لبریشن فرنٹ کی بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
جے کے ایل ایف کے ترجمان اعلیٰ محمد رفیق ڈار نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں بھارتی وزیر خارجہ کے دعوئوں کو غیر معقول اور بے بنیاد قرار دیا۔ اسلام ٹائمز۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) نے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے جموں و کشمیر کے بارے میں حالیہ بیان کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورہ برطانیہ کے دوران ایک تھنک ٹینک کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے دفعہ370 کو ختم کیا اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں اقتصادی بحالی، خوشحالی اور سماجی انصاف کے لیے اقدامات کئے۔ نیز کشمیریوں کی بھرپور شمولیت کے ساتھ انتخابات کرائے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اب جب بھارت آزاد کشمیر کو واپس لے لے گا تو پھر مسئلہ کشمیر مکمل طور پر حل ہو جائے گا۔ جے کے ایل ایف کے ترجمان اعلیٰ محمد رفیق ڈار نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں بھارتی وزیر خارجہ کے دعوئوں کو غیر معقول اور بے بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری اپنی آزادی کیلئے بے مثال قربانیاں دے رہے ہیں، بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس لاکھ فورسز اہلکار تعینات کر رکھے ہیں، جموں و کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایک متنازعہ خطہ ہے اور اقوام متحدہ نے تنازعہ کشمیر کے حل کے حوالے سے متعدد قراردادیں پاس کر رکھی ہیں۔انہوں نے بھارتی وزیر کے متکبرانہ رویے کی مذمت کرتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے قبضے میں لینے کے بھارتی دعوئوں کو ایک احمقانہ سوچ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر تاریخی طور پر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بھارتی وزیر خارجہ
پڑھیں:
صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرسکتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جون 2025ء) بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کا تنازعہ منگل کو امریکی محکمہ خارجہ کی بریفنگ کے دوران ایک بار پھر سامنے آیا، جب ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے میں ثالثی کی کوشش کرتے ہیں تو یہ حیران کن نہیں ہو گا۔
پاکستان، بھارت کے درمیان جنگ کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے، بلاول بھٹو
بھارت اور پاکستان میں فائر بندی کے بعد کشمیر کے مسئلے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کے متعلق ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے جواب دیا، "میں اس بارے میں بات نہیں کر سکتی کہ صدر کے ذہن میں کیا ہے یا ان کے کیا منصوبے ہیں۔
البتہ میں یہ جانتی ہوں کہ وہ اپنا ہر قدم نسلوں پر محیط تنازعات کو حل کرنے کے لیے اٹھاتے ہیں۔(جاری ہے)
اس لیے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ وہ ایسے معاملات میں ثالثی کرنا چاہیں گے۔"
صحافی نے پوچھا تھا، 'پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہم اس حوالے سے آگے کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟
بھارت کی انڈس واٹر ٹریٹی سے ’یکطرفہ دستبرداری‘ آبی جارحیت ہے، پاکستان
ٹیمی بروس نے مزید کہا، "وہ نہ صرف ایسا ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہ واقعی ایسے افراد کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب رہے ہیں، جسے پہلے ممکن نہیں سمجھا جاتا تھا۔
"انہوں نے کہا، "لہٰذا چونکہ میں صدر کے منصوبوں کے بارے میں نہیں بتا سکتی، دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کا مزاج کیا ہے۔ کسی تفصیل کے لیے آپ وائٹ ہاؤس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں ان کے پاس بتانے کے لیے بہت کچھ ہو گا۔"
ترجمان نے بظاہر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا، "ہر دن کچھ نیا ہوتا ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ شاید ایسا کوئی معاملہ بھی صدر کی مدت مکمل ہونے سے پہلے حل ہو جائے۔
" بھارت کا ردعملامریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے بیان پر بھارت نے فوراﹰ اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، "مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی مسئلے کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ طور پر حل کیا جانا ہے۔ یہی ہمارا موقف ہے اور یہ بدستور برقرار ہے۔
"جیسوال نے بین الاقوامی برادری کو 1972 کے تاشقند معاہدے میں طے شدہ بنیادی اصولوں کی بھی یاد دہانی کرائی، جس میں کہا گیا ہے کہ تمام بھارت-پاک معاملات بیرونی مداخلت کے بغیر براہ راست دوطرفہ بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں گے۔
فائر بندی میں صدر ٹرمپ کے کردار پر اصرارامریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے اس دعوے کو بھی دہرایا کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ ماہ چار روزہ تنازعے میں فائر بندی کے لیے مداخلت کی تھی۔
ٹیمی بروس نے امریکی شمولیت کے دعووں پر زور دیتے ہوئے مزید کہا، "لیکن یہ ایک خوش آئند موقع ہے، اگر ہم اس تنازعے پر کسی نتیجے تک پہنچیں، تو خدا کا شکر ہے اور ساتھ ہی سیکریٹری روبیو، صدر ٹرمپ اور نائب صدر کا بھی شکریہ۔"
ڈونلڈ ٹرمپ متعدد بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے دونوں روایتی حریفوں میں جوہری تصادم کو روکنے اور فائر بندی کے لیے تجارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
پاکستان بھارت کشیدگی: دونوں ملکوں کے جرنیلوں کی ایک دوسرے کو تنبیہ
تاہم بھارت نے ان دعوؤں کو بھی صاف طور پر مسترد کر دیا ہے۔ بھارت کے خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے پارلیمانی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ فائر بندی بھارت کی اعلیٰ فوجی حکمت عملی کا نتیجہ ہے، غیر ملکی سفارت کاری کا نہیں۔
خیال رہے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں 22 اپریل 2025 کو ایک حملے میں کم از کم 26 افراد کی موت کے بعد نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا لیکن اسلام آباد نے اس کی مسلسل تردید کرتے ہوئے اس واقعے کی بین الاقوامی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
اس کے بعد بھارت نے چھ اور سات مئی 2025 کی شب پاکستان میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا، جس کا پاکستان نے بھی جواب دیا۔
جوہری ہتھیار رکھنے والے جنوبی ایشیا کے ان دونوں ممالک کے درمیان چار دن تک لڑائی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں 10 مئی کو سیز فائر پر اتفاق کیا گیا، جس پر تاحال دونوں جانب سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی یقین دہانیایک صحافی نے بروس سے پوچھا کہ کیا پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی کوئی یقین دہانی کرائی ہے، جب سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے حال ہی میں انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور ایلیسن ہوکر سے ملاقات کی۔
اس پر بروس نے کہا، "میں ان بات چیت کی تفصیلات پر بات نہیں کرنے جا رہی ہوں۔"انہوں نے صرف اتنا کہا کہ دوطرفہ تعلقات سے متعلق اہم امور، بشمول انسداد دہشت گردی تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
بروس نے کہا کہ امریکہ نے "دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت کی مضبوط حمایت اور ان دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری" کا اعادہ کیا، جب سشی تھرور کی قیادت میں بھارتی پارلیمانی وفد نے حال ہی میں ڈپٹی سکریٹری لینڈاؤ سے ملاقات کی۔
ادارت: صلاح الدین زین