Jasarat News:
2025-07-04@04:04:57 GMT

ورک فرام ہوم پر سوالیہ نشان

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پانچ سال قبل جب کورونا وائرس کی وبا نے سَر اُٹھایا تھا تب ایک نیا رجحان متعارف ہوا تھا۔ دنیا بھر میں گھر سے کام کرنے کا چلن عام ہوا۔ یہ چلن اِس لیے مقبول ہوا کہ لوگوں کے لیے ایک طرف تو لوگوں کو گھروں سے نکلنے کی اجازت نہ تھی اور دوسری طرف آجر بھی یہ سوچنے لگے کہ اگر لوگ گھر سے کام کریں تو دفتر کے بہت سے اخراجات بچ سکتے ہیں۔ اور یہ سوچ کچھ ایسی غلط یا بے بنیاد بھی نہ تھی۔ دنیا بھر میں چھوٹے بڑے کاروباری اداروں نے ورک فرام ہوم یعنی گھر سے کام کرنے کا رجحان اپنایا۔ چار پانچ سال گزرنے پر اب اِس طریقِ کار کا جائزہ لیا جارہا ہے، تحقیق کی جارہی ہے۔ ورک فرام ہوم کا ہنی مُون پیریڈ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بیش تر آجروں کی شکایت ہے کہ جو لوگ گھر سے کام کرتے ہیں اُن کی کارکردگی زیادہ اچھی نہیں رہتی اور مجموعی طور پر پورے ادارے کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ یہ شکایت بالکل بے جا بھی نہیں۔ واقعی ایسا ہوا ہے کہ ورک فرام ہوم کی صورت میں انفرادی کارکردگی متاثر ہوئی اور یوں ادارے کی مجموعی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
دنیا بھر میں اِس امر پر تحقیق ہو رہی ہے کہ ورک فرام ہوم کے رجحان کو پروان چڑھایا جائے یا رفتہ رفتہ ترک کردیا جائے۔ چند ایک معاملات میں ورک فرام ہوم بہت اچھا اور مفید معاملہ ہے۔ مصنفین، رپورٹرز اور تجزیہ نگاروں کے لیے ورک فرام ہوم بہتر آپشن ہے۔ بہت سے دفاتر کے متعدد کام گھر سے کیے جاسکتے ہیں مگر آجر ماننے کو تیار نہیں اور چاہتے ہیں کہ اجیر آنکھوں کے سامنے ہو۔ سبھی معاشروں میں یہ روایتی اندازِ کار پایا جاتا ہے کہ ملازم کو ہر وقت آنکھوں کے سامنے ہونا چاہیے تاکہ اُس کی کارکردگی کا بھرپور جائزہ لیا جاسکے۔ اب یہ کام کیمرے کی آنکھوں سے بھی لیا جارہا ہے اور ڈجیٹل نگرانی بھی کی جارہی ہے۔ اب کسی بھی دفتر میں کام کرنے والے کسی بھی فرد کے بارے میں آسانی سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ وہ کب کیا کر رہا تھا۔ اسکرین شاٹس کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی ملازم کس وقت کمپیوٹر پر کیا دیکھ رہا تھا۔
کیا ورک فرام ہوم کوئی غیر کارگر طریقہ ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا (سان ڈیاگو) کی الزابیتھ لیونز اور میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی نمرتا کلا کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ کام کرنے کا کوئی بھی ڈھنگ کتنا کارآمد ہے، بارآور ہے اِس کا اندازہ لگانے کے لیے بہت سے عوامل کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ کسی ایک پہلو کو بنیاد بناکر کام کرنے کا کوئی بھی ڈھنگ پورا کا پورا مسترد یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ الزابیتھ لیونز اور اور نمرتا کلا کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ورک فرام ہوم کی صورت میں اگر کسی فرد یا ٹیم کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو اِس کی ذمے داری منیجر پر بھی عائد ہوتی ہے۔ آج کے منیجر کو کارپوریٹ دنیا میں کام کرنے اور کام لینے کے تمام طریقوں کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے۔ امریکا میں بہت سے بڑے کاروباری ادارے اور سرکاری محکمے چاہتے ہیں کہ ملازمین ہفتے میں پانچ دن دفتر میں حاضری یقینی بنائیں۔ اِس بات کو پھر اہمیت دی جارہی ہے کہ جس سے کام لینا ہے وہ دفتر یا ورک پلیس میں حاضر رہے۔ یہ پُرانی اور فرسودہ سوچ ہے۔
یہ شکایت تو عام ہے کہ ورک فرام ہوم کی صورت میں انفرادی یا اجتماعی کارکردگی کا گراف نیچے آرہا ہے مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کی روش بھی عام ہے کہ ایسی صورت میں صرف ملازمین کو موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا کیونکہ بیش تر منیجرز نے بھی ایسی کسی بھی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے تربیت حاصل نہیں کی ہے۔
دنیا بھر میں بہت سے بڑے اور درمیانے حجم کے کاروباری اداروں کو یہ شکایت ہے کہ ورک فرام ہوم کی صورت میں مجموعی کارکردگی کا گراف بلند کرنے میں زیادہ مدد نہیں مل سکتی۔ امریکا کے نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ کا کہنا ہے کہ ورک فرام ہوم کی صورت میں ملازمین سے بہتر کارکردگی کا حصول اِس لیے بھی ممکن نہیں ہو پارہا کہ منیجرز کی اِس حوالے سے خاطر خواہ حد تک تربیت نہیں کی گئی ہے یا یہ کہ منیجرز ایسی تربیت کی اہمیت کو سمجھ نہیں پائے ہیں۔
یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں جی رہے ہیں۔ بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اور اُس کے ساتھ ہمیں بھی بدلنا ہے۔ جو لوگ تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہتے ہیں وہی کامیاب رہتے ہیں۔ آج کی کاروباری دنیا میں بیش تر منیجرز ورک فرام ہوم اور دیگر ٹرینڈز کے ساتھ نہیں چل رہے۔ آج کی دنیا میں آجر اجیر کا رشتہ غیر معمولی کِھنچاؤ کا شکار ہے۔ ایسا اِس لیے ہے کہ دونوں ہی پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ کام کرنے کے طریقے بھی بدل گئے ہیں اور مزاج بھی۔ حالات کی خرابی صرف آجر پر نہیں بلکہ اجیر پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ جو لوگ اِس حقیقت کے ادراک میں تاخیر کردیتے ہیں وہ خسارے سے دوچار رہتے ہیں۔
الزابیتھ لیونز اور نمرتا کلا کا استدلال ہے کہ آج کے منیجرز کو کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ نگرانی کا پُرانا اور فرسودہ نظام اب کارگر نہیں۔ آج کا اجیر چاہتا ہے کہ اُس کی زیادہ نگرانی نہ کی جائے اور کام کرنے کی مکمل آزادی دی جائے۔ ہاں، کارکردگی پر سمجھوتا نہ کیا جائے۔ حتمی تجزیے میں تو یہی دیکھا جاتا ہے کہ اجیر نے وہ کام کیا ہے یا نہیں جو اُسے دیا گیا تھا۔
(www.

thehill.com)

 

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے کہ ورک فرام ہوم کی صورت میں دنیا بھر میں کی کارکردگی کارکردگی کا کام کرنے کا گھر سے کام ہے کہ ا رہا ہے بہت سے

پڑھیں:

کراچی کی عدالت نے ٹرمپ کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر فیصلہ سنادیا

کراچی کی مقامی عدالت نے امریکی صدر ٹرمپ کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج غربی امیر الدین رانا نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف مقدمہ کے اندراج کی درخواست مسترد کردی۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج غربی امیر الدین رانا کی عدالت کے روبرو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف مقدمہ کے اندراج کی درخواست کی سماعت ہوئی۔

عدالت نے درخواست گزار جمشید علی خواجہ کے وکیل بیرسٹر جعفر عباس جعفری سے استفسار کیا کہ  پہلے ویانا کنونشن کے بارے میں بتائیں۔

درخواستگزار کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ  امریکہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا ممبر نہیں ہے، اسی لیے اس عدالت کے پاس آئے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی ٹرمپ کے اقدام سے متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہیڈ آف دی اسٹیٹ کیخلاف مقدمہ ہوسکتا ہے البتہ اُسے گرفتار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ استثنیٰ کی وجہ سے ہیڈ آف دی اسٹیٹ کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ نامزد ملزم کو گرفتار کیا جائے ہم یہ نہیں مانگ رہے ہیں صرف مقدمہ درج کیا جائے۔

درخواست گزار کے وکیل نے سرکاری وکیل کے  دلائل دینے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جب تک نوٹس جاری نہیں ہوتے سرکاری وکیل دلائل نہیں دے سکتے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سرکاری وکیل کو عدالت کی معاونت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کا اعتراض مسترد کردیا۔

عدالت نے سرکاری وکیل کو دلائل دینے کی ہدایت کردی جس پر انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کیخلاف جو مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کی گئی ہے قابل سماعت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ویانا کنونشن کے تحت صدر امریکی صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ پاکستان کا قانون بھی ہیڈ آف دی اسٹیٹ کو استثنیٰ دیتا ہے۔ ڈاکس تھانے سمیت ضلع عربی سمیت پاکستان میں کوئی جرم نہیں ہوا ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ امریکی صدر نے ایران میں جو کیا اس کی اجازت کوئی قانون نہیں دیتا ہے۔ مودی نے پاکستان میں حملہ کیا، مسجدوں پر حملہ کیا درخواست گزار نے کوئی درخواست دائر نہیں کی، ہر ملک کو حملے کا جواب دینے کا حق ہے اپنے ملک کے دفاع کا حق حاصل ہے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ درخواست گزار صرف ملک کی مشکلات میں صرف اضافہ کرانا چاہتے ہیں۔ بم گرا ایران میں اور مقدمہ درج کرانا چاہتے ہیں پاکستان میں؟ اسرائیل نے غزہ پر بم گرائے کسی کو تکلیف نہیں ہوئی۔ قانون کا ہر طالبعلم حیران ہے کہ امریکہ صدر کیخلاف ڈاکس تھانے میں مقدمہ درج کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ درخواست بدنیتی کی بناء پر سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے دائر کی گئی ہے۔ عدالت نے درخواستگزار سے استفسار کیا کہ نیتن یاہو کیخلاف کیوں کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ 11 وارنٹ جاری ہوچکے ہیں نیتن یاہو کے۔ سیکشن 125، 124، 126 اور 228 کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ درخواست قابل سماعت ہے ہم ثابت کرچکے ہیں جن سیکشن میں مقدمہ درج ہوگا وہ بھی بتایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری وکیل کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کا دفاع شرمناک ہے۔ دوران سماعت درخواستگزار کے وکیل اور سرکاری وکیل میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔

عدالت نے طرفین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا اور پھر وقفے کے بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج غربی امیر الدین رانا نے فیصلہ سنایا۔

عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔  ایران پر بمباری کا حکم ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ امریکی عدالت یو ایس فیڈرل لاء کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔ عالمی قوانین کے تحت پاکستان ویانا کنونشن 1961 کے تحت ہیڈ آف دی اسٹیٹ کو استثنیٰ دیتا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ پاکستان کا کریمنل جسٹس سسٹم اور کوڈ آف کریمنل پروسیجر کے تحت پاکستان کے اندر ہونے والے جرائم کی انکوائری، ٹرائل کرسکتی ہیں۔ 2013 میں پشاور ہائیکورٹ نے یو ایس ڈرون حملے کیخلاف کوئی کا حکم نہیں دیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کا وقت آگیا، اسرائیلی وزیر
  • چیٹ جی پی ٹی نے خاتون کو ’ساڑھے 65 لاکھ‘ کے قرض سے چھٹکارہ دلوا دیا
  • غزہ جنگ بندی معاہدے کیلئے ٹرمپ کی تجاویز کا جائزہ لے رہے ہیں: حماس
  • انضمام سے ہجرت تک: تارکین وطن آخر کیوں جرمنی چھوڑتے ہیں؟
  • کراچی کی عدالت نے ٹرمپ کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر فیصلہ سنادیا
  • ورک فرام ہوم بلاشبہ ہمیں مسرت سے ہم کنار کرتا ہے، محققین
  • ورک فرام ہوم کی مقبولیت میں کمی کا حقیقی ذمہ دار کون؟
  • عمران خان کی پی ٹی آئی کو 10 محرم کے بعد حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کی ہدایت
  • ٹیکس چور سالانہ اربوں روپے لوٹ کر مزے کرنے لگے، ایف بی آر خاموش تماشائی