WE News:
2025-06-13@09:12:33 GMT

شمالی یورپ: شراب نوشی میں کمی، وجہ کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

شمالی یورپ: شراب نوشی میں کمی، وجہ کیا ہے؟

شمالی یورپی ممالک میں شراب کے استعمال میں کمی اور لوگوں کی صحت میں بہتری آئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ شراب کے استعمال میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ اس کی فروخت کو ریاستی انتظام کے تحت لے آیا گیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے دیگر ممالک کو بھی یہی طریقہ اپنانا کے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے شراب نوشی کے طبی نقصانات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ’شراب نوشی سے کینسر میں مبتلا ہونے کاخطرہ بڑھ جاتا ہے‘

شمالی یورپ کے ممالک (فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، سویڈن اور جزائر فیرو) میں شراب کی فروخت کے بیشتر حقوق ریاستی اداروں (نارڈک الکوحل مونوپلیز) کے پاس ہیں جو نچلی سطح پر شراب کی فروخت کے حوالے سے پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں۔ ان اداروں نے شراب کی دستیابی کو محدود کرنے، روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی اشیا بیچنے والی دکانوں اور نجی خوردہ فروشوں کو شراب کی فروخت سے روکنے جیسے اقدامات اور دیگر پالیسیوں کے ذریعے شراب کے استعمال کو کم کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او/یورپ کی حالیہ رپورٹ بعنوان ’نارڈک الکوحل مونوپلیز: شراب سے متعلق جامع پالیسی اور صحت عامہ کی اہمیت پر ان کے کردار کا ادراک‘ میں بتایا ہے کہ شمالی یورپی ممالک میں شراب نوشی کی شرح میں کمی لانے کے طریقے مؤثر ثابت ہوئے ہیں جن سے دیگر یورپی ملک بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

’منافع نہیں، صحت‘

شمالی یورپ میں شراب نوشی کی شرح نقصان دہ حد تک زیادہ ہے اور اس سے وابستہ طبی مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔ ’ڈبلیو ایچ او‘ کے مطابق، فی الوقت یورپی یونین شراب نوشی میں کمی لانے کے حوالے سے درست سمت میں گامزن نہیں ہے۔ ان حالات میں صحت عامہ کے حوالے سے مؤثر پالیسیوں کی ضرورت رہتی ہے جبکہ ’نارڈک الکوحل مونوپلیز‘ ایسے ہی طریقہ ہائے کار کی ایک کامیاب مثال ہے۔

اس طریقہ کار میں شراب کی فروخت میں تمام تر توجہ محض منافع کے حصول پر مرکوز نہیں ہوتی بلکہ صحت عامہ کو بھی مدنظر رکھتا جاتا ہے۔ اس ضمن میں شراب کی دستیابی کے مقامات کو محدود رکھنے کے علاوہ اس کی فروخت کے اوقات (دورانیے) میں بھی کمی لائی گئی ہے، مخصوص حد سے کم عمر کے لوگوں کو شراب کی فروخت سختی سے ممنوع ہے اور اس کی رعایتی قیمت پر فروخت اور تشہیر کو روکنے کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔

طبی خطرات کا تدارک

ڈبلیو ایچ او/یورپ میں شراب، منشیات اور جیلوں میں صحت کے معاملات سے متعلق علاقائی مشیر کیرینا فیریرا بورغیس کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں شراب کی فروخت کا انتظام ریاستی اداروں کے پاس ہے وہاں اس کا فی کس استعمال دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے جبکہ ان ممالک میں جگر کی بیماریوں، سرطان اور امراض قبل کی شرح کے علاوہ زخمی ہونے اور پانی میں ڈوب کر ہلاکتوں کے واقعات بھی دیگر سے کم ہوتے ہیں۔

نئی پالیسیاں اور خطرات

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عوامی سطح پر ایسے اداروں کو حاصل حمایت اور ان سے ہونے والے طبی فوائد کے باوجود شمالی یورپ کے متعدد ممالک میں نچلی سطح پر شراب کی فروخت کو مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کیا جا رہا ہے جس سے متذکرہ بالا فوائد زائل ہونے کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھیے: دنیا بھر میں ہر سال کتنے افراد شراب نوشی سے ہلاک ہوجاتے ہیں؟

مثال کے طور پر، حالیہ دنوں فن لینڈ میں ایسی پالیسی اختیار کی گئی ہے جس کے تحت بڑی مقدار میں شراب کو ریاستی انتظام کے تحت چلائی جانے والی مخصوص دکانوں سے ہٹ کر بھی فروخت کیا جا سکے گا جبکہ اس کی ہوم ڈلیوری کے حوالے سے مشاورت بھی جاری ہے۔ اسی طرح، سویڈن میں مونوپلیز کی دکانوں کو دیے گئے شراب کی آن لائن فروخت کے خصوصی حقوق کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔

کیرینا فیریریرا بورغیس کا کہنا ہے کہ شراب کے استعمال کا اس بات سے گہرا تعلق ہوتا ہے کہ یہ کیسے، کب اور کہاں فروخت ہو گی۔ اگر اس فروخت کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا تو پھر اس کا استعمال بھی بڑھ جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈبلیو ایچ او شمالی یورپ شمالی یورپ میں شراب نوشی میں کمی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈبلیو ایچ او شمالی یورپ شمالی یورپ میں شراب نوشی میں کمی شراب کے استعمال شراب کی فروخت ڈبلیو ایچ او کے حوالے سے میں شراب کی شمالی یورپ ممالک میں فروخت کے

پڑھیں:

پاکستان کی بنجر زمینیں زیتون کی کاشت کے لیے مثالی ہیں. ویلتھ پاک

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 جون ۔2025 )پاکستان کے پاس زیتون کی کاشت کے لیے کافی موزوں بنجر زمینیں ہیں، جو ملکی طلب کو پورا کرنے اور غیر پیداواری ناہموار علاقوں کو استعمال کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہیں محقق عمیر پراچہ نے ویلتھ پاک کو بتایاکہ بلوچستان اور دیگر علاقوں کے دور دراز علاقوں میں لاکھوں جنگلی زیتون کے پودے اگتے ہیں لیکن تیل کی پیداوار یا دیگر استعمال کے لیے ان کا تجارتی طور پر فائدہ نہیں اٹھایا گیا.

(جاری ہے)

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زیتون کی کاشت اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی فوائد پیش کرتی ہے خاص طور پر اس لیے کہ درخت بنجر زمینوں اور ناہموار علاقوں میں پروان چڑھ سکتے ہیں جہاں دیگر اہم فصلیں ناکام ہوتی ہیں انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس کی سخت ٹپوگرافی کی وجہ سے 15 ملین ہیکٹر سے زیادہ زیر استعمال زمین ہے جو کہ زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ہے زیتون گرم آب و ہوا میں بہترین اگتے ہیں.

انہوں نے وضاحت کی کہ یہ خشک سالی برداشت کرنے والے اور ٹھنڈ کے لیے حساس ہیں گرم، خشک گرمیاں اور ہلکی سردیوں والے علاقے ان کی نشوونما کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہیں زیتون کے درخت پانچویں سال کے لگ بھگ پھل دینا شروع کر دیتے ہیں، جس کی پختگی نویں سال تک پہنچ جاتی ہے ایک بار پختہ ہونے کے بعد، زیتون کے درختوں کا شمار دنیا میں خشک سالی کے خلاف مزاحمت کرنے والے درختوں میں ہوتا ہے تاہم یہ سچے صحرائی پودے نہیں ہیں کیونکہ انہیں اب بھی بڑھنے اور صحت مند رہنے کے لیے مسلسل پانی کی ضرورت ہوتی ہے پاکستان نے 1986 میں اطالوی حکومت کے تعاون سے زیتون کی تجرباتی کاشت شروع کی فالو اپ اسٹڈیز نے زیتون کی نشوونما کے لیے متعدد علاقوں کی نشاندہی کی.

انہوں نے کہا کہ قرض کی تبدیلی کے معاہدے کے تحت اٹلی نے پاکستان کو معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے زیتون کی کاشت کے فروغ کے منصوبے سے نوازا نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کے ذریعے انجام پانے والے اس اقدام نے بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب اور قبائلی اضلاع میں تحقیقی سہولیات قائم کی ہیں اس منصوبے کے مقاصد زیتون کی کاشت کاری کے ذریعے مقامی خوردنی تیل کی پیداوار کو بڑھانا، پسماندہ زمینوں کا استعمال، معاش کو بہتر بنانا اور صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا ہیں .

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں 25,600 ایکڑ پر تقریبا 2.9 ملین زیتون کے درخت لگائے گئے ہیں نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کی زیرقیادت پہل نے باغات کے انتظام میں تربیت کے ذریعے کسانوں کی صلاحیت کو بڑھانے، تیل نکالنے کی مشینری کی درآمد، اور تیل کی پروسیسنگ اور پانی کے نظام جیسے ڈرپ اریگیشن کے لیے سبسڈی فراہم کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی ہے ان کوششوں نے کسانوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو جنم دیا ہے بہت سے لوگوں نے کامیابی کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں زیتون کو تجارتی طور پر اگایا جا سکتا ہے.

انہوں نے کہا کہ معاون انفراسٹرکچر کے ساتھ زیتون کی پروسیسنگ کی سہولیات کے قیام اور منصوبے کی طویل مدتی پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے کے منصوبے بھی جاری ہیں منصوبے کے پہلے مرحلے میں حکومت نے مفت زیتون کے پودے، سبسڈی والے آبپاشی کے نظام، اور تکنیکی مدد کی پیشکش کی تینوں صوبوں میں 35000 ایکڑ پر تقریبا 25 لاکھ درخت لگائے گئے ہیں.

انہوں نے کہا کہ زیتون کی مقامی اقسام اور نرسریوں کو تیار کرنے میں بھی پیشرفت ہوئی ہے، جس میں متعدد اقسام کے ٹرائلز کے امید افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں دنیا بھر میں زیتون کی سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی اقسام میں امفیسا، الفانسو، بیلڈی، کاسٹیل ویٹرانو، سیریگنولا، گیٹا، گورڈل، کالاماتا، لیگوریا، منزانیلا، مشن، نیکوائس، نیون اور پچولین شامل ہیں پاکستان میں کاشت کیے جانے والے زیتون فی پودا 15 کلوگرام تک پیدا کرتے ہیں جس میں تیل کی مقدار 12 سے 20فیصد کے درمیان ہوتی ہے جو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے بلوچستان کے زیتون میں تیل کی سب سے زیادہ پیداوار 18-20 فیصد ہے جب کہ پنجاب میں اوسطا 12 فیصد ہے.

انہوں نے کہا کہ پروجیکٹ کی کامیابی کے باوجود صارفین کی حقیقی مانگ کو سمجھنے کے لیے محدود مارکیٹ پر مبنی تحقیق کی گئی ہے کسانوں اور حکام کے ساتھ انٹرویوز بتاتے ہیں کہ زیتون کے تیل کی مقامی پیداوار سے پاکستان کے خوردنی تیل کے درآمدی بل میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے تاہم زیتون کے تیل کی فی الحال کم گھریلو مانگ اور پاکستانی گھرانوں میں اس کے محدود استعمال کے پیش نظر یہ دعوے حد سے زیادہ پر امید ہیں.

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زیتون کے تیل کی کھپت زیادہ تر ریستورانوں اور اعلی اور درمیانی آمدنی والے صارفین کے ایک چھوٹے سے حصے تک محدود ہے یہ روایتی کھانا پکانے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال نہیں کیا جاتا ہے جو کھجور، سورج مکھی اور کینولا کے تیل پر انحصار کرتا ہے جو گہرے فرائی کے لیے درکار اعلی درجہ حرارت کو برداشت کر سکتا ہے زیتون کے تیل کا کم دھواں نقطہ اور تیز گرمی میں ذائقہ میں تبدیلی مقامی کھانوں میں اس کے استعمال کو محدود کرتی ہے سلاد کی تیاریوں میں بھی جہاں زیتون کا تیل عام طور پر استعمال ہوتا ہے، استعمال کم رہتا ہے.

انہوں نے کہا کہ اس طرح جہاں زیتون کے تیل کی ملکی پیداوار درآمدی متبادل میں حصہ ڈالتی ہے پاکستان کی مجموعی خوردنی تیل کی درآمدات کو کم کرنے پر اس کے اثرات معمولی رہنے کا امکان ہے انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس وقت زیتون کے تیل کی عمومی مانگ کم ہے، لیکن صحت سے متعلق شعور، غذائی تبدیلیوں اور پیزا، پاستا اور سینڈوچ جیسے بین الاقوامی کھانوں کی مقبولیت کی وجہ سے اس کی کھپت بتدریج بڑھ رہی ہے.

پراچہ نے کہا کہ تجارتی اداروں کے لیے مارکیٹ کے ایک ایسے حصے پر قبضہ کرنے کا ایک بہترین موقع ہے جو فی الحال درآمد شدہ زیتون کے تیل پر منحصر ہے انہوں نے کہا کہ پاکستانی زیتون کے تیل کے لیے بین الاقوامی منڈیوں کی تلاش کے امکانات بھی موجود ہیں تاہم اس کی عالمی مسابقت اور برآمدی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لیے تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہے. 

متعلقہ مضامین

  • یورپ جی ایس پی پلس جاری رکھے، بھارتی جارحیت روکے: بلاول بھٹو
  • شمالی کوریا نے ٹرمپ کا خط وصول کرنے سے انکار کر دیا
  • صبر کی فضیلت اور طاقت
  • مسلم دنیا کے حکمران اور مغرب کا خوف
  • شمالی اور جنوب ی کوریا کے درمیان جاری ’آڈیو جنگ‘ کا خاتمہ، دونوں ممالک میں مذاکرات کا امکان
  • پاکستان کی بنجر زمینیں زیتون کی کاشت کے لیے مثالی ہیں. ویلتھ پاک
  • کہیں آپ بھی گوشت کے شوقین تو نہیں؟
  • موسمیاتی بحران: یورپ دنیا کا تیزی سے گرم ہوتا خطہ، ڈبلیو ایچ او
  • انڈر 15 بچے: سوشل میڈیا کا استعمال ممنوع، ماکروں کی تجویز
  • اوکاڑہ، شراب نوشی سے منع کرنا امام مسجد کا جرم بن گیا، بااثر افراد کا مبینہ تشدد