متنازع وقف بل کیخلاف بھارت میں ہنگامے،پولیس تشدد، درجنوں گرفتار یاں
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
حکومت اقلیتوں کی وقف املاک پر قبضے کی کر رہی ہے، جو ناقابل قبول ہے، مظاہرین
اپوزیشن، مسلم تنظیموں ، انسانی حقوق کے اداروں نے بل اقلیتوں کے خلاف قرار دے دیا
بھار ت میں متنازع وقف ترمیمی بل کی منظوری کے بعد پورا بھارت احتجاج کی لپیٹ میں آ گیا ۔ بل کی منظوری کے صرف چند گھنٹوں بعد کولکتہ، رانچی، احمد آباد، منی پور، جمئی اور دیگر شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ احمد آباد میں بڑی تعداد میں لوگوں نے بل کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا، جہاں پولیس نے مظاہرین پر تشدد کرتے ہوئے 50 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا۔ کولکتہ میں بھی زبردست مظاہرے ہوئے جہاں مظاہرین نے وقف بل واپس لو کے نعرے لگائے۔رانچی میں ایکرا مسجد کے باہر احتجاجی مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ بل میں کی گئی ترامیم ان کے مذہبی اور قانونی حقوق کو متاثر کر رہی ہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت اقلیتوں کے وقفی املاک پر قابض ہونے کی کوشش کر رہی ہے، جو ناقابل قبول ہے۔ سب سے بڑا احتجاج شمال مشرقی ریاست منی پور میں ہوا، جہاں عوام نے متنازع بل کو مسترد کرتے ہوئے مودی حکومت پر کڑی تنقید کی۔ منی پور مودی حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں کے باعث بداعتمادی کا گڑھ بن چکا ہے۔بہار کے ضلع جمئی میں واقع رضا نگر غوثیہ مسجد کے باہر بھی سینکڑوں افراد نے احتجاج کیا۔ مظاہرین نے وزیراعلی نتیش کمار اور دیگر بی جے پی رہنمائوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور آئندہ انتخابات میں بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے اور بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ اترپردیش میں احتجاج کے خدشے کے پیش نظر پولیس ہائی الرٹ پر ہے، جبکہ بھارتی سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس میں وقف ترمیمی بل کے خلاف درخواستیں دائر کر دی گئی ہیں۔ اپوزیشن، مسلم تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے بل کو اقلیتوں کے خلاف اقدام قرار دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اس قانون کا مقصد مسلمانوں کے وقفی اداروں کو کمزور کرنا اور ان کی جائیدادوں پر قبضہ جمانا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی مسلم دشمن پالیسی بھارت کے سیکولر تشخص کے لیے سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے، اور وقف بل اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
سوات: مدرسے میں بچے کی ہلاکت، مزید طلبہ پر تشدد کا انکشاف، 9 افراد گرفتار
—فائل فوٹوسوات کے مدرسے میں معصوم بچے کی ہلاکت پر ایک استاد کو گرفتارکر لیا گیا جبکہ 2 کی تلاش جاری تھی۔
ڈی پی او سوات نے بتایا ہے کہ مدرسے میں مزید بچوں پر تشدد کے انکشافات پر مزید 9 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دفعہ 302 کے علاوہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت بھی مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
استاد کے تشدد کے بعد فرحان کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے اس کی موت کی تصدیق کر دی۔
ڈی پی او سوات کا کہنا ہے کہ مدرسے سے بچوں پر تشدد میں استعمال ہونے والا سامان بھی برآمد ہوا ہے۔
ڈی پی او سوات کا کہنا ہے کہ خوازہ خیلہ کے چالیار مدرسے میں بچوں پر کئی مہینوں سے تشدد کیا جارہا تھا۔
ڈی پی او سوات کا یہ بھی کہنا ہے کہ مدرسے میں زیرِ تعلیم بچوں کو والدین کے حوالے کر کے ادارے کو سیل کر دیا ہے۔