صیہونیت کی الف ب ت اور وائزمین (قسط پنجم)
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
بابائِے صیہونیت تھیوڈور ہرزل کا انیس سو چار میں انتقال ہوا تب تک صیہونی تحریک کو کئی زیرک پاسبان مل چکے تھے۔ان میں سے ایک مضبوط نام خائم وائزمین کا بھی تھا۔
وائزمین ایک روسی نژاد چوبی سوداگر کے ہاں اٹھارہ سو چوہتر میں پیدا ہوئے۔انھوں نے جرمنی سے آرگینک کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی۔وائزمین کے پندرہ بہن بھائیوں میں سے دو بہنوں اور ایک بھائی نے بھی کیمسٹری میں نام کمایا۔
دس بہن بھائیوں نے مختلف اوقات میں فلسطین ہجرت کی۔جب کہ وائزمین نے انیس سو دس میں برطانوی شہریت حاصل کر لی جو انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کے قیام تک برقرار رہی۔وائزمین کا زیادہ تر وقت مانچسٹر میں گذرا۔انیس سو سولہ تا انیس وہ برطانوی بحریہ کی ریسرچ لیبارٹریز کے ڈائریکٹر اور دوسری عالمی جنگ کے دوران جنگی سپلائی کے محکمے کے مشیر رہے۔
وائزمین کے دو بیٹوں میں سے بڑے بیٹے بنجمن نے آئرلینڈ میں بس کر ڈیری فارمنگ اپنا لی۔چھوٹا بیٹا جو رائل ایرفورس میں پائلٹ تھا انیس سو بیالیس میں ایک جنگی مشن کے دوران لاپتہ ہو گیا اور کبھی سراغ نہیں ملا۔خائم وائزمین کا ایک بھائی موشے وائزمین یروشلم کی ہیبرو یونیورسٹی میں شعبہ کیمسٹری کا سربراہ رہا۔انیس سو پچیس سے فعال ہیبرو یونیورسٹی کے قیام میں آئن اسٹائن اور وائزمین کا بنیادی کردار کیا۔جب کہ ان کا ایک بھتیجا ایزر وائزمین بعد ازاں اسرائیلی فضائیہ کا سربراہ اور پھر ملک کا صدر بنا۔
وائزمین نے اسرائیل کے قیام سے چودہ برس قبل تل ابیب کے نزدیک رہووٹ کی آبادکار بستی میں پوسٹ گریجویٹ سائنسی تعلیم کے فروغ کے لیے ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا۔اسے بعد ازاں خائم وائزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز کا نام دیا گیا۔ان کا گھر بھی اسی انسٹی ٹیوٹ کے احاطے میں تھا اور یہیں انھیں وصیت کے مطابق سپردِ خاک بھی کیا گیا۔
خائم وائزمین اپلائیڈ کیمسٹری کا ایک بڑا نام ہے۔انھیں فادر آف انڈسٹریل فرمنٹیشن کہا جاتا ہے۔انھوں نے نباتات سے صنعتی پیمانے پر ایسی ٹون اور ایتھونول بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔ایسی ٹون کورڈائٹ نام کا دھماکا خیز مواد بنانے میں بنیادی ایلیمنٹ ہے۔اس حیرت انگیز پیش رفت کے سبب برطانیہ کو پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی پر سبقت حاصل کرنے میں خاصی مدد ملی۔
خائم وائزمین کی سائنسی قابلیت نے برطانوی اشرافیہ کو ان کا ممنون بنا دیا اور اس تعلق کا احسان برطانوی اسٹیبلشمنٹ نے بالفور ڈکلریشن کی شکل میں چکایا۔ کنزرویٹو وزیرِ اعظم ڈیوڈ لائیڈ جارج ، مانچسٹر سے منتخب رکنِ پارلیمان سابق وزیرِ اعظم اور لائیڈ جارج کابینہ میں وزیرِ خارجہ آرتھر بالفور اور بااثر وزیرِ بلدیات ہربرٹ سیموئیل وائزمین کے مداحوں میں شامل تھے۔
وزیرِ خارجہ بالفور نے انیس سو سترہ میں پہلی عالمی جنگ کے خاتمے سے چند ماہ قبل صیہونیت کے سب سے بڑے برطانوی سرپرست سرمایہ دار سر والٹر روتھ چائلڈ کی مشاورت سے مرتب کردہ دستاویز جس میں فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی برطانوی حمائیت کا وعدہ تھا جنگی کابینہ کے سامنے رکھی تو لارڈ کرزن ، لارڈ ایسکوئتھ اور وزیرِ امورِ ہند مانٹیگو نے اس منصوبے پر شدید تحفظات ظاہر کیے۔انھیں خدشہ تھا کہ ایک ایسے وقت جب جرمنوں کو اپنی شکست صاف دکھائی دے رہی ہے وہ بالفور ڈکلریشن کو برطانیہ کے خلاف عربوں کو بھڑکانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور یوں مشرقِ وسطی میں اتحادی جنگی حکمتِ عملی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔مگر گرماگرم مباحثے کے بعد کابینہ نے بالفور ڈکلریشن کی توثیق کر دی ۔
خائم وائزمین کے بقول اسرائیل کے قیام سے بھی زیادہ اہم واقعہ بالفور ڈکلریشن کا اجرا ہے۔خائم نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔سائنسی تحقیق سے جو وقت بچتا وہ صیہونی نظریے کی لابنگ میں صرف ہو جاتا۔
وائزمین نے انیس سو سات میں برطانوی کیمیکل کمپنی آئی سی آئی کے لیے فلسطین اور ٹرانس اردن کے درمیان واقع بحیرہ مردار میں قیمتی عناصر کی تلاش میں تحقیقی رہنمائی کی اور پہلی بار یروشلم بھی دیکھا۔انھوں نے مستقبل کی یہودی مملکت کا تصور کرتے ہوئے فلسطین لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔بقول وائزمین ’’ کوئی ریاست محض کاغذی ملکیت کی بنا پر نہیں ابھرتی بلکہ نسل در نسل انتھک محنت مانگتی ہے۔یہودیوں کو نہ صرف فلسطین میں جوق در جوق بسنا ہو گا بلکہ اپنی موجودگی مستحکم کرنے کے لیے مسلسل ریاضت بھی کرنا ہو گی ‘‘۔
ایک جانب برطانوی اسٹیبلشمنٹ وائز مین کے خواب کی پرورش کر رہی تھی تو دوسری جانب جرمن اتحادی ترکی کے زیرِ تسلط حجاز کے گورنر شریف حسین ہاشمی کو شیشے میں اتارنے کا کام بھی جاری تھا۔ان سے وعدہ کیا گیا کہ ترکوں کی شکست میں مسلح تعاون کے عوض شام تا حجاز ہاشمی قیادت میں بطور ایک متحدہ عرب سلطنت تسلیم کر لیا جائے گا۔
تیسری جانب فرانس اور برطانیہ نے گرتی ہو عثمانی سلطنت کے عرب صوبوں کی بندر بانٹ کے لیے سائکس پیکو خفیہ معاہدہ کر لیا۔اس معاہدے کے مندرجات کا علم صرف تیسرے اتحادی زار نکولس کو تھا۔اس بندر بانٹ کے نتیجے میں بلاد شام فرانس کو جب کہ عراق ، ٹرانس اردن اور فلسطین برطانیہ کو ملنا تھا۔
اکتوبر دو ہزار سترہ میں بالشویکوں نے زار شاہی کا تختہ الٹنے کے بعد جنگ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے جنگ سے متعلق جو خفیہ دستاویزات افشا کر دیں ان میں سائکس پیکو معاہدے کی کاپی بھی تھی۔
شریفِ مکہ اس کھلی دھوکے بازی پر بھڑک اٹھے۔مگر انھیں برطانوی ایجنٹ کرنل لارنس (لارنس آف عربیہ ) نے یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا کہ یہ کوئی رسمی معاہدہ نہیں بلکہ برطانوی و فرانسیسی سفارتکاروں کی باہمی یادداشتوں کا ریکارڈ ہے۔عربوں سے جو وعدہ کیا گیا وہ ضرور پورا ہوگا۔لارنس نے شریفِ ملکہ کو یقین دلایا کہ ان کے بیٹے فیصل کو متحدہ عرب ریاست کا بادشاہ تسلیم کر لیا جائے گا۔
مگر جب جنگ کے خاتمے سے ذرا پہلے دمشق پر سائکس پیکو سمجھوتے کے دستخطی فرانس کا قبضہ ہوا اور پیرس میں انیس سو انیس میں ہونے والی فاتحین کی امن کانفرنس اور بعد ازاں فاتحین کی کٹھ پتلی لیگ آف نیشنز نے اس قبضے کی بطور انتداب توثیق کر دی تو فرانس نے دمشق سے فیصل کو کان سے پکڑ کر نکالنے میں دیر نہیں لگائی۔
برطانیہ نے اشک شوئی کے لیے عراق کی بادشاہت فیصل بن شریف حسین کے حوالے کر دی۔جب کہ ان کے دوسرے بیٹے کو ٹرانس اردن کا بادشاہ تسلیم کر لیا گیا۔مگر اصل طاقت برطانیہ کے پاس ہی رہی۔
پیرس امن کانفرنس اور لیگ آف نیشنز نے فلسطین برطانیہ کو بین الاقوامی امانت کے نام پر سونپا تھا۔یوں برطانوی چھتر چھایا میں یورپی یہودیوں کی کثیر تعداد میں آمد کا محفوظ راستہ کھل گیا۔
انیس سو تینتیس میں جرمنی میں ہٹلر کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد فلسطین منتقل ہونے والے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ہٹلر سرکار کے پہلے تین برس کے دوران ایک لاکھ سے زائد نئے یہودی فلسطین میں داخل ہوئے۔ جب عربوں کی بے چینی پھٹ پڑی تو قابض برطانیہ نے بظاہر مزید یہودیوں کی آمد محدود کر دی۔
انیس سو چھتیس میں برطانیہ نے سر رابرٹ پیل کی سربراہی میں فلسطین کمیشن بنایا۔عربوں نے بائیکاٹ کیا۔پیل کمیشن نے فلسطین کی تقسیم کی سفارش کی۔صیہونی قیادت نے جھٹ سے یہ تجویز قبول کر لی۔برطانیہ اور مسلح یہودی تنظیموں نے عرب بے چینی کو مشترکہ طور پر کچل دیا۔( نومبر انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ نے جو پارٹیشن قرار داد منظور کی وہ پیل کمیشن کی سفارشات کا ہو بہو عکس تھی )۔
انتیس اگست انیس سو انتالیس کو دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر خائم وائزمین نے وزیرِ اعظم چیمبرلین کو صیہونیوں کی جانب سے مکمل حمائیت کا خط بھیجا۔ انیس سو چوالیس میں برطانیہ نے فلسطین میں آباد یہودیوں پر مشتمل جیوش انفنٹری بریگیڈ تشکیل دیا جو اطالوی محاز پر مسولینی کے خلاف لڑا۔بعد ازاں اس بریگیڈ کے تربیت یافتہ ریٹائرڈ ارکان نے انیس سو سینتالیس اڑتالیس میں لاکھوں فلسطینیوں کو کھدیڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
خائم وائزمین کو انیس سو بیالیس میں روزویلٹ نے واشنگٹن میں مدعو کیا۔وائزمین نے جب روزویلٹ کو سمجھایا کہ مصنوعی ربڑ اور ہائی آکٹین گیسولین کی تیاری کیسے صنعتی پیمانے پر ممکن ہے تو عین جنگ کے دوران قدرتی ربڑ اور فضائیہ کے لیے گیسولین کے بحران سے نبرد آزما امریکی صدر ششدر رہ گئے۔ اس خوشگوار شخصی چھاپ کو وائزمین نے بعد ازاں ٹرومین انتظامیہ سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے چابک دستی سے استعمال کیا۔
خائم وائزمین اسرائیل کی تشکیل کے بعد پہلے عبوری صدر اور انیس سو انچاس میں آئینی صدر بنے اور اس عہدے پر رہتے ہوئے نو نومبر انیس سو باون کو ان کا انتقال ہوا۔ تب تک وائزمین اور وزیرِ اعظم ڈیوڈ بن گوریان کی جوڑی اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کے تحت ملنے والے علاقے کو دوگنا کر چکی تھی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خائم وائزمین عالمی جنگ کے وائزمین نے وائزمین کے فلسطین میں وائزمین کا برطانیہ نے کے دوران تسلیم کر کے قیام کے لیے کے بعد کر لیا
پڑھیں:
لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا
یہودی ایک انتہا پسند، شرپسند، تخریب کار اور دہشت گرد قوم ہے، جن کے ساتھ ہماری جنگ روز اول سے روز آخر تک رہے گی۔ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا یہودیت کی سرشت میں نہیں۔ قرآن کریم کی آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہودیوں نے اپنی قوم اور نسل سے آنے والے انبیائے کرامؑ کو بھی سکون سے جینے نہیں دیا، ان کی نافرمانیاں کیں، مذاق اڑایا حتیٰ کہ بہت سے انبیاء کو شہید کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہودیت بربریت کا دوسرا نام ہے اور یہودی بربریت کے قصے تاریخ کے ابواب میں محفوظ ہیں، مگر آج یہودیوں کی بربریت کے ساتھ ان کے سہولت کار امت کے غداروں کے پوسٹ مارٹم کا ارادہ ہے۔
یہود، نصریٰ کی آشیرباد سے ارض مقدس پر انسانی حقوق کی پامالیوں میں ہر حد پار کرچکے ہیں، جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ رمضان المبارک میں جنگ بندی کے باوجود پاگل یہودی بربریت سے باز نہیں آئے۔ عید کے دن بھی مظلوم فلسطینیوں کو خون میں نہلایا گیا۔ مساجد محفوظ ہیں نہ گھر۔ گھر ملبے کے ڈھیر اور مساجد شہید ہوچکی ہیں۔
اسپتال، اسکول، پناہ گزین کیمپ حتیٰ کہ قبرستان بھی یہودی بربریت سے محفوظ نہیں رہے۔ غزہ کو اہل غزہ سے خالی کروانا گریٹر اسرائیل کے قیام کے خاکے میں رنگ بھرنے کی ابتداء ہے۔ یہودیت کے اس ناپاک و غلیظ منصوبے کی راہ میں صرف حماس کے مجاہدین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر پوری ایمانی غیرت کے ساتھ کھڑے ہیں، حالانکہ گریٹر اسرائیل منصوبہ تو پورے مڈل ایسٹ کے نقشے کے ساتھ دنیا کے نظام کو بھی تہس نہس کر دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو عرب ریاستیں گریٹر اسرائیل کی اس ناپاک دلدل میں غرق ہو جائیں گی، لیکن صرف اہل فلسطین ڈٹ کر کھڑے ہیں اور اب تک 55 ہزارسے زائد فلسطینی یہودی بربریت کی بھینٹ چڑھ کر اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر مسلم امہ کی بے حسی کا نوحہ سنا رہے ہیں۔
آج کے لبرلز برملا اور مسلمان حکمران اپنے طرز عمل سے یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگوں سے ملک تباہ ہو جاتے ہیں اور بظاہر ان کی سوچ صحیح بھی لگتی ہے لیکن اگر زمینی حقائق پر غور کریں تو گزشتہ دو صدیوں سے امریکا مسلسل جنگوں میں مصروف ہے اور ان کے ناجائز بغل بچہ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل حالت جنگ میں ہے مگر وہ تو تباہ نہیں مضبوط ہو رہے ہیں جب کہ جنگ سے بھاگنے والے عرب ممالک دن بدن کمزور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ صدی میں سب سے طویل اور خوفناک جنگیں جاپان جرمنی اور کوریا نے لڑیں لیکن پھر بھی یہی ممالک ترقی میں سب سے آگے نکل گئے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو مسلمان کئی صدیوں تک مسلسل جہاد (جنگوں) میں مصروف رہے اور اس دوران تمام عالمی طاقتیں ان کے سامنے سرنگوں اور مسلمان سب سے ترقی یافتہ اور طاقتور رہے۔
اے مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کیا ہوگیا آپ لوگوں کو؟ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم تو قرآن پاک میں سیکڑوں دفعہ آیا ہے، جہاد ہمارے ایمان کا حصہ اور حکم ربانی ہے، مگر جب سے مسلمانوں کو جنگوں سے ڈرنا اور بزدلی کا سبق پڑھایا گیا ہے مسلمان غربت کا شکار اور ترقی میں پیچھے رہ کر ذلیل وخوار ہوگئے ہیں۔
ماضی میں جب بربریت کے علمبرداروں نے الاقصیٰ پر قبضہ کیا تو شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ جیسے عالم دین مدرسے میں پڑھنے پڑھانے کے عمل کو موقوف کرکے خلیفہ وقت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے نکلے اور خلیفہ وقت کے خطبہ جمعہ کے دوران کھڑے ہو کر خلیفہ وقت کے سامنے بہتی آنکھوں اور درد سے کی گئی تقریر نے خلیفہ وقت کے دل کی دنیا بدل ڈالی اور صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح ہوئی۔
آج عرب و عجم کے ہزاروں علماء شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ بن کر مسلمان حکمرانوں کو پکار رہے ہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی کی تلاش میں ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں مفتی اعظم پاکستان شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمٰن نے بھی اسرائیل کے خلاف جہاد کی فرضیت کا فتویٰ دیا۔ مگر افسوس کہ اس فتوے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی کردار کُشی اور بہتان تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان میں یہودی ہیں نہ ہم فلسطین کے پڑوسی ہیں اس کے باوجود ہمارے ملک میں اسرائیل کے جتنے ہمدرد اور سہولت کار سامنے آئے، الامان الحفیظ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاد کے لفظ سے کفار سے زیادہ منافقین کو تکلیف ہوئی ہے۔
اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کا تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان کے مسلمان تو بحیثیت قوم دستوری اور آئینی طور پر اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں جو ایمان کے ساتھ پاکستانیت کی نشانی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں غزہ میں اسرائیلی بربریت اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسرائیل کے خلاف احتجاج تو دور کی بات کوئی اپنے کارکنوں کو جاندار مذمتی بیانیہ بھی نہیں دے سکے نتیجتاً اسرائیل کے لیے ان جماعتوں میں موجود لبرلز کے دلوں میں پہلے سے موجود نرم گوشہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کے دلائل میں بدل رہا ہے۔
اسپیکر ایاز صادق نے غزہ پر بمباری روکنے کے لیے رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کو قرار داد پیش کرنے کی اجازت دی تو اصولًا، عقلاً اور شرعاً یہ متفقہ طور پر منظور ہونا چاہیے تھی لیکن سابق اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے اس قرارداد کو بلڈوز کرنے کی حرکت نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، انھوں کہا کہ "اگر اس ایوان میں عمران خان کے حق میں قرار داد پیش نہیں ہوگی تو فلسطینیوں کے حق میں بھی قرار داد پیش نہیں ہوگی۔" پاکستانیوں یہ ہے پی ٹی آئی کا وہ چہرہ جس کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن نے قوم کو خبردار اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ و حکیم سعیدؒ نے پیش گوئیاں کی تھیں۔
اسرائیل کے غزہ میں مظالم نے امت مسلمہ میں واضح لکیر کھینچ دی ہے جس کے ایک طرف فلسطین کے حامی اور دوسری طرف یہود پرست ہوں گے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ "پاکستان تو فلسطین سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے ہم کیسے اسرائیلی بربریت کے لیے ان کا ساتھ دے سکتے ہیں؟" انھیں کون سمجھائے کہ فلسطین ہزاروں کلومیٹر دور مگر مسجد الاقصیٰ تو ہمارے دل کی دھڑکنوں اور خون کے رگوں میں ہے تو پھر مسجد الاقصیٰ کے سربکف محافظوں کو کون ہمارے دلوں سے دور کرسکتا ہے؟ قصہ مختصر علماء کرام نے اپنی ذمے داری پوری کردی، اب امت حکمرانوں کی طرف دیکھ رہی ہے، ہم بھی ان حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے پی ایس ایل میں فلسطین کا پرچم لہرانے کی اجازت نہیں، ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے اسرائیل مخالف ریلیوں پر لاٹھی چارج اور شرکاء کو گرفتار کیا جاتا ہے، ان حکمرانوں کی طرف جن کا امریکن جیوش کانگریس نے اسرائیل سے متعلق ایک قرار داد میں اہم تبدیلیوں کا خیرمقدم کیا اور اسرائیل کے خلاف او آئی سی کے موقف کو نرم بنانے پر شکریہ ادا کیا، ان رویوں کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہوگا کہ ہم احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل کے پنجوں سے معصوم فلسطینیوں کو بچائیں گے مگر ہم مایوس نہیں، انشاء اللہ احادیث مبارکہ میں دی گئی بشارت نبوی کے مطابق وہ وقت ضرور آئے گا جب بیت المقدس آزاد ہو جائے گا۔ اس وقت امت کے غدار یہود پرست گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔