Daily Ausaf:
2025-06-18@12:06:30 GMT

عوام کو حقیقی نمائندگی چاہیے

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

ایک عام انسان کی کمزوری ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی تنقید کو برداشت نہیں کر پاتا اور اس کا نقصان یہ ہے کہ آدمی اچھے ساتھیوں سے محروم ہوکر رہ جاتا ہے۔ اگر آپ وطنِ عزیز کی بڑی سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہنماؤں پر نظر دوڑائیں تو یہ بات واضح طور پر نظر آجاتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ یا ان کے ساتھی اور حتیٰ کہ ان کے حواری بھی تنقید برداشت نہیں کر پاتے اور نہ ہی تنقید سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں بلکہ اپنے حریفوں کو پوری شدمد کے ساتھ بےجا تنقید کا نشانہ بنانا اپنا اہم فریضہ سمجھتے ہیں اور اس سلسلےمیں یہ لوگ ہر حد پارکرجاتےہیں اور ان کے نتائج سے عوام بخوبی واقف ہے کہ حال اور مستقبل میں کیا کچھ ہوتارہا ہےیااب بھی ہورہا ہے۔ پاکستان پییپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم لیگ(ق) اور ان سے ٹوٹ کر بننے والی متعددجماعتوں میں بھی دیکھ لیں کہ ان لوگوں میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہے اور اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے اور ان سے مفاد پرست اور ملک دشمن عناصر دیگر جماعتیں بنا کر اپنے عزائم کے استعمال کے لیے کام لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہی صورتِ حال حکومت کے ساتھ بھی رہتی ہے وہ حزبِ اختلاف کو برداشت نہیں کرتی لیکن ساتھ لے کرچلنے کا راگ ہر وقت الاپتی نظر آتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا دیکھنا عوام کو نصیب نہیں ہوتا کہ یہ لوگ آپس میں خوش گوار ماحول قائم رکھ پائیں۔ اگر حزبِ اختلاف مضبوط بن کر ابھرےتو حکمران جماعت اپنے مختلف اداروں (ایجنسیوں) کے ذریعے یا مختلف ترغیبات دے کر اس میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اور اس حربہ میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہتی ہے کیونکہ ہر جماعت میں کچھ مفاد پرست اور کمزور سیاسی رہنما ہوتے ہیں جن کی کمزوری کا فائدہ حکمران اور ان کو لانے والے بھرپور طریقے سے اٹھا کر اپنے مفادات کی تکمیل بہ احسن طریقے سے کر پاتے ہیں۔
اس وقت حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان محاذ آرائی اور کشیدگی روز بروز زور پکڑ رہی ہے جس سے سیاسی انتشار میں مزید اضافہ ہونے کا قوی امکان پیدا ہو رہا ہے اور اس سب سے وطنِ عزیز کی عوام میں تردد اور بددلی بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ صدر اور وزیرِ اعظم کا ارشاد اپنی جگہ کہ ’’وطنِ عزیز میں سیاسی استحکام کے دور کا آغاز ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی معشیت مستحکم ہونے کے ساتھ ہی ملک تیزی کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہوگیا ہے اور بہت جلد ہی پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جانے گا۔‘‘ اللہ رب العزت کرےکہ ایسا ہی ہو جائے آمین لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرکاری سبز باغ دکھاتے بیانات کی روشنی کے برعکس ملک میں سیاسی و انتظامی امن و چین کی فضا مضطرب نظر آرہی ہے۔ جمہوریت کی صرف ایک ہی تعریف ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام کی حکومت عوام کے لیے اور آزاد عوامی حق رائے دہی سے بنائی جائے۔ جمہوریت صرف جمہوریت ہے اس میں کسی اور چیز کا عمل دخل نہیں ہونا چاہے اور نہ ہی ہوسکتا جیسا کہ آج کل کیا جاتا ہے کہ ’’پائیدار جمہوریت‘‘ اس کا تصور وطنِ عزیز میں اب نہیں رہا ہے۔ حزبِ اختلاف اب یہ سوچ رہی ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت اور پارلیمینٹ کی بالادستی کے ساتھ اپنی جماعت کی بقاء کے لیے عوام کو سڑکوں پر لائیں گے، اس سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ اس طرح کی سوچ صحیح نہیں ہے۔ احتجاجی سیاست سے کسی بھی فرد کا فائدہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے کئی منفی اثرات وطنِ عزیز سے زیادہ عوام پر ہوتے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے والا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو جاتا ہے اور وطنِ عزیز کی معیشت اور ترقی پہ کیا کیا منفی اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز کا اقوامِ عالم میں تاثر بھی متاثر ہو کر رہ جاتا ہےاور اس سے سرمایہ کاری کے مواقع بھی کم سے کم ہوتے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن ان سب سے سیاسی جماعتوں کو کوئی سروکار نہیں ہوتا، ان کو صرف اپنے مفادات ہی عزیز ہوتے ہیں چاہےاس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے وہ اس سے گریز نہیں کرتے اور اس احتجاجی سیاست کے انجام دیکھ جائے کو اس سے کچھ بھی حاصل وصول ہوتا نظر نہیں آتا سوائے نقصانات کے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ سوچنا پڑے گا اور اپنے اندازِ سیاست میں انہیں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔
جب سے وطنِ عزیز میں الیکشن ہوئے ہیں عوام دیکھ رہی ہیں کہ اس عرصہ میں کیا ہوتا رہا ہے، قانون ساز اداروں میں عوام الناس کی بھلائی کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا سوائے چند ترامیم کے اور وہ بھی جو ان کے مفادات کے لیے اہم و ضروری تھیں، جن کے نتیجہ میں حکمران یا ان کو یہ منصب سوپنے والوں کو ہی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے اور وہ حاصل بھی کررہے ہیں اور یہ بات باآسانی وطنِ عزیز کے باشعور عوام سمجھ رہی ہے۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سیاسی جماعت ہے اور اس ہوتے ہیں جاتا ہے کے ساتھ نہیں کر اور ان کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

برسلزملک بھر کی تمام تنظیموں کا فلسطین کے حق میں بڑا احتجاجی مظاہرہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

برسلز (انٹرنیشنل ویب ڈیسک) یورپین دارالحکومت برسلز میں125 سے زاید ملک بھر کی تمام تنظیموں کا فلسطینیوںکے حق میں تاریخ کا بڑا احتجاجی مظاہرہ دیکھنے میں آیا، جس میں اسرائیلی حملوں کی بھر پور مذمت کی گئی۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ملکی تنظیموں کی جانب سے کیے گئے احتجاجی مظاہرے میں شامل لوگوں میںعمر رسیدہ افراد، بچوں اور معذوروں سمیت1 لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرے کے انتظامیہ نے اس قدر بڑے احتجاجی مظاہرے کو’ریڈ لائن’ کا نام دیا، جس میں شرکا سے اپیل کی تھی کہ وہ لباس کا کچھ حصہ یا اپنے ساتھ کوئی سرخ رنگ کا کپڑا ضرور ساتھ لائیں۔
مذکورہ مظاہرے کو ریڈ لائن کا نام دینے کا مقصد عوام کی جانب سے یورپین حکومتوں کی بے حسی کو نمایاں کر کے یہ بتانا مقصود تھا کہ صیہونی فوج کی جانب سے غزہ کے مظلوم عوام پر یکطرفہ مسلط کی جانے والی تباہی کے خلاف عوام کی سرخ لائن آچکی ہے۔
میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ احتجاجی مظاہرہ نارڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر مختلف راستوں سے گزرتا ہوا یورپین ہیڈ کوارٹرز پر جا کر اختتام ہوا۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ مظاہرے کے آغاز میں بیلجیئم کے فنکاروں نے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے فن کے ساتھ خصوصی پیغامات بھی دیے ہیں۔
مظاہرے میں موجود بینر پر تحریر تھا کہ اب عوام غزہ کے لوگوں کے لیے اپنی ریڈ لائن خود کھینچ رہے ہیں۔
مظاہرین نے اسرائیل کی مذمت میں مختلف نعرے لگاتے رہے حتیٰ کہ امریکن ایمبیسی کے سامنے شیم آن امریکا اور شیم آن یو کے نعرے بھی بلند کیے۔
مظاہرے کے اختتام پر مقررین نے مطالبہ کیا، جس میں کہا گیا کہ یورپین حکومتیں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی خاموشی کو ختم کریں اور صیہونی فوج پر پابندیاں عاید کریں۔برسلز (انٹرنیشنل ویب ڈیسک) یورپین دارالحکومت برسلز میں125 سے زاید ملک بھر کی تمام تنظیموں کا فلسطینیوںکے حق میں تاریخ کا بڑا احتجاجی مظاہرہ دیکھنے میں آیا، جس میں اسرائیلی حملوں کی بھر پور مذمت کی گئی۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ملکی تنظیموں کی جانب سے کیے گئے احتجاجی مظاہرے میں شامل لوگوں میںعمر رسیدہ افراد، بچوں اور معذوروں سمیت1 لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرے کے انتظامیہ نے اس قدر بڑے احتجاجی مظاہرے کو’ریڈ لائن’ کا نام دیا، جس میں شرکا سے اپیل کی تھی کہ وہ لباس کا کچھ حصہ یا اپنے ساتھ کوئی سرخ رنگ کا کپڑا ضرور ساتھ لائیں۔
مذکورہ مظاہرے کو ریڈ لائن کا نام دینے کا مقصد عوام کی جانب سے یورپین حکومتوں کی بے حسی کو نمایاں کر کے یہ بتانا مقصود تھا کہ صیہونی فوج کی جانب سے غزہ کے مظلوم عوام پر یکطرفہ مسلط کی جانے والی تباہی کے خلاف عوام کی سرخ لائن آچکی ہے۔
میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ احتجاجی مظاہرہ نارڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر مختلف راستوں سے گزرتا ہوا یورپین ہیڈ کوارٹرز پر جا کر اختتام ہوا۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ مظاہرے کے آغاز میں بیلجیئم کے فنکاروں نے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے فن کے ساتھ خصوصی پیغامات بھی دیے ہیں۔
مظاہرے میں موجود بینر پر تحریر تھا کہ اب عوام غزہ کے لوگوں کے لیے اپنی ریڈ لائن خود کھینچ رہے ہیں۔
مظاہرین نے اسرائیل کی مذمت میں مختلف نعرے لگاتے رہے حتیٰ کہ امریکن ایمبیسی کے سامنے شیم آن امریکا اور شیم آن یو کے نعرے بھی بلند کیے۔
مظاہرے کے اختتام پر مقررین نے مطالبہ کیا، جس میں کہا گیا کہ یورپین حکومتیں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی خاموشی کو ختم کریں اور صیہونی فوج پر پابندیاں عاید کریں۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی مارچ برائے غزہ، پاکستان کے عوام کا مکمل یکجہتی کا اعلان
  • بجٹ سازوں نے 60 فیصد عوام سے جینے کا حق چھین لیا، ایمل ولی خان
  • فتنۃ الہندوستان کے مٹھی بھر دہشت گرد بلوچستان کے ساتھ رشتوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • چین اور ترکمانستان کے درمیان ٹھوس سیاسی باہمی اعتماد کی خوبیاں موجود ہیں، چینی صدر
  • سمندر پار پاکستانی ہی ملک کے اصل اور حقیقی سفیر ہیں، فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • اسرائیل نے حملہ کرکے زیادتی کی، ہم ایران کے ساتھ کھڑے ہیں، نواز شریف
  • پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کے ساتھ دھوکہ کرکے پیٹھ میں چھرا گھونپ رہی ہے، ایاز لطیف پلیجو
  • برسلزملک بھر کی تمام تنظیموں کا فلسطین کے حق میں بڑا احتجاجی مظاہرہ
  • چینی صدر کی سنائی گئی حقیقی کہانی پر فلم “دی میوزیشن “
  • شہباز شریف کو لیڈ لینی چاہیے، پاکستان کو سیاسی دلدل سے نکالنا چاہیے، اسد عمر