سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو درست قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف حکومت کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے 5 رکنی بنچ کے 23 اکتوبر 2023ء کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو درست قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بنچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں مختصر فیصلہ سنا دیا، فیصلہ 2-5 کی اکثریت سے سنایا گیا۔ آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف حکومت کی انٹراکورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے 5 رکنی بنچ کے 23 اکتوبر 2023ء کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اپیلیں منظور کرنے والے ججز میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس حسن رضوی شامل ہیں جبکہ جسٹس نعیم الدین افغان اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
عدالت نے آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی جانے والی تینوں شقیں 2-1 ڈی، 2 -1 ڈی 2 اور 59-4 کو بھی بحال کر دیا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کیس کا مختصر فیصلہ آج جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینے کیلئے معاملہ حکومت کوبھجوا دیا گیا، حکومت 45 دن میں اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے، ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کیلئے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں۔ یاد رہے کہ 7 رکنی آئینی بنچ نے تقریباً 5 ماہ تک جاری رہنے والی سماعتوں کے بعد 5 مئی (بروز پیر) کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل قرار دے دیا سپریم کورٹ کے فیصلے
پڑھیں:
عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں، پاکستانی سپریم کورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 مئی 2025ء) پاکستان کی سپریم کورٹ نے آج سات مئی بروز بدھ اپنے ایک سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف مقدمات چلانے کی اجازت دے دی۔ اس فیصلے میں وزارت دفاع کی اس اپیل کو منظور کر لیا گیا، جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد 2023ء میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کے خلاف کارروائی کی توثیق کی گئی تھی۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جن میں حکومت کے مطابق چاروں صوبوں میں کل 39 فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان مظاہروں کے دوران 100 سے زائد شہریوں کو حراست میں لے کر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے، جن میں سے کچھ کو دس دس سال تک قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
(جاری ہے)
پاکستانی سپریم کورٹ نے ابتدائی طور پر ان کارروائیوں کو آئین کے منافی قرار دیا تھا، تاہم اب نئے فیصلے میں ان کو قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ترجمان نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ''فوجی قوانین کا مقصد مسلح افواج کے اندر نظم و ضبط قائم رکھنا ہوتا ہے۔ ان قوانین کو عام شہریوں پر لاگو کرنے کے لیے کبھی نہیں بنایا گیا تھا۔‘‘عمران خان اس وقت بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں قید ہیں۔ اگرچہ گزشتہ سال انتخابات سے قبل ان کے خلاف بعض مقدمات کالعدم قرار دے دیے گئے تھے، تاہم متعدد دیگر الزامات کے تحت وہ اب بھی حراست میں ہیں۔
شکور رحیم، اے ایف پی کے ساتھ
ادارت: مقبول ملک