غزہ میں جنگ بندی کے بعد طاقت کے توازن میں تبدیلی
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: دوسری طرف عالمی سطح پر فلسطینیوں سے ہمدردی کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی سچائی سب پر اور خاص طور پر عرب شہریوں پر ثابت ہو چکی ہے۔ حماس، حزب اللہ لبنان، انصاراللہ یمن اور حشد الشعبی عراق کی فوجی صلاحیتیں نمایاں ہو چکی ہیں۔ اگرچہ اسلامی مزاحمت نے سید حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ جیسے عظیم رہنما کھو دیے ہیں لیکن عرب دنیا سید عبدالملک الحوثی کی قیادت پر فخر محسوس کر رہی ہے۔ اگرچہ قاسم سلیمانی، عماد مغنیہ اور یحیی السنوار جیسے عظیم فوجی کمانڈرز شہید ہو گئے ہیں لیکن ایران میں قدس فورس، لبنان میں حزب اللہ، یمن میں انصاراللہ، عراق میں حشد الشعبی اور فلسطین میں حماس اور اسلامک جہاد ایسے دسیوں نئے سپوت امت مسلمہ کو عطا کر سکتے ہیں۔ پس خطے میں طاقت کا توازن اسلامی مزاحمت کے حق مین تبدیل ہو چکا ہے اور دنیا نئے حالات کی جانب گامزن ہے کیونکہ ایسی جنگ جاری ہے جو ابھی ختم نہیں ہوئی۔ تحریر: ڈاکٹر محمد حسن زورق
ڈیڑھ سال پہلے اسرائیلی سفارت کار کچھ خلیجی عرب ریاستوں میں اپنے عرب اتحادیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے رقص اور ناچ کرتے دکھائی دیتے تھے اور ایکدوسرے کی سلامتی کے لیے شراب پیتے نظر آتے تھے، وہ ناچتے، پیتے اور ابراہیم معاہدے کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ ان کا رویہ کچھ یوں تھا گویا عرب دنیا میں مسئلہ فلسطین نامی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ اہل غزہ عرب حکمرانوں کی طرف سے یوں فراموشی کا شکار ہو چکے تھے گویا ان کا اس دنیا میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ایسے حالات میں مظلوم فلسطینیوں کا اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان اور انصاراللہ یمن کے علاوہ کوئی حامی و مددگار نہیں تھا۔ ایک طرف عرب حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے ٹاور آسمان کو چھو رہے تھے جبکہ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں خواتین، بچے اور جوان شدید ترین مظالم اور حق تلفی کا شکار تھے۔
ان حالات میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے ایک حیرت انگیز اور شاندار فوجی آپریشن انجام دیا جس میں بڑی تعداد میں صیہونی فوجیوں اور آبادکاروں کو یرغمال بھی بنا لیا۔ یہ طوفان الاقصی آپریشن تھا۔ حماس کے مجاہدین نے فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ مارنے والے ان یرغمالیوں کو غزہ میں اپنے زیر زمین مراکز اور اڈوں میں منتقل کر دیا۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے طیش میں آ کر انتقامی کاروائی شروع کی اور ایسے اقدامات انجام دیا جنہیں عالمی ضمیر ہر گز قبول نہیں کر سکتا۔ صیہونی حکمرانوں نے غزہ کو مسمار کر کے ویران کر دینے کا فیصلہ کیا اور بہت حد تک اس غیر انسانی مقصد میں کامیاب بھی رہا۔ صیہونی رژیم نے اپنے فوجیوں کو وسیع پیمانے پر فلسطینیوں کا قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔
صیہونی حکمرانوں نے اپنے فوجی جرنیلوں کو کہا کہ جہاں تک ممکن ہے خون کی ندیاں بہا دیں اور اس کام میں ذرہ برابر خوف نہ کریں اور نہ ہچکچائیں۔ صیہونی فوج نے اس قدر بربریت کا ثبوت دیا کہ خود ہزاروں صیہونی فوجی شدید قسم کی نفسیاتی امراض کا شکار ہو گئے اور کم از کم چار صیہونی پائلٹس نے مزید قتل و غارت سے بچنے کے لیے خودکشی کر لی۔ اسی طرح ایک امریکی پائلٹ جو غزہ پر وحشیانہ بمباری کرتا رہا تھا، اپنے ضمیر کی سرزنش برداشت نہ کر پایا اور خود کو امریکہ میں اسرائیلی قونصلیٹ کی عمارت کے سامنے آگ لگا لی اور جان دے دی۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس حد تک مجرمانہ اقدامات پر اکتفا نہیں کیا اور فلسطینیوں کے اس حق سے انکار کر دیا کہ وہ اپنا دفاع کا حق رکھتے ہیں۔
نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ اسرائیل، حماس کو مکمل طور پر نابود کر دینے اور غزہ کو اپنے ساتھ ملحق کر دینے کا عزم راسخ کر چکا ہے۔ اس نے 15 ماہ تک اپنی اس پالیسی پر اصرار کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے مغربی اور عرب اتحادیوں کے لیے اس انسان مخالف پالیسی کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ صحیح ہے کہ نیتن یاہو نے امریکی حکام کو یہ کہہ کر چپ کروا دیا ہے کہ اسرائیل نے اہل غزہ کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے تم لوگوں نے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے عوام سے کیا تھا۔ یوں نیتن یاہو نے ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ جس طرح جنگ کے بعد امریکی حکمرانوں نے اپنے دشمنوں کو جنگ طلب اور خود کو امن پسند ظاہر کیا اسی طرح ہم بھی تاریخ کو یہی تاثر دیں گے کہ ہم امن پسند اور اہل غزہ جنگ طلب ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں مغربی طاقتیں فتح یاب ہوئی تھیں لہذا وہ تاریخ میں اپنی مرضی کا تاثر شامل کرنے میں کامیاب رہیں لیکن غزہ جنگ میں تو اسرائیل کو واضح طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آئیے ایک نظر غزہ جنگ کے فریقین کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر ڈالتے ہیں: اسرائیل کی اتحادی عرب حکومتیں اپنی قوموں کی رائے عامہ میں مشروعیت اور جواز کے بحران کا شکار ہو چکی ہیں۔ خود نیتن یاہو بھی اپنی پارٹی، اپنی کابینہ اور اپنے ملک میں قانونی جواز کے بحران کا شکار ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مغربی طاقتیں اپنی حیثیت بچانے کے لیے اسے قربانی کا بکرا بنائیں گی۔ صیہونی فوج شدید نفسیاتی بحران کا شکار ہے۔ اسرائیل میں مقیم یہودی مہاجرین میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا ہے اور ان کی اکثریت وہاں سے نکل جانے کا سوچ رہی ہے۔
دوسری طرف عالمی سطح پر فلسطینیوں سے ہمدردی کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی سچائی سب پر اور خاص طور پر عرب شہریوں پر ثابت ہو چکی ہے۔ حماس، حزب اللہ لبنان، انصاراللہ یمن اور حشد الشعبی عراق کی فوجی صلاحیتیں نمایاں ہو چکی ہیں۔ اگرچہ اسلامی مزاحمت نے سید حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ جیسے عظیم رہنما کھو دیے ہیں لیکن عرب دنیا سید عبدالملک الحوثی کی قیادت پر فخر محسوس کر رہی ہے۔ اگرچہ قاسم سلیمانی، عماد مغنیہ اور یحیی السنوار جیسے عظیم فوجی کمانڈرز شہید ہو گئے ہیں لیکن ایران میں قدس فورس، لبنان میں حزب اللہ، یمن میں انصاراللہ، عراق میں حشد الشعبی اور فلسطین میں حماس اور اسلامک جہاد ایسے دسیوں نئے سپوت امت مسلمہ کو عطا کر سکتے ہیں۔ پس خطے میں طاقت کا توازن اسلامی مزاحمت کے حق مین تبدیل ہو چکا ہے اور دنیا نئے حالات کی جانب گامزن ہے کیونکہ ایسی جنگ جاری ہے جو ابھی ختم نہیں ہوئی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی مزاحمت نیتن یاہو نے حشد الشعبی فلسطین میں ہیں لیکن حزب اللہ کا شکار اور اس ہے اور ہو چکی کے لیے
پڑھیں:
پی ایس ایل کی مالی بے ضابطگی سے پی سی بی کو اربوں روپے کا نقصان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی انتظامی سطح پر کی گئی ایک اہم مالیاتی تبدیلی نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے لیے سنگین مالی نقصان کے امکانات پیدا کردیے ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک حالیہ سرکاری اجلاس کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ فرنچائزز کو کل آمدنی میں سے دیے جانے والے حصے میں مبینہ طور پر قاعدے سے ہٹ کر اضافہ کیا گیا، جس کے باعث پی سی بی کو اربوں روپے کے مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے پر باضابطہ آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ منافع کی تقسیم میں کی جانے والی اس غیر مجاز تبدیلی سے قومی کرکٹ بورڈ کو ایک ارب 63 کروڑ روپے سے زائد کا مالی نقصان پہنچا ہے۔
آڈٹ پیرا کے مطابق پی ایس ایل کی آمدن میں سے فرنچائزز کو دیا جانے والا منافع مقررہ فارمولے سے زیادہ دیا گیا اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب ملک کورونا وبا کی لپیٹ میں تھا۔
پی سی بی حکام کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ چونکہ کورونا کے دوران لیگ کے مالی حالات متاثر ہوئے تھے، اس لیے فرنچائزز کی مالی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھ ریونیو شیئرنگ کا تناسب تبدیل کیا گیا،مگر اس معاملے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ معاہدے کی شقوں میں تبدیلی کیے بغیر اس طرح کا فیصلہ خلاف ضابطہ تصور کیا جاتا ہے۔ معاہدے معطل کیے بغیر منافع میں تبدیلی قواعد کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ذیلی کمیٹی نے پی سی بی کو اس معاملے پر سخت تنبیہ کرتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ اگلے 90 دن کے اندر اندر تمام مالی اور انتظامی قواعد و ضوابط کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے اور ایسی کوئی بھی پالیسی جو غیر شفاف یا یکطرفہ بنیاد پر ہو، فوری طور پر درست کی جائے۔ کمیٹی نے واضح کیا کہ قومی اداروں کی مالی شفافیت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرین کے مطابق یہ معاملہ نہ صرف پی سی بی کی مالی پالیسیوں پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے بلکہ اس سے بورڈ کی مجموعی انتظامی صلاحیت پر بھی حرف آتا ہے۔ پی ایس ایل جیسا برانڈ جو حالیہ برسوں میں قومی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مثبت تشخص کا ذریعہ بن چکا ہے، اس میں اس نوعیت کی مالی بے ضابطگی کا سامنے آنا بلاشبہ تشویشناک ہے۔
دوسری جانب کرکٹ حلقوں میں یہ سوال بھی زیرِ بحث ہے کہ آیا فرنچائزز کو منافع کی شرح میں اضافے سے حاصل ہونے والا فائدہ واقعی وقتی ریلیف تھا یا ایک مستقل رعایت کی بنیاد ڈالنے کی کوشش؟ اگر مستقبل میں بھی اسی اصول پر عمل کیا گیا تو پی سی بی کے مالی ذخائر اور خودمختاری کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔