پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ہمارے آپس میں جو مرضی سیاسی اختلافات ہوں، ملک کے دفاع کے لیے ہم سب ایک ہیں، پاکستان بھارت جیسے منہ زور فرعونوں کا مقابلہ کرنا جانتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں پاکستان بھارت کشیدگی: ہندوستان کو کیا کیا نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں؟

سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہاکہ بھارت پہلگام حملے کے فوراً بعد الزام پاکستان پر لگا دیا، لیکن اس بار دنیا نے بھارت کے جھوٹ کا ساتھ نہیں دیا۔

انہوں نے کہاکہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، کیوں کہ اس میں ورلڈ بینک ثالث ہے، جبکہ دیگر ادارے بھی شامل ہیں۔ لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے، ہر سات کشمیریوں پر ایک فوجی مسلط ہے۔

انہوں نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں جگہ جگہ ناکوں اور چوکیوں کے باوجود اتنا بڑا واقعہ ہو جانا سوالیہ نشان ہے۔

عرفان صدیقی نے کہاکہ بھارت کا مؤقف ہے چار افراد آئے انہوں نے سیاحوں کا انٹرویو کیا اور پھر لوگوں کو مار کر چلے گئے، پہلگام واقعے پر دنیا نے بھارت کے جھوٹے مؤقف کا ساتھ نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں پہلگام واقعے کا پاکستان پر الزام: بھارت کے اندر سے مودی سرکار کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں

انہوں نے کہاکہ سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی، تاہم پاکستان اپنا بھرپور دفاع کرےگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پاک بھارت جنگ پاکستان بھارت کشیدگی پاکستان دفاع پاکستان مسلم لیگ ن عرفان صدیقی وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاک بھارت جنگ پاکستان بھارت کشیدگی پاکستان دفاع پاکستان مسلم لیگ ن عرفان صدیقی وی نیوز عرفان صدیقی نے کہاکہ بھارت کے انہوں نے

پڑھیں:

پاکستان کوکھل کربھارت کے خلاف بات کرنے پرعالمی دباؤ کا سامنا کرناپڑتاہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)سفارتی دباؤ اور عالمی سیاست بھارت ایک بڑی معیشت اور بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کے عالمی تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستان جب بھارت کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے، تو بین الاقوامی دباؤ اور مخالفت کا سامنا بھی کرتا ہے پاکستان کو خود بھی متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے معیشت، سیاسی عدم استحکام، اور انتہا پسندی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے، صرف بیانات دینا کافی نہیں ہوتا، عملی اقدامات جیسے کہ مسلم دنیا کو متحد کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال بنانا، یا عالمی میڈیا میں مستقل لابی کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اکثر کمزور ہوتا ہے۔ان خیالات کا اظہارجامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں،جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمر اور ڈاکٹر رخشندہ منیر نے جسارت کے سوال پاکستان ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟کے جواب میں کیا۔جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ ایک بہت اہم اور حساس سوال ہے۔ پاکستان سرکاری سطح پر اکثر ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے، خصوصاً کشمیر کے حوالے سے۔ ہر سال اقوامِ متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی جانب سے بیانات دیے جاتے ہیں، اور بعض اوقات او آئی سی میں بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا جاتا ہے۔تاہم، کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی آواز اکثر کمزور یا غیر مؤثر ہوتی ہے، یا پھر صرف سیاسی مفادات کے تحت بلند کی جاتی ہے۔ اس کی چند ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں.سفارتی دباؤ اور عالمی سیاست بھارت ایک بڑی معیشت اور بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کے عالمی تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستان جب بھارت کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے، تو بین الاقوامی دباؤ اور مخالفت کا سامنا بھی کرتا ہے۔پاکستان کو خود بھی متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے معیشت، سیاسی عدم استحکام، اور انتہا پسندی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ صرف بیانات دینا کافی نہیں ہوتا، عملی اقدامات جیسے کہ مسلم دنیا کو متحد کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال بنانا، یا عالمی میڈیا میں مستقل لابی کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اکثر کمزور ہوتا ہے۔جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمرکاکہنا تھا کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی ملک یا خطے میں رہتے ہوںوہ امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔بھارت ہو افغانستان یا کوئی اور ملک جہاں بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے پاکستان ا س کے لیے آواز اٹھاتا ہے، اسی طرح مقبوضہ کشمیر کو بھارت کہتا ہے کہ ہمارا جبکہ ہم کہتے وہ مقبوضہ ہے وہاں جو بھی کچھ ہورہاہے وہ کون کررہا ہے وہ بھارتی پولیس اور انڈین آرمی کررہی ہے،پاکستا ن مستقل اس کے خلا ف آواز اٹھاتا ہے.بھارت آبادی اور وسائل کے اعتبار سے بڑا ملک ہے اور اس کے دیگر اسلامی ممالک سے بھی بڑے اچھے تعلقات ہیں،جبکہ امریکا،برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں اس کی اکانومی چھائی ہوئی ہے اسی لئے بھارت کے اکنامی ریلیشن پاکستان کے مقابلے میں زیادہ اچھے ہیں۔پاکستان میں مختلف حکومتی آتی ہیں جو اپنا اپنا ایجنڈا لے کر آتی ہیں۔اسی لیے پاکستان معاشی سطح پر دباؤ کا شکار ہے،پے در پے حکومتوں غیر ضروری طور پر تبدیل کرنے کی وجہ سے ہماری حکومت بہت سے چیزوں میں الجھ جاتی ہے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ وہاںکی حکومت نہیں پاکستان بننے کے بعد انہیں وہ قوت حاصل نہیں ہوئی جو کہ ہونا چاہیے جبکہ بھارت کئی مذہبی عناصربڑی تعداد میں موجود ہیںجو پاکستا ن کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔پاکستان تو اپنے ہی مسائل میں گھرا ہواہے۔مگر پھر بھی مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔کلمہ کی بنیاد پر جہاںمسلمانو ں پر جبری تسلط قائم کیا جائے تو بحیثیت مسلمان ہم پاکستانیوں کو تکلیف تو ہوتی ہے ،شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہر تعلیم ڈاکٹر رخشندہ منیر کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ 1971ء سے پہلے Double Country کے نام سے جانا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں 1000 میل (1600 کلو میٹر) کا فاصلہ تھا۔ پاکستان کے دو حصوں کے بیچ میں بھارت کے کچھ علاقے موجود تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ہمیشہ تناؤ برقرار رہا۔ اگر ہم دونوں ممالک کے تعلقات پر نظر ڈالیں تو ہمیں تنازعات دیکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت نے 78 سال کے عرصے میں چار بڑی جنگیں لڑیں۔1948، 1947 اور 1965 کشمیر کے معاملے پر 1947-48 میں بھارت کشمیر کا ایک حصہ پاکستان سے لینے میں کامیاب ہوا۔ 1970-71 میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی عمل پذیر ہوئی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ 1999ء میں بھارت اور پاکستان پھر آمنے سامنے آئے۔ اس بار کارگل نشانہ بنا۔ اس جنگ کے نتیجے میں بھارت نے کارگل پر قبضہ کیا۔ جس پر پہلے ہی پاک فوج قبضہ حاصل کرچکی تھی۔اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی موقعوں پر اختلافات پیدا ہوئے۔ ان سب اختلافات کے باوجود پاکستان نے کئی بار کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اُٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیری عوام کو جب سیکورٹی کونسل نے جنوری 1949ء میں حق خودارادیت دیا تو پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا۔ بینظیر بھٹو، نواز شریف اور دیگر کئی حکمرانوں نے کشمیر میں ہونے والی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ پاکستان کشمیر کے معاملے میں کوئی جارحانہ قدم اُٹھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ سب سے پہلے تو پاکستان کے اندرون حالات بہت نازک ہیں، ہر صوبہ ایک الگ کشمکش کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ہم معاشی بحران کا شکار ہیں، پاکستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مسلسل قرضے لیتا آرہا ہے۔ اگر ایک لمحے کیلئے پاکستان اپنی معاشی کمزوری کو نظر انداز کرکے کوئی بڑا قدم اُٹھائے بھی تو تب اس بات کو یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ باقی مسلمان ممالک بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی حملہ کھلی دہشت گردی ہے ، عالمی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کیلئے د ہرا معیار ترک کر دیں، سینیٹر عرفان صدیقی
  • پاکستان کوکھل کربھارت کے خلاف بات کرنے پرعالمی دباؤ کا سامنا کرناپڑتاہے
  • تحریک انصاف نے ملک کا بیڑا غرق کیا، رانا احسان افضل
  • پاکستان ،بھارت2ہزارسال سے لڑرہے ہیں،میں نے کہا اور کتنالڑوگے؟جنگ روکوادی،ٹرمپ
  • بھارتی جارحیت کے دوران ترکیہ نے ایک سچے اور مضبوط دوست کا کردار ادا کیا جسے پاکستان ہمیشہ یاد رکھے گا، سینیٹر عرفان صدیقی
  • پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر راہنما اور سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی سے ترکیہ کے سفیر ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو کی ملاقات
  • دہشتگردی کے خلاف پاک بھارت مذاکرات ناگزیر ہیں، بلاول بھٹو
  • میراکسی قسم کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ، قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر
  • آمدن، ترسیلات زر کو مدنظر رکھ کر عوام کیلئے بھرپور ریلیف کی کوشش کی: عرفان صدیقی
  • بجٹ  بہترین،اپوزیشن کے پاس تنقید کیلئے کچھ نہیں ،حیلے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں،عطاء تارڑ