Islam Times:
2025-04-25@11:39:07 GMT

ٹرمپ کا خواب یا انسانی حقوق کا ڈراونا خواب

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

ٹرمپ کا خواب یا انسانی حقوق کا ڈراونا خواب

اسلام ٹائمز: بین الاقوامی قوانین کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کو جبری طور پر کسی اور علاقے کی جانب نقل مکانی پر مجبور کرنا انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے اور حتی یہ اقدام ایک جنگی جرم یا انسانیت کے خلاف جرم بھی قرار پا سکتا ہے۔ غزہ کی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرزمین میں زندگی بسر کریں اور ان کی کسی قسم کی جبری جلاوطنی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ مزید برآں، غزہ کے باسی ایک ایسے تاریخی تشخص اور گہری تہذیب کے حامل ہیں جو ان کی سرزمین سے جڑی ہوئی ہے۔ لہذا انہیں کسی اور جگہ منتقل کرنے کا مطلب اس تشخص کو نظرانداز کرنا اور نفسیاتی اور سماجی بحران پیدا کرنا ہے۔ حتی عبری ذرائع ابلاغ نے بھی خبردار کیا ہے کہ اہل غزہ کی جبری جلاوطنی جنگی جرم قرار پا سکتا ہے۔ تحریر: کتایون مافی
 
رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامک جہاد فلسطین کے سیکرٹری جنرل اور ان کے ہمراہ وفد سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ سے متعلق منصوبہ احمقانہ ہے اور وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو گا۔ رہبر معظم نے اس منصوبے کی حقیقت واضح کر دی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر نہ صرف اپنے منصوبے کے سامنے عملی اور انسانی حقوق کے چیلنجز سے روبرو ہے بلکہ ایسے منصوبے کے بانی کی عقل میں بھی شک کرنا چاہیے۔ امریکی صدر نے اس بحران سے بے توجہی کرتے ہوئے جو کئی سالوں سے جاری محاصرے اور فلسطینی عوام کے خلاف جنگ اور بے انصافی کے باعث معرض وجود میں آیا ہے ایک انتہائی عارضی اور سطحی راہ حل پیش کیا ہے۔ امریکی صدر نے حتی ایک قوم کا ماضی بھی نظرانداز کر ڈالا ہے جس کے باعث مغربی تجزیہ کار بھی اسے ایک قسم کی حماقت اور توجہ حاصل کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
 
اسی طرح خود امریکہ کے اندر بھی رائے عامہ اس منصوبے کی مخالف ہے اور بڑی تعداد میں امریکی سیاست دانوں اور عوام نے ٹرمپ کے یکطرفہ اور غیر انسانی اقدامات کی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ کے معروف کالم نویس تھامس فرائیڈمین نے اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے تازہ ترین کالم میں غزہ کی مالکیت سے متعلق امریکی صدر کے منصوبے کی شدید مذمت کرتے ہوئے لکھا: "ٹرمپ کی جانب سے غزہ پر کنٹرول کرنے، وہاں سے بیس لاکھ فلسطینیوں کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے اور ایک تفریح گاہ بنانے سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلاقیت اور پاگل پن کے درمیان بہت کم فاصلہ ہے۔" وہ مزید لکھتا ہے کہ ٹرمپ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے شدت پسند دائیں بازو کے رہنماوں اور عیسائی اینجلسٹ کی نظر سے مشرق وسطی کو دیکھتی ہے۔
 
بین الاقوامی قوانین کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کو جبری طور پر کسی اور علاقے کی جانب نقل مکانی پر مجبور کرنا انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے اور حتی یہ اقدام ایک جنگی جرم یا انسانیت کے خلاف جرم بھی قرار پا سکتا ہے۔ غزہ کی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سرزمین میں زندگی بسر کریں اور ان کی کسی قسم کی جبری جلاوطنی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ مزید برآں، غزہ کے باسی ایک ایسے تاریخی تشخص اور گہری تہذیب کے حامل ہیں جو ان کی سرزمین سے جڑی ہوئی ہے۔ لہذا انہیں کسی اور جگہ منتقل کرنے کا مطلب اس تشخص کو نظرانداز کرنا اور نفسیاتی اور سماجی بحران پیدا کرنا ہے۔ حتی عبری ذرائع ابلاغ نے بھی خبردار کیا ہے کہ اہل غزہ کی جبری جلاوطنی جنگی جرم قرار پا سکتا ہے۔
 
کچھ اسرائیلی تجزیہ کاروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک سیاسی بلبلے میں رہ رہے ہیں۔ امریکہ کی مسلمان رکن کانگریس الہان عمر نے بھی اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پر قبضہ کرنے پر مبنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ مضحکہ خیز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے کا واحد مقصد قومی صفایا اور نسل کشی ہے اور فلسطینی عوام غزہ میں ہی باقی رہیں گے۔ دوسری طرف ہمیں اس بات سے غافل نہیں ہونا چاہیے کہ غزہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا گنجان آباد ترین علاقہ ہے اور بیس لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو دوسری سرزمین منتقل کرنے کے لیے وسیع مالی اور لاجسٹک وسائیل درکار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ وقت کی بھی ضرورت ہے جو عملی طور پر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں موجود سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے پیش نظر کوئی ملک بھی اتنی بڑی آبادی قبول کرنے پر تیار نہیں ہو گا۔
 
ٹرمپ کا یہ خیالی ترین منصوبہ مشرق وسطی میں تناو کی شدت میں مزید اضافے کا باعث بنے گا اور عرب ممالک، بین الاقوامی تنظیموں اور فلسطین کے مزاحمتی گروہوں کی جانب سے شدید ردعمل بھی سامنے آئے گا۔ حتی ایسا اقدام ممکن ہے مزید جنگوں اور خطے میں مزید عدم استحکام کا بھی باعث بن جائے۔ امریکی صحافی فرائیڈمین اس بارے میں لکھتا ہے: "ٹرمپ کا منصوبہ کسی امریکی صدر کی جانب سے مشرق وسطی میں امن کے لیے پیش کیے جانے والا خطرناک ترین منصوبہ ہے۔" وہ مزید لکھتا ہے: "ایسا راہ حل پیش کرنے کی جرات فلسطینیوں اور حتی اسرائیلیوں کی توہین ہے جس میں انتقال، قومی صفایا اور دیگر جنگی جرائم کو دہرایا گیا ہے۔" یہ امریکی صحافی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ پوری اسلامی دنیا میں امریکی سفارت خانوں اور مفادات کو خطرے میں ڈال دے گا۔
 
عبری ذرائع ابلاغ اس منصوبے کے بارے میں لکھتے ہیں: "یہ منصوبہ عملی پہلو سے کوئی اساس اور بنیاد نہیں رکھتا اور صرف ایک ایسا خواب ہے جو خطے کی سیاسی اور فوجی حقیقت سے بہت دور ہے۔" فرائیڈمین نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں ٹرمپ کے منصوبے کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا: "اس طرح کا منصوبہ شاید فلموں میں ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ نہ تو امریکہ کرے گا اور نہ ہی کوئی اور طاقت کرے گی بلکہ یہ فیصلہ صرف فلسطینی قوم ہی کرے گی۔ ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مشرق وسطی خطے کے حالیہ بحران کا واحد راہ حل غزہ میں مکمل اور پائیدار امن کی بحالی، صیہونی فوج کی فلسطینی سرزمینوں سے انخلاء اور فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی پر مشتمل ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی جبری جلاوطنی قرار پا سکتا ہے فلسطینیوں کو بین الاقوامی امریکی صدر کا منصوبہ جنگی جرم ٹرمپ کا کسی اور کی جانب ہے اور اور ان اس بات غزہ کی کیا ہے کہ غزہ

پڑھیں:

امریکہ نئے دلدل میں

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنیوالے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونیوالی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ تحریر: سید رضا میر طاہر

یمن کے خلاف امریکی فوجی آپریشن کے آغاز کے چند ہفتوں کے بعد امریکی میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کی اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے آپریشن کے سنگین مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ 22 اپریل کو امریکی میگزین فارن پالیسی نے "حوثیوں کے خلاف ٹرمپ کی جنگ بے نتیجہ" کے عنوان سے ایک مضمون میں یمن میں انصار اللہ فورسز کے ٹھکانوں پر امریکی بحریہ کے غیر موثر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے حوثیوں پر حملوں میں اضافے کے پانچ ہفتے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کئی بڑی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یمن کے خلاف بیان بازی کے حقیقی نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکی حملے اب تک اپنے دو بیان کردہ اہداف میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، یعنی بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی آزادی کو بحال کرنا اور ڈیٹرنس کو دوبارہ قائم کرنا۔

امریکی حملوں کے باوجود بحیرہ احمر اور سویز کینال کے راستے جہاز رانی کم ہے، جس پر اب تک امریکہ کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ یمنی ملیشیا نے بھی خطے میں اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور ٹرمپ کے یمن کے "دلدل" میں داخل ہونے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل اور نیشنل ڈیفنس کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے 20 اپریل کو کہا ہے کہ یمن پر امریکی حملہ پہلے دن سے ہی ناکام ہوگیا ہے۔ امریکہ کو اس کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے اقدامات کی سزا دی جائے گی۔ ٹرمپ ہمیں اس دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں امریکہ کو اس دلدل میں رہنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیئے۔ امریکی عوام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ٹرمپ نے امریکہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔

اس آپریشن پر اب تک امریکہ کو 1 بلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی ہے جبکہ دوسری طرف مزاحمت جاری ہے اور یمنیوں نے اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع ان حملوں کے بارے میں شفاف نہیں رہا ہے اور اس نے میڈیا کو بہت کم معلومات فراہم کی ہیں۔ یمن پر امریکی حملوں سے متعلق خفیہ معلومات کے افشا ہونے سے ملک کی عسکری قوتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ کے ممتاز امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی یمن کی فوج اور ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے بارے میں امریکی محکمہ دفاع کے دعووں پر سوال اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے CNN نے پینٹاگون کے ایک اہلکار کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تحریک انصار اللہ کے پاس باقی ماندہ ہتھیاروں کی صحیح مقدار کا تعین کرنا مشکل ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ انصار اللہ کے کچھ ٹھکانے تباہ ہوگئے ہیں، لیکن اس سے بحیرہ احمر میں حملے جاری رکھنے کی ان کی صلاحیت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ سی این این نے مذکورہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ انصار اللہ اب بھی زیر زمین قلعہ بندی اور ہتھیاروں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونے والی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نئے دلدل میں
  • متنازعہ کینالز منصوبہ، کام بند ہونے پر پیپلزپارٹی کا 3 دن جشن منانے کا اعلان
  • نہری منصوبہ بند ہونے پر پی پی سندھ کا جشن منانے کا اعلان
  • بُک شیلف
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • سندھ کے عوام کے اعتماد کے بغیر نہری منصوبہ قبول نہیں، حافظ حمد اللّٰہ
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • امریکا میں ہاؤسنگ اسکیم مع مسجد کا منصوبہ، حکومت نے نفاذ شریعت کے خوف سے مسترد کردیا
  • امریکی محکمہ خارجہ کا اپنے 100 سے زائد دفاتر کو بند کرنے کا اعلان
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا یوٹرن: چین کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اعلان