ڈاکو راج کے سامنے بے بس حکومت!
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امن، محبت، مہمان نوازی اور رواداری کی سرزمین کے طور پر مشہور باب الاسلام سندھ میں روزانہ کی بنیاد پر ڈکیتیاں، لوٹ مار، اغواء، قتل، اور معصوم بچوں و بچیوں کے اغواء کی خبریں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اگرچہ عوام کی جان و مال کی حفاظت اور امن و امان کی بحال حکومت وقت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے، لیکن سندھ میں جاری بدترین بدامنی اور ڈاکو راج سے صاف ظاہر ہے کہ گزشتہ 17 سال سے اقتدار میں موجود پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے یا پھر مجرموں کی سہولت کار بنی ہوئی ہے؟ سندھ حکومت نے گزشتہ مالی سال میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے 200 ارب روپے کا بجٹ رکھا تھا، لیکن اس کے باوجود سندھ کے عوام امن کو ترس رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی اتنے طویل عرصے سے اقتدار میں ہونے کے باوجود عوام کو سڑکیں، تعلیم، صحت، اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے، اور جان و مال کا تحفظ دینا تو دور کی بات، عوام کو جینے کے بنیادی حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ سندھ میں بدامنی، ڈاکو راج، اور لوگوں کے اغواء کے خلاف مختلف سیاسی، سماجی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے بار بار احتجاجی دھرنے اور مظاہرے کیے گئے، لیکن حکومت نے آنکھیں بند رکھی۔ اسی وجہ سے کشمور- کندھ کوٹ کے تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل شہری اتحاد اور سول سوسائٹی کے افراد مجبور ہوکر امن و امان کی بحالی کے لیے اسلام آباد میں ایک ہفتے تک دھرنا دینے پر مجبور ہوئے۔ احتجاج میں شریک رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ’’یہاں نہ ان کی جان محفوظ ہے، نہ مال، نہ کاروبار، وہ سکون کی سانس لینے کے لیے ترس گئے ہیں‘‘۔ بہت سے کاروباری افراد، خاص طور پر ہندو خاندان، اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیں اور کئی افراد کراچی جیسے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ تعلیم، کاروبار، اور زراعت مکمل تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ بدامنی کے خلاف احتجاج کے باوجود حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ عوام کی داد رسی تو دور کی بات، بلکہ احتجاج کرنے والوں پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت جھوٹے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، جو سراسر ظلم ہے۔
اسلام آباد دھرنے کے شرکاء سے اظہار یکجہتی کے لیے پہنچنے والے جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر اور سابق پارلیمانی لیڈر لیاقت بلوچ کی یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ ’’مٹھی بھر ڈاکو آخر حکومت سندھ اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ طاقتور کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘ اس درد ناک صورتِ حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کے کئی اضلاع خاص طور پر کشمور، کندھ کوٹ، لاڑکانہ، گھوٹکی، شکارپور، جیکب آباد، دادو سمیت کئی علاقوں میں حکومت کی عملداری تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ ڈاکو گوٹھوں اور جنگلات کے ’حکمران‘ بن چکے ہیں، جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں، مغویوں کی زنجیروں سے جکڑی ہوئی ویڈیوز اور دھمکی آمیز پیغامات سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں۔ پولیس کے پاس نہ جدید ہتھیار ہیں، نہ تربیت، نہ ہی حکومتی پشت پناہی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کی طاقت، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ ڈاکو طاقتور ہیں؟ پولیس کی بندوقوں پر زنگ لگ چکا ہے؟ کئی تھانوں کے پاس بلٹ پروف گاڑیاں تو دور کی بات، پٹرول تک موجود نہیں ہوتا۔ پولیس اہلکار ڈیوٹی سے واپسی پر مارے جا رہے ہیں، پھر عام شہری کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ ڈاکو راج اب سندھ میں ایک منظم نظام اور اغوا برائے تاوان ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو سرکاری تحفظ کے بجائے خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس ساری صورتِ حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست صرف کاغذوں میں قائم ہے، میدان میں تو ڈاکوؤں کی حکمرانی ہے۔ کراچی اور خیرپور کی جیلوں کا ٹوٹنا، لاڑکانہ میں دن دہاڑے مسلح افراد کے ہاتھوں ایس ایچ او کا قتل، سندھ حکومت کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جو ڈاکو کچے کے علاقوں پر قابض ہیں، ان کے بااثر سرپرست اور سہولت کار پکے علاقوں میں بیٹھے ہیں۔
19 جون کو جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر اور معروف عالم دین حافظ نصراللہ چنا کو کندھ کوٹ شہر سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر رمضان لاڑو پر تحصیل مقام تنگوانی تنظیمی اجتماع میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے ڈاکوؤں نے گن پوائنٹ پر یرغمال بنایا، اور اسلحے کے زور پر ان کی گاڑی، موبائل فون اور نقد رقم چھین کر فرار ہو گئے۔ جب ایک معزز عالم دین اور سیاسی رہنما بھی رہزنی کی وارداتوں سے محفوظ نہیں تو عام شہری کی کیا حالت ہو گی؟ سندھ سے امن کا پرندہ کیوں اْڑ گیا ہے؟ اور یہاں کے عوام کے لیے امن ایک خواب کیوں بن کر رہ گیا ہے؟ کیا یہ خواب کبھی حقیقت بنے گا یا سندھ کے عوام اسی طرح مصیبتیں جھیلتے رہیں گے؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک ظالم سرداروں، جاگیرداروں، ڈاکوؤں اور پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کے درمیان موجود گٹھ جوڑ ختم نہیں کیا جاتا، اور مجرموں کے خلاف سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر آپریشن نہیں کیا جاتا، تب تک سندھ میں امن و امان بحال نہیں ہو سکتا، اور سندھ کے لوگ سکون کا سانس نہیں لے سکتے۔ اس سال سندھ حکومت نے امن و امان کے لیے 234 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے، اور ایمرجنسی خصوصی آپریشن کے لیے علیحدہ ’منی بجٹ‘ بھی خرچ کیا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب سندھ کے عوام کو امن نصیب ہو گا یا یہ خواب ہی رہے گا؟ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈاکو راج سندھ کے کے عوام رہے ہیں کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
کراچی سمیت سندھ ‘ آٹے کی فی کلو قیمت میں3روپے کا اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251003-01-6
کراچی(اسٹاف رپورٹر)سندھ میں گندم کے وافر سرکاری و نجی ذخائر کے باوجود گندم اور آٹے کی تھوک و خوردہ قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کا رحجان پیدا ہوگیا ہے۔ریٹیل گروسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین فرید قریشی نے صحافیو ں کو بتایا کہ حکومت سندھ کی جانب سے 22 ستمبر کو فی کلو گرام آٹے کی تھوک قیمت 94روپے اور خوردہ قیمت 98روپے مقرر کی گئی تھی لیکن گزشتہ چند روز میں گندم کی فی کلو تھوک قیمت 86روپے سے بڑھ کر 93روپے کی سطح پر آنے سے ڈھائی نمبر اور فائن آٹے کی فی کلو ریٹیل قیمتوںمیں3روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ فلور ملوں سے اگر مقررہ 94روپے فی کلو کے حساب سے آٹا سپلائی ہو تو ریٹیلرز 98روپے فی کلو کے حساب سے آٹا فروخت کر سکتے ہیں۔ فی الوقت فلور ملیں زائد قیمتوں پر آٹا سپلائی کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے خوردہ سطح پر آٹے کی قیمتوں میں من مانے انداز میں اضافے کا رحجان غالب ہوگیا ہے۔فرید قریشی کا کہنا تھا کہ فلور ملوں کی ایکس ملز فی کلو گرام ڈھائی نمبر آٹا 104روپے اور فائن آٹا حکومت کے مقررہ 100روپے کی قیمت کے برخلاف 112روپے میں فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اپنی رٹ قائم کرے۔دوسری جانب، آل پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالجنید عزیز نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فی کلو گرام گندم کی اوپن مارکیٹ قیمت میں 7روپے کے اضافے سے 93روپے کی سطح پر آگئی ہیں لیکن اس کے باوجود مقامی فلور ملیں فی کلو گرام ڈھائی نمبر بلحاظ کوالٹی 100روپے سے 101روپے میں سپلائی کر رہے ہیں جبکہ فائن آٹا 107روپے تا 107روپے 50پیسے میں فراہم کر رہے ہیں۔عبدالمجید عزیز کا کہنا ہے کہ فی الوقت گندم کا کوئی بحران نہیں ہے لیکن اس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ طلب و رسد کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی غیر اعلانیہ صوبہ بندی برقرار ہے لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت کے پاس فی الوقت 1کروڑ 30لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں جبکہ نجی شعبے اور فلور ملوں کے پاس بھی گندم کے ذخائر موجود ہیں البتہ سندھ کی فلور ملوں کو دسمبر اور جنوری میں گندم کے وافر ذخائر کی ضرورت پڑے گی۔