لاہور:

پاک بحریہ کی عالمی امن مشقیں وقت کی ضرورت ہیں، دنیا کی 90 فیصد تجارت سمندر کے ذریعے ہوتی ہے جس کیلیے سیکیورٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

عالمی امن ، میری ٹائم سیکیورٹی، بحری تعاون، بلیو اکانومی جیسے اہم معاملات کے پیش نظر پاک بحریہ نے دنیا کو اکٹھا کرنے میں 2007 سے لیڈ لی ہے۔

رواں برس 7 سے 11 فروری تک عالمی امن مشقوں کیساتھ پہلی مرتبہ امن ڈائیلاگ کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے جس میں دنیا بھر کی بحری افواج کے سربراہان اور ماہرین شرکت کریں گے۔ بحر ہند اور بحیرہ عرب ، عالمی توانائی کوریڈور کا سنگم ہے۔

گوادر بھی دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ پاکستان نیوی اس حوالے سے حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کر رہی ہے۔ اگر ہم بلیو اکانومی پر توجہ دیں، ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلیے بین الاقوامی بحری تعاون کومزید فروغ دیں تومعاشی استحکام ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین نے ’’پاکستان نیوی کے زیر اہتمام امن مشقوں اور امن ڈائیلاگ کی اہمیت اور فوائد‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔

ریئر ایڈمرل (ر) نوید احمد رضوی نے کہا کہ پاکستان نیوی نے 2007 میں امن مشقوں کا آغاز کیاجس میں 28 ممالک نے حصہ لیا، گزشتہ مشقوں میں 50 جبکہ رواں برس 60 سے زائد ممالک اس میں شریک ہورہے ہیں۔ 

یہ پاکستان، خصوصاً امن مشقوں اور ہمارے سمندر میں دنیا کی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے،بحر ہند اور بحیرہ عرب ، عالمی توانائی کوریڈور کا سنگم ہے، اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پاکستان نیوی نے یہ فیصلہ کیا کہ یہاں عالمی طاقتوں کو اکٹھا کرکے چیلنجز اور مواقع دیکھے جائیں اور یہ طے کیا جائے کہ مسائل سے کیسے نمٹنا ہے۔

امن مشقوں کی تین جہتیں، مشقیں، ڈائیلاگ اور اعلیٰ سطحی مشاورت ہیں۔حالیہ امن مشقوں اور ڈائیلاگ میں دنیا کو گوادر کی اہمیت دکھانے اور بتانے میں بھی مدد ملے گی، گوادر کی صورت میں ہم ایک اور کراچی بسانے جا رہے ہیں جو ہمارے روایتی دشمن سے بھی دور ہے، وہاں لوگوں کو روزگار ملے گا، عالمی تجارت ہوگی ، ہمیں اپنا ہائوس ان آرڈر کرنا ہے، دشمن کی سازشوں کو ناکام جبکہ گوادر کو کامیاب بنانا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بلیو اکانومی سے پاکستان کی معیشت مستحکم ہوسکتی ہے، اس میں صرف ماہی گیری ہی شامل نہیں بلکہ معدنیات، تجارت، سیاحت و دیگربھی شامل ہیں۔ ڈائریکٹر میری ٹائم سینٹر فار ایکسیلنس، کمانڈر (ر) فیصل شبیر نے کہاکہ رواں برس امن مشقوں میں 60 سے زائد ممالک شرکت کریں گے۔

پاکستان کا خصوصی اکنامک زون دو لاکھ چالیس ہزار مربع کلومیٹر ہے جبکہ براعظمی علاقہ 50ہزار مربع کلومیٹر ہے، بحر ہند 38 ممالک کے ساتھ لگتا ہے،یہ سب کا حق ہے کہ وہ اس کے وسائل استعمال کریں لیکن اس میں کوئی تنازع نہ ہو ۔

انھوں نے کہا کہ امن مشقوں میں امریکا، یورپ، مشرق وسطیٰ و دیگر ممالک ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونگے، ہماری 90 فیصد تجارت بذریعہ سمندر ہوتی ہے، جتنے بھی جہاز پاکستان کی حدود یا بحیرہ عرب سے گزر رہے ہیں، ان کی حفاظت ہم نے یقینی بنانی ہے۔

انھوں نے کہا کہ 2023ء کی امن مشقوں میں ایران، سری لنکا و دیگر علاقائی ممالک نے بھی شرکت کی، اس میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکا اور چین بھی شریک ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ سی پیک اور گوادر کے حوالے سے پاکستان نیوی ہر طرح سے تیار ہے ۔

چین کے لیے بھی گوادر اہم ہے، یہ عالمی تجارت کیلیے ٹرانزیشنل روٹ بھی ہوگا۔ماہر امور خارجہ محمد مہدی نے کہاکہ پاکستان نیوی کی جانب سے امن مشقیںوقت کی ضرورت ہیں، یہ مشقیں 2007ء سے ہو رہی ہیں مگر اس بار ساٹھ ممالک حصہ لیں گے جن میں امریکا بھی شامل ہے۔

انھوں نے کہا کہ بلیو اکانومی میں اہم شعبہ ماہی گیری ہے۔ پاکستان کی مچھلی کی مصنوعات کی سالانہ ایکسپورٹس تین سو سے چار سو ملین ڈالر ہے حالانکہ اس میں برآمدی قوت تین سے چار ارب ڈالر ہے جسے محنت کرکے مزید بھی قابل قدر حد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان کھیل پاکستان نیوی عالمی امن

پڑھیں:

پاکستان اور امریکا میں تجارتی مفاہمت، پاکستانی برآمدات کے لیے اُمید مضبوط

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد / واشنگٹن: اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والی تجارتی بات چیت نے ایک فیصلہ کن موڑ لے لیا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک ایک اہم اقتصادی مفاہمت پر متفق ہو گئے ہیں۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کی برآمدات، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور زرعی شعبہ، بھاری امریکی ٹیرف کے خطرے سے دوچار تھیں۔ اگر مقررہ ڈیڈ لائن سے پہلے کوئی معاہدہ نہ ہوتا تو ان مصنوعات پر دوبارہ سے سخت تجارتی شرائط لاگو ہو سکتی تھیں، جس سے ملکی برآمدی صنعت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔

پاکستانی وفد، جس کی قیادت سیکرٹری تجارت جاوید پال نے کی، نے واشنگٹن میں چار روزہ مذاکرات کے بعد کامیابی سے یہ مرحلہ عبور کیا۔

اگرچہ ان مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے فریم ورک کا باضابطہ اعلان تاحال باقی ہے، تاہم یہ واضح ہے کہ فریقین اصولی طور پر متعدد اہم نکات پر متفق ہو چکے ہیں۔ اب یہ اعلان اُس وقت متوقع ہے جب امریکا اپنے دیگر عالمی تجارتی شراکت داروں کے ساتھ جاری مشاورت کو مکمل کر لے گا۔

ذرائع کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق مذاکرات صرف ٹیرف کے خاتمے تک محدود نہیں رہے بلکہ ان میں وسیع تر اقتصادی تعاون پر بھی بات چیت ہوئی۔ یہ معاہدہ اس لحاظ سے غیر معمولی ہے کہ اس کے ذریعے نہ صرف پاکستانی مصنوعات کو امریکی منڈی میں مسلسل رسائی حاصل رہے گی، بلکہ امریکی سرمایہ کاری کے کئی نئے دروازے بھی کھلنے والے ہیں۔ خاص طور پر توانائی، کان کنی اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں میں امریکا کی دلچسپی پاکستان کے لیے معاشی ترقی کے نئے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔

پاکستانی ٹیم کا اصل ہدف 29 فیصد ٹیرف کو مستقل طور پر ختم کروانا تھا، جو کہ عارضی طور پر رواں سال کے آغاز میں معطل کیا گیا تھا۔ اگر یہ رعایت ختم ہو جاتی تو پاکستانی برآمدات کے لیے امریکی منڈی محدود ہو جاتی، جس کا براہ راست اثر لاکھوں مزدوروں اور صنعتی اداروں پر پڑتا۔ خوش قسمتی سے یہ خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے اور آئندہ کے لیے اس کے مستقل خاتمے کی راہ بھی ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے۔

مزید برآں، اس بات چیت کے دوران امریکی ایکسپورٹ-امپورٹ بینک کے ذریعے دو طرفہ مالی تعاون کو وسعت دینے کی تجاویز بھی زیر غور آئیں، جس سے پاکستان کو امریکی فنانسنگ تک آسان رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ پہلو پاکستان کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں بھی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

اگرچہ امریکا کے وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے پہلے ہی اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ مثبت پیش رفت کی صورت میں 9 جولائی کی ڈیڈ لائن میں کچھ نرمی ممکن ہو سکتی ہے، لیکن پاکستانی حکام نے جلد بازی میں معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے پر زور دیا۔ ان کے بقول کسی بھی قسم کی غیر یقینی صورتحال، خاص طور پر سرمایہ کاروں اور برآمد کنندگان کے لیے، ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

معاشی تجزیہ کار اس معاہدے کو پاکستان کے لیے نہ صرف ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں بلکہ اسے ایک ایسا سنگ میل سمجھا جا رہا ہے جو آنے والے برسوں میں امریکا کے ساتھ تجارتی روابط کو نئی جہت دے گا۔

توقع کی جا رہی ہے کہ یہ پیش رفت دوطرفہ تعلقات میں پائیدار توازن کے قیام میں مددگار ثابت ہو گی اور پاکستانی برآمد کنندگان کو عالمی منڈی میں مستحکم مقام دلانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی CIO200 فورم: وژنری قیادت اور ڈیجیٹل مہارت کا شاندار مظاہرہ
  • عالمی مارکیٹ میں سونا سستا، پاکستان میں بھی قیمت کم ہو گئی
  • برازیل میں منعقدہ ‘برکس’ اجلاس میں ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں پر شدید تحفظات
  • برکس بزنس فورم کا آغاز، ڈیجیٹل معیشت سمیت مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال
  • مردوں کی زلف تراشی کی قیمتوں میں عالمی فرق، پاکستان سستے ترین ممالک میں شامل
  • عالمی برادری اسرائیل کیساتھ تجارت بند اور تعلقات منقطع کردیں؛ نمائندہ اقوام متحدہ
  • پاکستان اور امریکا میں تجارتی مفاہمت، پاکستانی برآمدات کے لیے اُمید مضبوط
  • ایف پی سی سی آئی صدر کو عہدے میں ایک سال کی توسیع ملنے پر مبارکباد
  • عالمی برادری اسرائیل کیساتھ تجارت بند اور مالی تعلقات منقطع کردیں؛ نمائندہ اقوام متحدہ
  • ڈیجیٹل معیشت کا فروغ ناگزیر، وزیراعظم شہباز شریف کا کیش لیس اکانومی اہداف دگنا کرنے کا حکم