data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ :امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک چشم کشا رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ میں امدادی مراکز پر تعینات امریکی سکیورٹی کنٹریکٹرز نے خوراک کے حصول کے لیے جمع بھوک سے نڈھال فلسطینیوں پر براہِ راست گولیاں چلائیں جب کہ اسٹن گرینیڈز اور مرچ اسپرے کا استعمال بھی کیا گیا۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں موجود دو امریکی سکیورٹی کنٹریکٹرز نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے ساتھی اہلکار بھاری اسلحے سے لیس تھے، انہوں نے ایک دم ہی امدا لینے آنے والے فلسطینیوں پر فائرنگ شروع کردی، سکیورٹی عملہ غیر تربیت یافتہ ہے، جس کی وجہ سے بعض اقدامات ان کی اپنی مرضی سے ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا کہ ان امدادی مراکز میں چہرے کی شناخت کرنے والے جدید کیمرے نصب کیے گئے ہیں جن کے ذریعے مشتبہ افراد کی شناخت کی جاتی ہے اور یہ ڈیٹا براہِ راست اسرائیلی فوج کے ساتھ شیئر کیا جاتا ہے۔

 کنٹریکٹرز کے مطابق سکیورٹی عملے کو ہدایت دی گئی تھی کہ کسی بھی مشتبہ شخص کی تصویر لے کر اُسے ایک خفیہ ڈیٹا بیس کا حصہ بنایا جائے، جس کا استعمال بعد میں اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن کو گزشتہ ماہ امریکی حکومت کی جانب سے 30 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی گئی تھی، جس کا مقصد جنگ زدہ علاقے میں خوراک اور بنیادی سہولیات کی فراہمی بتایا گیا تھا۔

غزہ میں جاری جنگ، بمباری اور مسلسل محاصرے کے باعث لاکھوں فلسطینی شہری پہلے ہی بدترین انسانی بحران سے دوچار ہیں، خوراک، پانی اور ادویات کی قلت کے باعث لوگ روزانہ امدادی مراکز پر جمع ہوتے ہیں، جہاں انہیں اکثر شدید دھکم پیل اور ہنگامہ آرائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دریں اثنا انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اس معاملے پر فوری تحقیقات اور شفافیت کا مطالبہ کر رہی ہیں، جب کہ فلسطینی حلقوں میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے بھیجی گئی امداد کے ساتھ اس طرح کا سلوک متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

خیال رہےکہ جنگ زدہ اور محصور غزہ میں ایک طرف فلسطینی عوام فاقہ کشی، ادویات کی قلت اور تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر سے دوچار ہیں، تو دوسری جانب “غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن (GFH)” جیسے امدادی اداروں کے نام پر سرگرم تنظیمیں مبینہ طور پر انسانی ہمدردی کی آڑ میں دہشت گردی اور اسرائیلی فوج کے لیے انٹیلی جنس اکٹھا کرنے میں ملوث پائی جا رہی ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی تحقیقاتی رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں جن کے مطابق GFH کے تحت کام کرنے والے امریکی سکیورٹی کنٹریکٹرز نے امدادی مراکز پر جمع بھوک سے نڈھال فلسطینیوں پر براہِ راست گولیاں چلائیں، اسٹن گرینیڈز پھینکے، اور مرچ اسپرے کا استعمال کیا۔ یہ تمام اقدامات ان فلسطینیوں کے خلاف کیے گئے جو صرف ایک وقت کے کھانے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق GFH میں تعینات سکیورٹی اہلکار نہ صرف بھاری اسلحے سے لیس اور غیر تربیت یافتہ ہیں بلکہ انہیں مشتبہ افراد کی تصاویر لینے، ان کی چہرہ شناسی کیمروں کے ذریعے شناخت کرنے اور یہ ڈیٹا اسرائیلی فوج کے ساتھ شیئر کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان مراکز میں لگائے گئے جدید کیمرے امدادی مراکز کو دراصل انٹیلی جنس کے مراکز میں تبدیل کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امدادی مراکز فلسطینیوں پر کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کا فلسطین فارمولا، مجرم ہی منصف!

اسلام ٹائمز: میں یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ جب اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے تو حماس نے جنگ شروع کیوں کی۔ یاد رکھیں، جنگیں بہادری، قربانی اور اصولوں کے بغیر نہیں لڑی جا سکتیں۔ آزادی کی تحریکوں میں انسانی قربانیوں کی نہیں مقصد اور کاز کی اہمیت کو دیکھا جاتا ہے، جس کیلئے قربانیاں دی جا رہی ہوتی ہیں۔ تحریر: سید منیر حسین گیلانی

کافی عرصے بعد غزہ میں جاری انسانیت سوز بربریت کے مسئلے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس اسرائیل جنگ ختم کرنے کیلئے 20 نکاتی فارمولا دیا ہے۔ پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عرب اور غیر غرب مسلم ممالک کے سربراہوں کے سامنے یہ فارمولا پیش کیا گیا اور پھر کچھ دنوں بعد درندہ صفت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو اپنے ہاں بلا کر اسے اعتماد میں لیا۔ پھر دونوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ نیتن یاہو کی پریس کانفرنس کو نمایاں طور پر عالمی میڈیا پر دکھایا گیا، جس میں اس نے حماس کیساتھ جنگ بندی کے نکات پڑھ کر سنائے۔ اس کی تفصیلات آج دنیا کے سامنے آچکی ہیں اور تبصرے جاری ہیں۔ ان نکات میں دو ریاستی فارمولے کا کہیں کوئی ذکر تک نہیں، جس پر میاں شہباز شریف اور دوسرے رہنماء بغلیں بجا رہے تھے کہ ہم نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کر دی ہے۔ میں حیران ہوں کہ یورپ کے چند ممالک نے جب فلسطین کو تسلیم کیا تو اعلان کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر انسانیت کے نام پر دو ریاستی حل کروائیں گے، لیکن ٹرمپ کے امن فارمولے میں اس کا ذکر نہ ہونے پر کسی نے نہ صرف کوئی احتجاج نہیں کیا، بلکہ امریکہ کی تعریف کے پل باندھ رہے ہیں۔

میں کسی اور کی بات کیسے کروں؟ میں تو اپنے محبوب وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا ذکر کرتا ہوں کہ پاکستان کی دونوں طاقتور شخصیات نے ٹرمپ سے ملاقاتیں کیں، خوشگوار موڈ اور قہقہوں کو بار بار میڈیا پر دکھایا گیا، وزیراعظم نے اس امن فارمولے کے منظر عام پر آنے سے بھی پہلے ہی اس کی حمایت کر دی تھی اور ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیئے تھے، اسی طرح کی کیفیت سعودی عرب کی طرف سے دیکھنے کو ملی، حالانکہ اس میں دور یاستی حل کا اشارہ تک نہیں، حتیٰ کہ فلسطینیوں کے حق آزادی تک کی کوئی بات اس دستاویز میں شامل نہیں۔ میں اس بات پر بھی تعجب کی کیفیت سے گزر رہا ہوں کہ اس فارمولے میں دو ریاستی حل کی تو کوئی بات نہیں، صرف جنگ بندی اور صیہونی قیدیوں کی رہائی زندہ یا مردہ کو ترجیح نمبر ایک پر رکھا گیا ہے اور وہ دو ممالک جو اسرائیل کی سرپرستی کرنے کی وجہ سے فریق ہیں اور لڑائی کی وجہ بنے ہوئے ہیں، انہیں کی دو شخصیات کو امن قائم کرنے کیلئے کردار دیا جا رہا ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ زمانہ کا مکار اور جھوٹا شخص برطانیہ کا سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر غزہ ترقیاتی کمیٹی کا سربراہ ہوگا۔ ٹونی بلیئر وہ شخص ہے، جس نے جھوٹ بول کر عراق پر حملہ کروایا، جس میں ہزاروں بیگناہ انسان قتل، زخمی اور بےگھر ہوئے۔ اب وہ فلسطینیوں کی فلاح و بہبود کی کمیٹی کا رکن ہوگا۔ پنجابی کی کہاوت ہے:
 "گدڑ کھکھڑیاں دے رکھوالے" یعنی گیدڑ خربوزے کے کھیت کی رکھوالی کرنیوالے بن گئے۔ حیران کن بات ہے کہ اس جنگ میں معصوم انسانوں کی قتل و غارت گری میں شریک رہنے والی صیہونی حکومت کی ظلم و بربریت پر سزا دینے، فلسطینیوں کی تباہ حال آبادیوں اور معیشت کی بحالی کیلئے کوئی جرمانہ اسرائیل کو ادا کرنے کا نہیں کہا گیا، بلکہ سعودی عرب اور قطر جیسے موثر مسلم ممالک وسائل دیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت تک دو ریاستی فارمولا آگے نہیں بڑھے گا، جب تک کہ قابض صیہونی اسرائیلی فوج کو یہاں سے نکال نہیں دیا جاتا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ مغربی کنارے کا وہ حصہ جس میں بیت المقدس ہے، وہ فلسطین کا دارالحکومت بنایا جاتا، صیہونی حکومت سے آزاد کروا کر فلسطینیوں کے حوالے کیا جاتا، لیکن ایسی کوئی بات سامنے نہیں آرہی۔

فلسطینیوں کی حالیہ جدوجہد کو دو سال مکمل ہونیوالے ہیں۔ میں ان شہداء اور مجاہدین کو سلام پیش کرتا ہوں، جنہوں نے 7 اکتوبر 2023ء کو ”طوفان الاقصیٰ“ کے نام سے آپریشن اپنے اس استحقاق کے ساتھ شروع کیا کہ اقوام متحدہ کا چارٹر انہیں حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے قبضہ چھڑوانے کیلئے مسلح جدوجہد کریں۔ اس دو سالہ جدوجہد کے دوران حزب اللہ اور حماس کی قیادت سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار سمیت 66 ہزار بے گناہ فلسطینی شہید ہوئے۔ ایران پر اسرائیل اور امریکہ نے حملے کیے، ایران نے بھی ان کو بھرپور جواب دیا اور اس مفروضے کو پاش پاش کر دیا کہ اسرائیل اور امریکہ پر کوئی حملہ نہیں کرسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کی جدوجہد سرزمین بیت المقدس کی آزادی تک جاری رہے گی۔ میں یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ جب اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے تو حماس نے جنگ شروع کیوں کی۔ یاد رکھیں، جنگیں بہادری، قربانی اور اصولوں کے بغیر نہیں لڑی جا سکتیں۔ آزادی کی تحریکوں میں انسانی قربانیوں کی نہیں مقصد اور کاز کی اہمیت کو دیکھا جاتا ہے، جس کیلئے قربانیاں دی جا رہی ہوتی ہیں۔

میں یہاں یہ بھی لوگوں کو یاد دہانی کروانا چاہوں گا کہ کربلا کو سمجھے بغیر کسی تحریک آزادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 60 ہجری میں واضح تھا کہ یزیدی حکومت اور فوج کا مقابلہ امام حسین علیہ السلام کے 72 ساتھی نہیں کرسکتے، مگر امام عالی مقام کو اپنے نانا کے دین کے تحفظ کا مقصد عزیز تھا۔ تو انہوں نے قربانی دی۔ آج ایک مسلم ملک کی آزادی کیلئے مزید فلسطینیوں کی قربانیاں دینا پڑیں تو یہ مہنگا سودا نہیں۔ میں پاکستانی عوام اور ہر غیرت مند انسان سے گزارش کروں گا کہ پاکستان کی حکومت اور فوج سے مطالبہ کریں کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر کسی بھی فارمولے کو رد کریں اور مجوزہ دستاویز میں اپنی طرف سے ترمیم کرکے ہم نوا ساتھی مملکتوں کیساتھ سفارتی سطح پر ایسا متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں، جو فلسطینی عوام کو قابل قبول ہو اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت دے۔

متعلقہ مضامین

  •  حکمران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20نکاتی فارمولے کو مکمل طور پر مسترد کر دیں، جے یو آئی ملتان 
  • ٹرمپ کی حماس کو غزہ جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے کیلئے اتوار تک کی ڈیڈ لائن
  • ہیٹی: گینگ وار اور امدادی کٹوتیاں بھوک پھیلنے کا سبب، ڈبلیو ایف پی
  • ٹرمپ کا فلسطین فارمولا، مجرم ہی منصف!
  • بھارت اور چین 5 سال بعد براہِ راست پروازیں بحال کرنےکےلیےتیار،بکنگ کا آغاز ہوگیا
  • ملکی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کیلئے لبنانی فوج و سکیورٹی فورسز کو 230 ملین ڈالر کی امریکی امداد
  • سکیورٹی فورسز کا بلوچستان میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن،7بھارتی  سپانسرڈ دہشتگرد ہلاک
  • چین اور بھارت نے 5 سال بعد براہ راست تجارتی پروازیں بحال کرنے پر اتفاق کرلیا
  • مسلمان حکمرانوں کو امریکی چنگل سے نکل کر عملی اقدامات سے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو بزور قوت روکنا ہوگا، جے یو آئی 
  • دنیا بھوک کا شکار غزہ کے بچوں کو مایوس کر رہی ہے، امدادی ادارے