو دین اور زندگی کا طریقہ لے کر آتے ہیں وہ دراصل انسانی فطرت کے تقاضوں ہی کی مستند اور منضبط تشریح ہوتی ہے۔

اس تفصیل سے خود بہ خود معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث کے لفظ الفطرت کا مطلب خواہ سنّت انبیاء ہو خواہ دین فطرت اسلام ہو، اور خواہ انسان کی اصل فطرت و جبلت ہو، حدیث کا مدعا تینوں صورتوں میں ایک ہی ہوگا اور وہ یہ کہ دس چیزیں انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے اس متفقہ طریقہ زندگی اور اس دین کے اجزاء و احکام میں سے ہیں، جو دراصل انسان کی فطرت و جبلت کا تقاضا ہے۔

حضرت شاہ ولی اﷲ رحمۃاﷲ علیہ نے حجۃ اﷲ البالغہ میں اپنے خاص حکیمانہ طرز پر اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے چند سطریں لکھی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دس عملی باتیں جو دراصل طہارت و نظافت کے باب سے تعلق رکھتی ہیں، ملت حنفیہ کے مؤسس و مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منقول ہیں اور ابراہیمی طریقے پر چلنے والی حنفی امتوں میں عام طور سے ان کا رواج رہا ہے، اور ان پر ان کا عقیدہ بھی رہا ہے۔ قرن ہا قرن تک وہ ان اعمال کی پابندی کرتے ہوئے جیتے اور مرتے رہے ہیں۔

اسی لیے ان کو فطرت کہا گیا ہے۔ اور یہ ملت حنفی کے شعائر ہیں اور ہر ملت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کچھ مقرر و معلوم شعائر ہوں اور وہ ایسے اعلانیہ ہوں جن سے اس ملت والوں کو پہچانا جا سکے اور ان میں کوتاہی کرنے پر ان سے مواخذہ کیا جا سکے تاکہ اس ملت کی فرماں برداری اور نافرمانی، احساس اور مشاہدے کی گرفت میں آسکے اور یہ بھی قرین حکمت ہے کہ شعائر ایسی چیزیں ہوں جو نادر الوقوع نہ ہوں، اور ان میں معتد بہ فوائد ہوں اور لوگوں کے ذہن ان کو پوری طرح قبول کریں اور ان دس چیزوں میں یہ باتیں موجود ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے ان چند باتوں پر غور کرنا چاہیے۔

جسم انسانی کے بعض حصوں میں پیدا ہونے والے بالوں کے بڑھنے سے پاکیزگی پسند اور لطیف مزاج آدمی کی سلیم فطرت منقبض اور مکدر ہوتی ہے جس طرح کہ حدث سے یعنی کسی گندگی کے جسم سے خارج ہونے سے ہُوا کرتی ہے‘ بغل میں اور ناف کے نیچے پیدا ہونے والے بالوں کا حال یہی ہے اسی لیے ان کی صفائی سے سلیم الفطرت آدمی اپنے قلب و روح میں ایک نشاط اور انشراح کی کیفیت محسوس کرتا ہے جیسے کہ یہ اس کی فطرت کا خاص تقاضا ہے اور بالکل یہی حال ناخنوں کا بھی ہے۔

اور داڑھی کی نوعیت یہ ہے کہ اس سے چھوٹے اور بڑے کی تمیز ہوتی ہے اور وہ مردوں کے لیے شرف اور جمال ہے، اسی سے ان کی مردانہ ہیئت کی تکمیل ہوتی ہے اور سنت انبیاء کرامؑ ہے اس لیے اس کا رکھنا ضروری ہے۔ اور مونچھوں کے بڑھانے اور لمبا رکھنے میں کھلا ہُوا ضرر یہ ہے کہ منہ تک بڑھی ہوئی مونچھوں میں کھانے پینے کی چیزیں لگ جاتی ہیں، اور ناک سے خارج ہونے والی رطوبت کا راستہ بھی وہی ہے اس لیے صفائی و پاکیزگی کا تقاضا یہی ہے کہ مونچھیں زیادہ بڑی نہ ہونے پائیں، اس واسطے مونچھوں کے ترشوانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور کلی اور پانی کے ذریعے ناک کی صفائی اور مسواک اور پانی سے استنجاء اور اہتمام سے انگلیوں کے ان جوڑوں کو دھونا جن میں میل کچیل رہ جاتا ہے، صفائی اور پاکیزگی کے نقطۂ نظر سے ان سب چیزوں کی ضرورت و اہمیت کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔

بعض اکابر علماء نے فرمایا کہ اس حدیث سے یہ اصول معلوم ہوگیا کہ جسم کی صفائی اور اپنی ہیئت اور صورت کی درستی اور ایسی ہر چیز کا ازالہ اور اس سے اجتناب جس سے گھن آئے اور کراہیت پیدا ہو احکام فطرت میں سے ہے، اور طریقہ ٔ انبیاء علیہم السلام ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے صورت کی تحسین کو اپنا خاص انعام و احسان بتلایا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں سے ہیں کہا گیا ہے دس چیزیں کی صفائی انسان کی ہے کہ اس حدیث کا کا مطلب ہے اور اور ان

پڑھیں:

غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-2

 

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کا کرنا ممکن بنالیا گیا
  • قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان  فہرست سے خارج
  • سکھر میں صفائی کا فقدان، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگ گئے، انتظامیہ غائب
  • کوٹری: صفائی کا عملہ غائب، شہر بھرمیں گندگی کے ڈھیر لگ گئے
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • تلاش
  • سوڈان میں خونیں کھیل
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • لاہور میں کچرا اٹھانے والی 28 ہزار گاڑیاں آلودگی کا باعث بن گئیں