گرمیوں میں انڈے کھانا فائدہ مند یا نقصان دہ؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: طبی ماہرین نے گرم موسم میں انڈے کھانے سے صحت متاثر ہونے کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ انڈے ہر موسم میں مفید غذا ہیں، بشرطیکہ ان کا استعمال اعتدال میں کیا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈے پروٹین، وٹامنز، منرلز، امینو ایسڈز اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں، جو نہ صرف جسم کو توانائی فراہم کرتے ہیں بلکہ گرمی میں ڈی ہائیڈریشن سے بچانے اور جسم میں سیال کا توازن برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ کہنا درست نہیں کہ انڈوں کی “گرم تاثیر” گرمیوں میں نقصان دہ ہو سکتی ہے، کیونکہ اس خیال کی کوئی سائنسی بنیاد موجود نہیں۔ انڈے نہ صرف بینائی کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں بلکہ بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول میں رکھتے ہیں، جبکہ پٹھوں کو طاقت اور جسم کو تھکاوٹ سے بچاتے ہیں۔
طبی ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ روزانہ ایک یا دو انڈے کھانا صحت کے لیے مفید ہے، تاہم اگر کسی کو کولیسٹرول کا مسئلہ درپیش ہو تو وہ انڈے کھانے سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ ضرور کرے۔
ماہرین نے واضح کیا کہ ہر غذا کی طرح انڈوں کا استعمال بھی اعتدال کے ساتھ کرنا چاہیے کیونکہ زیادتی کسی بھی صحت مند چیز کو نقصان دہ بنا سکتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
صیہونی افواج جان بوجھ کر بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے، غیر ملکی طبی ماہرین کی رپورٹ میں انکشاف
غزہ میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے غیر ملکی ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 100 سے زائد بچوں کا علاج کیا جنہیں سر یا سینے میں گولیاں ماری گئی تھیں جو کہ واضح ثبوت کے طور پر اسرائیل کی جانب سے بچوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا اشارہ دیتے ہیں۔
ڈچ روزنامہ فولکسکرنٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 17 میں سے 15 ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہیں 15 سال سے کم عمر کے بچے ملے جنہیں سر یا سینے میں ایک گولی لگی تھی۔
ان ڈاکٹروں نے اپنی طبی مہمات کے دوران ایسے 114 کیسز کی تصدیق کی۔ کئی بچوں کی موت واقع ہوئی جبکہ دیگر شدید زخمی ہو گئے۔
امریکی ایمرجنسی فزیشن میمی سید نے فولکسکرنٹ کو بتایا کہ یہ کوئی کراس فائر نہیں ہیں بلکہ جنگی جرائم ہیں۔
انہوں نے 18 بچوں کے کیسز کی دستاویز کی جنہیں سر یا سینے میں گولی ماری گئی۔
کیلیفورنیا کے ماہرِ طب فیرُوز سدھوا نے کہا کہ آغاز میں انہیں یہ واقعات الگ تھلگ معلوم ہوئے لیکن جب انہوں نے ایک اسپتال میں متعدد لڑکوں کو براہ راست سر میں گولی لگے دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ یہ ایک وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے۔ یہ ہدف بنا کر فائرنگ کی جا رہی ہے اور کسی نہ کسی بچہ کو نشانہ بنا رہا ہے۔
ڈچ فوج کے سابق کمانڈر مارٹ ڈی کراف نے کہا کہ یہ کوئی حادثات نہیں ہیں بلکہ یہ جان بوجھ کر کی جانے والی کارروائیاں ہیں۔
دوسری جانب برطانوی خبر رساں ادارے نے اگست میں 160 سے زائد بچوں کے کیسز کا انکشاف کیا جنہیں اسرائیلی افواج نے گولی مار کر زخمی یا شہید کیا۔
ان میں سے 95 کیسز ایسے تھے جن میں بچوں کو سر یا سینے میں گولیاں لگی تھیں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ان نوعیت کی چوٹوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ بچے جان بوجھ کر نشانہ بنے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ان واقعات میں زیادہ تر متاثرہ بچے 12 سال سے کم عمر کے تھے اور یہ واقعات اکتوبر 2023 کے آغاز سے لے کر اس سال کے جولائی تک پھیلے ہوئے ہیں۔