برطانوی عدالت نے "فلسطین ایکشن گروپ" پر پابندی اُٹھانے کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد گروپ کی رکنیت اختیار کرنے پر قید کی سزائیں ہوں گی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی ہائی کورٹ میں فلسطین ایکشن گروپ پر عائد پابندی کو ختم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

ہائی کورٹ کے جج جسٹس چیمبرلین نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ اگر یہ پابندی عارضی طور پر نہ روکی گئی اور بعد میں گروپ کی اپیل منظور ہو بھی گئی تو اس سے ہونے والا نقصان عوامی مفاد میں حکم نافذ رکھنے کی اہمیت کے مقابلے میں کم ہے۔

جس پر گروپ نے فیصلے کے خلاف فوری طور پر کورٹ آف اپیل سے رجوع کیا، لیکن جمعہ کی رات اپیل بھی مسترد کر دی گئی۔

لیڈی چیف جسٹس بیرونس کار، لارڈ جسٹس لیوس اور لارڈ جسٹس ایڈس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کسی گروپ کو ممنوع قرار دینے کا اختیار عدالت کے پاس نہیں بلکہ سیکرٹری آف اسٹیٹ کے پاس ہے، جو پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔

خیال رہے کہ برطانیہ کی ہوم سیکرٹری یوویٹ کوپر نے 23 جون کو فلسطین ایکشن پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دو جنگی طیاروں کو نقصان پہنچانے کی کارروائی شرمناک تھی، اور یہ گروپ مسلسل مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔

اس پابندی کا مطلب ہے کہ اب "فلسطین ایکشن" کی رکنیت اختیار کرنا، اس کی حمایت کرنا یا اس کے حق میں اظہار رائے کرنا جرم شمار ہوگا، جس پر 14 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

کیس کا پس منظر:

یہ اقدام اس وقت اٹھایا گیا جب "فلسطین ایکشن" نے پچھلے ماہ RAF Brize Norton بیس پر دو جنگی طیاروں کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ جس میں تقریباً 70 لاکھ پاؤنڈ کا نقصان ہوا تھا۔

عدالت میں گروپ کی وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ گروپ پر پابندی غیر مدبرانہ اور آمرانہ طرز کا اختیار ہے۔

ان کا عدالت میں کہنا تھا کہ یہ برطانیہ کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ایک پُرامن سول نافرمانی پر مبنی احتجاجی گروپ، جو تشدد کی وکالت نہیں کرتا، کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔

اس پابندی کے بعد "فلسطین ایکشن" اب ان 81 تنظیموں میں شامل ہو گئی ہے جنہیں برطانیہ نے Terrorism Act 2000 کے تحت ممنوع قرار دیا ہے۔ ان میں حماس، القاعدہ اور نیشنل ایکشن جیسے گروہ بھی شامل ہیں۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطین ایکشن پر پابندی

پڑھیں:

گنڈا پور کی حکومت گرانے کا ارادہ نہیں، اختیار ولی خان

اسلام آباد:

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اختیار ولی خان کا کہنا ہے کہ ہمارا علی امین گنڈاپور کی حکومت کو گرانے کا بالکل بھی کوئی ارادہ نہیں ہے، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی تین حصوں میں تقسیم ہے، ایک دھڑا صرف علی امین کو مانتا ہے، دوسرا دھڑا عمران خان کے ساتھ کمٹڈ ہے جبکہ تیسرا دھڑا عمران خان اور علی امین کی پالیسیوں سے تنگ ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون یہ کہتا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017,2016 کے تحت ریزرو سیٹیں پولیٹیکل پارٹیز کی ملکیت ہوتی ہیں، اگر آپ نے اپلائی نہیں کیا تو آپ کی اہلیت ہی نہیں، یہ سیٹیں اگر ہمیں نہ ملتیں تو کسی اور پارٹی کو ملتیں۔

تحریک انصاف کے رہنما نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ 8 فروری کو لوگوں نے ہم کو حکومت دی تھی،آپ عوام کے نمائندے نہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ مخصوص نشتیں اٹھا کر کسی کو مال غنیمت کے طور پر دے دی جائیں، آئین کے آرٹیکل 51 میں یہ نہیں لکھا، آپ آئین کو ری رائٹ نہیں کر سکتے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے پاس پی ٹی آئی وفد آیا اور درخواست کی کہ خیبر پختونخوا کی تحریک عدم اعتمادکا حصہ نہ بنیں، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کے پی حکومت گرانے میں دلچسپی نہیں، میں اسمبلی و پورے سسٹم کو جعلی اور دھاندلی زدہ سمجھتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی کچھ شخصیات اور وفاقی وزرا خیبر پختونخوا حکومت کی تبدیلی اور اپنے لاڈلے کو چیف منسٹر بنانا چاہتے ہیں، دوسرا پی ٹی آئی کے اندر کچھ لوگ علی امین گنڈاپورکو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • برطانیہ میں فلسطین ایکشن گروپ پر پابندی برقرار،حمایت پر قید کی سزائیں ہونگی
  • برطانیہ میں فلسطین ایکشن پر پابندی کیخلاف مظاہرہ، ہائی کورٹ میں حکومتی فیصلے کو چیلنج
  • وزیراعلیٰ پنجاب کا ڈی ایچ کیو ہسپتال پاکپتن کے ایم ایس کیخلاف سخت ایکشن، گرفتار کرنے کا حکم
  • پارٹی کی فلسطین پالیسی سے اختلاف پر برطانیہ کی پاکستانی نژاد رکن پارلیمنٹ مستعفی
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نظریہ پاکستان سے غداری ہے، ڈاکٹر صابر ابومریم
  • گرمیوں میں انڈے کھانا فائدہ مند یا نقصان دہ؟
  • بی بی ایل سیزن 15 کا شیڈول جاری؛ شاہین آفریدی، بابر اعظم بھی ایکشن میں نظر آئیں گے
  • وزیراعلیٰ کی ہدایت پر سائبر سیل کا ایکشن، 932 لنکس پی ٹی اے کو رپورٹ
  • گنڈا پور کی حکومت گرانے کا ارادہ نہیں، اختیار ولی خان