Islam Times:
2025-10-26@00:48:55 GMT

دیر قانون گاوں کا روشن ستارہ

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

دیر قانون گاوں کا روشن ستارہ

اسلام ٹائمز: یہ سرزمین سید ہاشم صفی الدین کی یادیں لیے ہوئے ہے۔ جنوبی لبنان کا ایک گاوں جو آج ایسے مرد سے الوداع کے مناظر پیش کر رہا ہے جو نہ صرف حزب اللہ لبنان بلکہ پورے اسلامی مزاحمتی بلاک میں ایک تھم کی حیثیت رکھتا تھا۔ سید ہاشم کا زرد رنگ کا تابوت عوام کے سمندر میں بہتا جا رہا ہے۔ چہرے غمگین ہیں لیکن ان کا دکھ سرتسلیم خم کرنے والا نہیں ہے۔ یہاں آنسووں کا مطلب اختتام نہیں بلکہ ایک قسم کی بیعت ہے۔ ایسا عہد جو شہداء کے خون سے باندھا گیا ہے۔ دیر قانون النہر ایسے مرد کی جائے پیدائش ہے جو کئی سالوں سے حزب اللہ کی پہلی صف میں کھڑا رہا۔ وہی عوام جو جنگوں اور محاصروں میں اسلامی مزاحمت کے ساتھ تھے اب اس کے ایک کمانڈر کے سوگ میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان لمحات میں دیر قانون کے کوچوں میں لبیک یا حسین کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔ تحریر: عبدالرضا ہادی زادہ
 
کل صبح ہم جنوبی لبنان کی جانب روانہ ہوئے، ایسی سرزمین جس کا چپہ چپہ مزاحمت کی خوشبو دیتا ہے، وہ جگہ جہاں کچھ عرصہ پہلے اسرائیل کی آمدورفت جاری تھی لیکن آج اسے وہاں سے قریب آنے کی جرات بھی نہیں ہے۔ جنوب کی بل کھاتی سڑکیں ایسی کہانی لیے ہوئے ہیں جن کا ذکر کتابوں میں کم ہوا ہے۔ ایسی سرزمین کی کہانی جو 1980ء کے عشرے میں اسرائیلی مرکاوا ٹینکوں کی آماج گاہ بنی ہوئی تھی لیکن آج اسلامی مزاحمت کی طاقت کی برکت سے سرحدی علاقے دشمنوں کے خوف اور اور ناامنی کی علامت بن چکے ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ شہداء، سید حسن نصراللہ، سید ہاشم صفی الدین اور سید عباس موسوی سے لے کر عماد مغنیہ اور ایسے شہداء کی تصاویر لگی تھیں جنہیں آسمانے والے زمین والوں سے کہیں زیادہ بہتر پہچانتے ہیں۔
 
یہاں اسلامی مزاحمت محض ایک سیاسی تصور یا فوجی گروہ کا نام نہیں بلکہ ایسی ثقافت کا نام ہے جو عوام کی رگوں میں جاری و ساری ہے۔ چھوٹے دیہاتوں سے لے کر اسٹریٹجک اہمیت کے حامل شہروں جیسے بنت جبیل اور مارون الراس تک آپ جسے بھی دیکھیں گے وہ گویا جنگ کی ایک یاد، مزاحمت کا ایک قصہ اور تاریخ سے ایک درس اپنے دل میں سمویا ہو گا۔ ہم مقبوضہ فلسطین کی سرحد کے قریب مارون الراس والے علاقے میں پہنچتے ہیں، یہ وہ جگہ ہے جو ایران پارک کے نام سے معروف ہے۔ ہم نے مقبوضہ فلسطین کی سرحد کے قریب ایران کا نام اور پرچم دیکھ کر فخر کا احساس کیا۔ یہ احساس بھی امام خمینی رح کی وحدت بخش آواز کے باعث تھا جس میں انہوں نے کہا: "اے رسول اللہ کے فرزندو، کیا آپس میں متحد ہونے کا وقت نہیں آیا؟"
 
سرحد کے اس پار اسرائیل کے واچ ٹاور صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ایک دن وہ بھی تھا جب اسی جگہ اسرائیلی فوجی آسانی سے آمدورفت کرتے نظر آتے تھے۔ لیکن آج حتی اپنے فوجی اڈوں میں بھی بہت زیادہ احتیاط سے آتے جاتے ہیں۔ وہ اسرائیل جو خود کو خطے کی طاقتور ترین فوج کا مالک گردانتا تھا اس وقت اسلامی مزاحمت کے مجاہدین کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، وہ بھی ایسے وقت جب اسلامی مزاحمت کے اہم مرکزی رہنما شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج اپنے مورچوں تک پیچھے ہٹ گئی ہے۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ سرحدی علاقے کی صورتحال تقریباً غزہ کی صورتحال جیسی ہو گئی ہے۔ رہائشی عمارتیں اور دیگر انفرااسٹرکچر پوری طرح تباہ ہو گیا ہے اور مٹی کا ڈھیر بن گیا ہے۔ اگرچہ تباہ شدہ علاقے اپنی وسعت کے لحاظ سے غزہ سے قابل موازنہ نہیں ہیں۔
 
سرحد سے کچھ ہی فاصلے پر تباہی کے مناظر میں بہت حد تک کمی آ جاتی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے ذرائع کے بقول ابھی 80 شہداء کے جنازے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ جنوبی لبنان ایک حقیقت ثابت کرنے کی حقیقی تجربہ گاہ ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ سازباز ہر گز راہ حل نہیں ہے اور آئندہ بھی نہیں ہو گا۔ مزاحمت ہی صرف وہ زبان ہے جسے اسرائیل سمجھتا ہے۔ وہ جو ایک دن "زمین کے بدلے صلح" کا نعرہ لگاتے تھے آج لبنان کے تجربے پر اس حقیقت کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسرائیل صرف اس صورت میں پیچھے ہٹتا ہے جب اپنے سے برتر طاقت اس کے مقابلے میں اترتی ہے۔ 2000ء میں جب اسرائیلی فوجیوں نے کسی معاہدے کے بغیر لبنان سے فرار کیا سے لے کر 2006ء کی جنگ تک اسرائیل حتی ایک فوجی کامیابی بھی حاصل نہیں کر پایا ہے۔
 
ابھی چند دن پہلے ہی انہوں نے فرار کرنے کو مقابلہ کرنے پر ترجیح دی ہے اور یہ حقیقت اب تک بارہا دہرائی جا چکی ہے۔ جنوبی لبنان میں زندگی جاری و ساری ہے لیکن خوف و ہراس کے سائے تلے نہیں بلکہ اقتدار کی سائے تلے۔ عوام شاید اقتصادی لحاظ سے مشکلات کا شکار ہوں لیکن سلامتی اور عزت کے ساتھ ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس سرزمین کے بچے مقبوضہ فلسطین میں اپنے ہم عمر بچوں کے برعکس ایسے اسکول جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں جو اسرائیل کے زیر کنٹرول نہیں بلکہ آزاد شدہ سرزمین میں واقع ہیں۔ جنوبی لبنان نے ثابت کر دیا ہے کہ آزادی دی نہیں جاتی بلکہ اسے جنگ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت وہ دو خواتین اور ایک مرد بیان کر رہے ہیں جو اپنا تباہ شدہ گھر دیکھنے کے لیے مارون الراس آئے ہوئے ہیں۔
 
ہم سردی سے بچنے کے لیے ویگن میں پناہ حاصل کرتے ہیں تاکہ اسلامی دنیا کے ایک معروف ہیرو کی جائے پیدائش کا سفر کر سکیں۔ یہ سرزمین سید ہاشم صفی الدین کی یادیں لیے ہوئے ہے۔ جنوبی لبنان کا ایک گاوں جو آج ایسے مرد سے الوداع کے مناظر پیش کر رہا ہے جو نہ صرف حزب اللہ لبنان بلکہ پورے اسلامی مزاحمتی بلاک میں ایک تھم کی حیثیت رکھتا تھا۔ سید ہاشم کا زرد رنگ کا تابوت عوام کے سمندر میں بہتا جا رہا ہے۔ چہرے غمگین ہیں لیکن ان کا دکھ سرتسلیم خم کرنے والا نہیں ہے۔ یہاں آنسووں کا مطلب اختتام نہیں بلکہ ایک قسم کی بیعت ہے۔ ایسا عہد جو شہداء کے خون سے باندھا گیا ہے۔ دیر قانون النہر ایسے مرد کی جائے پیدائش ہے جو کئی سالوں سے حزب اللہ کی پہلی صف میں کھڑا رہا۔ وہی عوام جو جنگوں اور محاصروں میں اسلامی مزاحمت کے ساتھ تھے اب اس کے ایک کمانڈر کے سوگ میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان لمحات میں دیر قانون کے کوچوں میں لبیک یا حسین کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی مزاحمت کے نہیں بلکہ ایسے مرد سید ہاشم حزب اللہ نہیں ہے گیا ہے رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے اضمام کا فیصلہ عالمی سطح پر بھی مسترد

اسرائیلی پارلیمنٹ نیسٹ نے ووٹوں کی اکثریت سے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا جس پر عالمی سطح پر شدید تنقیدیں اُٹھ رہی ہیں اور فیصلے کو مسترد کیا جارہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس کے ساتھ ایک اور بل بھی منظور ہوا ہے جو کہ مقبوضۃ مشرقی یروشلم کے قریب واقع بستی مالے ادومیم کو بھی اسرائیلی خودمختاری کے تحت لانے کا ہے۔ 

اہم واضح رہے کہ قانون سازی ابھی حتمی نہیں ہوئی ہے، یہ بل ابھی خارجہ امور دفاعی کمیٹی سے بھی منظور ہونا ہے۔ 

اس فیصلے پر کئی عرب ملکوں، ترکی اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ اُردن نے کہا ہے کہ یہ عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور دو­ری ریاستی حل کے امکان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ 

دوسری جانب قطر اور سعودی عرب نے بھی اسے فلسطینی عوام کے تاریخی اور قانونی حقوق پر حملہ قرار دیا ہے۔ ترکیے نے اعلان کیا کہ یہ بل کُلی طور پر کالعدم ہے اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔ 

عالمی عدالت انصاف نے بھی کہا ہے کہ اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں پر قبضہ اور بستیوں کا قیام بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام غزہ امن معاہدے سمیت جاری امن عمل کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ 

واضح رہے کہ اگر یہ ضم کا عمل آگے بڑھتا ہے تو فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ اور شہری کنٹرول مزید بڑھ جائے گا جس کا مطلب ہے مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ 

اسرائیلی حکومت کے اندر اس پر اتفاق نہیں ہے — مثلاً Benjamin Netanyahu کی جماعت (لیکود) نے اس بل کی حمایت نہیں کی، مگر اُن کی حکومت کے بعض اتحادی جماعتوں نے ووٹ دیا۔ 

متعلقہ مضامین

  • کیا اسرائیل امریکہ کی مدد سے لبنان پر بڑے حملے کی تیاریوں میں ہے؟
  • فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی کی ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز واپس کرنے کی دھمکی
  • نوجوان حالات سے مایوس نہ ہوں، بلکہ مایوس کرنے والوں کو مایوس کریں، حافظ نعیم الرحمن
  • پاکستان میں اسموگ کے زراعت پر اثرات  اور ممکنہ حل
  • اسرائیل کا لبنان میں گاڑی پر ڈرون حملہ؛ حزب اللہ کمانڈر ساتھی سمیت شہید؛ ویڈیو وائرل
  • دمدار ستارہ اٹلس تھری آئی سورج کے قریب پہنچنے والا ہے، انکشاف
  • لاہور میں تصوف کا نیا مرکز،روحانیت، سکون اور علم کا حسین امتزاج
  • اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے اضمام کا فیصلہ عالمی سطح پر بھی مسترد
  • 40 ہزار سکوں سے خریدی گئی اسکوٹی، باپ نے بیٹی کے خواب کو حقیقت بنا دیا
  • عدالتی بینچ خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق بنیں گے، جج سپریم کورٹ