Jasarat News:
2025-07-04@04:02:13 GMT

سلگتا سندھ اور سندھ سرکار

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سندھ کے عوام اس وقت امن وامان، صحت، تعلیم اور صاف پانی کی بنیادی انسانی ضروریات سمیت بے شمارمسائل کا شکار ہیں۔ تیل، گیس، کوئلہ، کارونجھر پہاڑ ودیگر قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجو سندھ کے عوام غربت وافلاس اور محرومیوں کا شکار ہیں۔ ویسے تو سن ستر سے پیپلزپارٹی اقتدار میں ہے لکین گزشتہ سترہ سال سے تسلسل کے ساتھ سندھ میں حکمران ہے، حیرت کی بات ہے حکمرانوں کے اثاثوں ومحلات میں تو مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر عوام کی حالت روز بہ روز دگر گوں ہوتی جا رہی ہے، وفاقی حکومت بھی این ایف سی ایوارڈ، کراچی کے پینے کے پانی کے منصوبے K۔4 سے لے کر حیدرآباد۔ سکھر موٹروے کی تعمیر تک سندھ کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کرپا رہی ہے جس کی وجہ عوام کے اندر احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔ جس پر ان کو ضرور نظرثانی کرنی چاہیے۔ پاکستان صرف ایک صوبے کا نہیں بلکہ چاروں صوبوں کا نام ہے۔ ہم اس کالم میں سندھ کے سلگتے چند اہم مسائل کی نشاندہی کریں گے۔
امن وامان: سندھ میں قیام امن نمبر ون مسئلہ ہے۔ امن سے ہی سندھ کی تعلیم تعمیر و ترقی وابستہ ہے مگر بدقسمتی سے حکومت، سندھ میں امن کے قیام اور جرائم پیشہ افراد کے خاتمے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ کم وبیش گزشتہ 17 سال سے تسلسل سے پیپلزپارٹی برسر اقتدار ہے۔ پچھلے سال 200 ارب قیام امن کے لیے بجٹ رکھا گیا اور اب اس سال 234 ارب رکھا گیا ہے مگر پولیس رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر قومی دولت خرچ کرنے کے باوجود سندھ کے عوام امن کو ترس گئے ہیں۔ یہ حکومتی ناکامی ہے پورا سندھ ڈاکووں کے حوالے ہے عملاً سندھ میں ڈاکو راج قائم ہے، عوام دن میں اور نہ ہی رات میں محفوظ ہیں۔ گزشتہ روز 19 جون کو کندھکوٹ میں دن دھاڑے جماعت اسلامی سندھ کے نائب حافظ نصراللہ چنا سے ڈاکووں نے گن پوائنٹ پر گاڑی موبائل اور نقد رقم چھینی اور دھڑلے سے فرار ہوئے جب یہ ایک معزز و سیاسی رہنما کے ساتھ دن دیہاڑے ایسی واردات ہو سکتی ہے تو پھر عام آدمی کے ساتھ کیا حال ہوگا۔ سندھ حکومت سے مایوس اور مجبور ہوکر ضلع کشمور سندھ کے عوام دارالحکومت اسلام آباد میں امن کی بھیک مانگنے نیشنل پریس کلب پر دھرنا دیکر بیٹھے رہے، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ، جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے دھرنے کے شرکاء سے اظہار یکجہتی بھی کیا۔ اس سے پہلے بھی جماعت اسلامی کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمن نے کندھ کوٹ پہنچ کر بدامنی کے خلاف دھرنے میں شرکت کی اور خطاب کیا تھا۔ اس سے قبل جب سراج الحق جماعت اسلامی کے مرکزی امیر تھے تو انہوں نے بھی کندھ کوٹ اور شکارپور میں بدامنی کے خلاف ریلیوں اور دھرنوں کی قیادت اور خطاب کیا تھا، جماعت اسلامی سندھ نے امن کی بحالی کے لیے کئی بار احتجاجی مظاہرے ودھرنے اور سکھر میں ایک بڑی آل سندھ کل جماعتی کانفرنس بھی منعقد کرچکی ہے، جس کی پاداش میں جماعت اسلامی سندھ کی قیادت کو انتقامی کاروایوں اور مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
کارپوریٹ فارمنگ: حکومت نے سندھ
کے عوام کے احتجاج، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور مخالفت کے باوجود فوج کی حمایت یافتہ کمپنی کے ساتھ باضابطہ طور پر معاہدہ کے تحت اسے 6 اضلاع میں 52 ہزار ایکڑ سے زائد زمین کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دی ہے۔ معاہدے کے تحت سندھ میں مقامی انتظامیہ نے تقریباً 52 ہزار 713 ایکڑ بنجر زمین کی نشاندہی کی ہے، اس میں خیرپور میں 28 ہزار ایکڑ، تھرپارکر میں 10 ہزار ایکڑ، دادو میں 9 ہزار 305 ایکڑ، ٹھٹھہ میں ہزار ایکڑ، سجاول میں 3 ہزار 408 ایکڑ اور بدین میں ہزار ایکڑ زمین شامل ہے، یہ تمام زمین ’گرین پاکستان انیشی ایٹو‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آئندہ 20 برس کے لیے مذکورہ کمپنی کے حوالے کی، اس کا مقصد ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کا تصور لا کر زرعی طریقوں کو جدید شکل میں ڈھالنا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ وپیپلزپارٹی قیادت اس کو نگران حکومت کی کارستانی قرار دیتے ہیں اگر ایسی بات ہے تو سندھ حکومت اسی معاہدے کو ختم کرنا کا اختیار رکھتی تھی۔ سندھ حکومت نے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مفت زمین بھی دی، سندھ کے حصے کا پانی بھی دیا اور اب کارپوریٹ فارمنگ کے لیے سندھ کے بجٹ سے 4 ارب روپے بھی دیے ہیں، گویا کمپنی کو سندھ دشمن منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بجٹ سے زمین کاشت کرنے کے لیے کھاد، گاڑی، ٹریکٹر، تھریشر فراہم کی جا رہی ہے! سندھ کے وسائل کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر کمپنی سرکار کے حوالے کرنا ناقابلِ قبول ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سندھ کی قیمت پر اقتدار کا سودا کیا۔ سندھ حکومت نے بجٹ میں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے چار ارب روپے مختص کر کے سندھ کے عوام کے ساتھ سنگین دھوکا کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا ماضی بھی گواہ ہے، ہوس اقتدار میں دوہرے بلدیاتی نظام، چشمہ جہلم لنک کینال منصوبہ، اور صدارتی محل میں صدر پاکستان کی جانب سے چھے کینالوں کی منظوری جیسے فیصلے سندھ کے مفاد کے خلاف کیے تھے۔ اب کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کے عوام کے پیسے سے سندھ کی زمینیں کمپنی سرکار کے حوالے کی جائیں گی، اور صدیوں سے ان زمینوں پر آباد ہزاروں مقامی افراد کو بیدخل کر کے دربدر کر دیا جائے گا۔
پانی: بھارتی آبی جارحیت، موسمیاتی تبدیلی اور ٹیل کی وجہ سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے آبادگار و کاشت کار سخت پریشان ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی، حیدرآباد سکھر سمیت سندھ کے کئی شہروں اور اضلاع کے عوام پینے کے پانی کے لیے بھی سراپا احتجاج ہیں۔ دوسری جانب سندھ کے سخت احتجاج و مخالفت پر سی سی آئی اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے دریائے سندھ پر متنازع نہروں پر کام بند کرنے کے اعلان کے باوجود چولستان و چوبارہ کے لیے حکومت پنجاب کے بجٹ میں رقم مختص کرنا پاکستان دشمنی ہے۔ اس فیصلے نے پیپلزپارٹی کے جشن اور مراد علی شاہ کے دعووں کا پول کھول دیا ہے۔ سندھ کے عوام کبھی بھی اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ دریائے سندھ ہمارے لیے لائف لائن ہے۔ پنجاب حکومت کے فیصلے سے پاکستان کی قومی وحدت کو ضرب لگنے کا خدشہ ہے۔ اس وقت بھی کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کی زمینوں پر قبضوں اور متنازع نہروں کی تعمیرکے خلاف سندھ میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
صحت: صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولت اپنے عوام کو مفت میں فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے، دنیا بھر میں یہ سہولتیں حکومتیں دیتی ہیں مگر سندھ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے یہاں دونوں پرائیویٹ اور مہنگی ہیں۔ گزشتہ سال 292 ارب روپے بجٹ میں رکھنے کے باوجود سرکاری اسپتالوں میں ویکسین نہیں ملتی۔ ایک طرف بلاول زرداری اور پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ میں گمس و این آئی سی وی ڈی، سمیت عالمی معیار کی صحت کی سہولتوں کا دعوی ٰ کرتے نہیں تھکتے تو دوسری جانب ضلع خیرپور کے ایم پی اے نعیم کھرل کے بیرون ملک علاج کے لیے 7 کروڑ روپے منظور کیے جاتے ہیں۔ بجٹ سیشن کے دوران ایم پی اے جمیل سومرو لاڑکانہ میں جدید اسپتال کا مطالبہ کرتے ہیں اس بجٹ میں لاڑکانہ میں جدید سہولتوں سے آراستہ اسپتال کی تعمیر کے لیے 10 ارب رکھے گئے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ 17 سال سے اقتدار میں ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی اپنے شہر میں ایک جدید سہولتوں سے آراستہ اسپتال نہیں بنا سکی تو باقی شہروں کی کیا صورتحال ہوگی۔ البتہ کرپشن میں سندھ حکومت نے رکارڈ قائم کیے ہیں۔ حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی (این آئی سی وی ڈی) میں کرپشن پر وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھا ہے، جس کے مطابق اس ادارے میں بے ضابطگیاں پائی گئیں جن میں تعیناتیاں، من پسند افراد کو نوازنے، اضافی اخراجات، پروکیومنٹ پر پیرا لگائے گئے ہیں اور قومی خزانے کو 40 ارب کے نقصان کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ صحت کے شعبے میں صرف ایک ادارے میں کرپشن کا حال ہے۔

تعلیم: تعلیم کی مد میں گزشتہ سال 458 ارب روپے رکھے گئے تھے مگر ایمرجنسی کے باوجود اس وقت بھی 78 لاکھ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ 25 ہزار اساتذہ غیر حاضر ہیں۔ تعلیمی ادارے واش روم، پانی اور چار دیواری سمیت بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ اس مرتبہ 613 ارب تعلیم کا بجٹ رکھا گیا ہے، مگر سندھ کا تعلیمی انفرا اسٹرکچر تباہ ہے۔ 613 ارب روپے کا مطلب کل بجٹ کا 18 فی صد تعلیم کے لیے رکھا گیا ہے۔ سندھ میں کرپشن، جعلی بھرتیوں اور ملازمین کی تنخواہیں و پینشن کی خوربرد کے مقدمات اور نیب میں تحقیقات بھی اسی محکمہ کے خلاف چل رہی ہیں۔ چاروں صوبوں میں دو ہزار ارب سے زیادہ کا بجٹ ہے مگر تعلیمی صورتحال سے ہر باشعور فرد اچھی طرح واقف ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی کل تعداد 16,891,397 ہے! جن میں سے، اسکول سے باہر بچوں کی تعداد 7,818,248 (46.

2 فی صد) ہے یعنی تقریباً ہر دوسرا بچہ تعلیم سے محروم ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس دور میں یہ ہے سندھ کا تعلیمی نظام!
مورو واقعہ: جتوئی خاندان کے خلاف انتقامی کاروائی: مورو ضلع نوشہرو فیروز میں متنازع نہروں کے ایشو پر احتجاج کے دوران پولیس نے براہ راست گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں احتجاج پرتشدد ہوگیا اور وزیر داخلہ کے بنگلے کو بھی نقصان پہنچا۔ مظاہرین میں سے دو افراد شہید ہوگئے۔ حکومتی نااہلی اور انتظامیہ کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے صورتحال خراب ہوگئی۔ اس کی آڑ میں جتوئی خاندان پر انتقامی کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اندھی ہوگئی ہے۔ سابق وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کے بیٹے سابق وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی سمیت خاندان پر جھوٹے مقدمات اور سندھ کے پانی پر ڈاکا کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والوں پر براہِ راست گولیاں چلانا شہید ہونے والے افراد کی لاشوں پر قبضہ اور بجرانی لغاری گوٹھ پر دھاوا بول کر گھروں کو مسمار اور مقدمات قابل تشویش اور غیر جمہوری و غیر انسانی رویہ ہے۔ ریاست و حکومت کے خلاف سرگرمیوں کے اگر ان پر کوئی الزامات ہیں تو آئین و قانون کے مطابق عملدرآمد کیا جائے۔
بجٹ: مالی سال 25/26 کے لیے ساڑھے 34 ارب کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ وفاق کی طرح سندھ کا بجٹ بھی اعدادو شمار کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ 3000 ارب کا ٹیکس دینے والے شہر کو K- 4 منصوبہ کے لیے صرف 3 ارب رکھے گئے ہیں۔ مطلب وفاقی اور صوبائی حکومت، کے فور منصوبہ کو عملی طور ختم کرچکی ہے۔ تاکہ لائن میں پانی آنے کے بجائے عوام ٹینکر کے ذریعے پانی خریدیں۔ ماہرین کے مطابق اگر 40 ارب رکھے جاتے تو یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا تھا۔ سندھ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے بات سے لگائیں کہ وزیر اعلیٰ ہائوس کے چائے بسکٹ کے لیے 1 ارب 32 کروڑ رکھے گئے تھے اب مزید اضافہ کیا گیا ہے اسی طرح گورنر ہائوس کے چائے بسکٹ کے لیے 1 ارب 18 کروڑ رکھے گئے ہیں۔ سندھ میں کوئی ایسا ماڈل شہر نہیں بن سکا جس ڈرینج سسٹم، انفرا اسٹرکچر بہتر اور گلی محلے صاف ستھرے نظر آئیں۔ سندھ اسمبلی نے مالی سال 2025-26 کے لیے 156 ارب روپے مالیت کا ضمنی بجٹ منظور کر لیا۔ حکومت کی جانب سے 84 مطالبات زر پیش کیے گئے، جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی 735 کٹوتی کی تحاریک کو مسترد کر دیا گیا۔ ملک وقوم کی بہتری کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کا حکومتی رویہ عوام ملک اور سیاست کے لیے خطرناک ہے۔ عوام مہنگائی بدامنی بجلی گیس کے بحران کا شکار ہیں اور حکومتی ٹولے کی عیاشی وفضول خرچیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔ مطلب یہ کہ چہرے تبدیل ہوتی رہتے ہیں، حکمرانوں کے بینک بیلنس ومحلات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے مگر عوام کی قسمت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ حقیقی تبدیلی اور سندھ کی ترقی کے لیے عوام کو شعور کا مظاہرہ اور اسمبلی سمیت ہر شعبے میں اہل ودیانتدار قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سندھ کے عوام کے جماعت اسلامی پیپلز پارٹی رکھا گیا ہے سندھ حکومت کی جانب سے کے باوجود ہزار ایکڑ ارب روپے حکومت نے کے مطابق رکھے گئے کے حوالے حکومت کی سندھ کی کے خلاف کے ساتھ گئے ہیں ہے مگر کا بجٹ کی وجہ

پڑھیں:

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا ہے جس کے تحت پٹرول کی قیمت میں 8 روپے 36 پیسے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے 39 پیسے فی لیٹر اضافہ کیاگیا ہے، وزارت خزانہ کیا علامیہ کے مطابق پٹرول کی نئی قیمت 266 روپے 79 پیسے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 272 روپے 98 پیسے فی لیٹر مقرر کر دی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق فوری طور پر ہوگیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں یہ اضافہ بین الاقوامی منڈی کے اُتار چڑھاؤ کے باعث ہوا ہے، جس نے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کو متاثر کیا ہے، ہر بار جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے حکومت اس طرح کی دلیلیں پیش کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتی ہے، عوام حکومت سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب عالمی منڈی میں قیمتیں کم ہوتی ہیں تو اس کا فائدہ عوام کو کیوں نہیں پہنچایا جاتا؟۔ امریکا اور ایران کے درمیان ممکنہ جنگ سے پہلے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مسلسل کم ہو رہی تھیں، لیکن اس کے باوجود حکومت نے اس کمی کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچایا۔ اس کے برعکس، آئی ایم ایف کی ہدایت پر لیوی ٹیکس میں اضافہ کر دیا، حکومت نے یہ جواز پیش کیا کہ اضافی رقم بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کی جائے گی تاہم، جیسے ہی حالیہ دنوں میں عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، حکومت نے فوری طور پر عوام پر پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا بھاری بوجھ ڈال دیا، عوام جو پہلے ہی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا عذاب جھیل رہے ہیں حکومت کے اس فیصلے سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، مہنگائی بڑھے گی، دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑے گا، حکومت صرف قیمتیں بڑھانے کے بجائے عوام کے لیے سبسڈی اور ریلیف پیکیج کا بھی اعلان کرے تاکہ مہنگائی کی وجہ سے عوام پر پڑنے والے بوجھ کا کچھ ازالہ ہوسکے۔

 

متعلقہ مضامین

  • پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات
  • سندھ حکومت نے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے لوٹ مار کا نیا طریقہ نکال لیا، فاروق ستار
  • کے فور پر تاخیر، ٹرانسپورٹ ناپید، سندھ حکومت کراچی سے دشمنی کر رہی ہے، منعم ظفر
  • چنگ چی رکشوں پر پابندی کے خلاف درخواست پر سندھ حکومت و کمشنر کراچی کو نوٹسز
  • بلاول شہباز اتحادی حکومت نے عوام پر مہنگائی کا بم گرادیا، عوامی تحریک
  • ڈاکو راج کے سامنے بے بس حکومت!
  • پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ!
  • سندھ حکومت کا 4 ہزار 400 نئے اساتذہ بھرتی کرنے کا اعلان
  • شرجیل میمن کی سندھ کے عوام کیلئے خوشخبری