Express News:
2025-05-08@12:29:18 GMT

کھچا ں…

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

’’ ابھی تک جنگ کے لیے نئے کپڑے بھی نہیں بنوائے اور جنگ چھڑنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے -‘‘

’’ انڈیا والوں کو بتاؤ کہ ہم اپنی ذات سے باہر جنگ نہیں کرتے -‘‘

’’ان کو یہ بھی بتائیں کہ ہماری لائیٹ بھی کافی گھنٹوں سے بند ہے ، اس لیے ہم کپڑے بھی استری نہیں کر سکتے اس لیے ابھی جنگ شروع نہ کریں -‘‘

’’ان کو کوئی بتائے کہ دن کو کافی گرمی ہوتی ہے، رات کو جنگ کر لیں -‘‘…’’ان سے کہیں کہ ایک گھنٹے کے لیے ہمارا پانی کھول دے تا کہ ہم نہا دھو کر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں-‘‘

’’ پتا نہیں ہمیں اسٹیج بنوا لینا چاہیے کہ ان کل فلاں اداکارہ ہمارے سامنے اسٹیج پر ناچے گی-‘‘

’’ اس کو تو چھوڑو، ان کی فلاں اداکارہ کا ڈانس تو دیکھنا بنتا ہے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ -‘‘

’’جنگ کا ایک فائدہ اور بھی تو ہے کہ جو بھی ہمارا بارڈر کراس کر کے آئے گا اس کا فون نان پی ٹی اے ہو جائے گا- ‘‘

’’ اگر تو ان کا مقصد پانی بند کر کے ہمیں جنگ کی دھمکی سے ڈرانے کاہے تو انھیں چاہیے کہ وہ بجائے پانی بندکرنے کے ہمارا انٹر نیٹ بند کرنے کی دھمکی دے دیں، پھر دیکھنا ہما را سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا، ہم جنگ کے بغیر ہی مر جائیں گے-‘‘

’’ پانی کی ٹنکی اوور فلو کر رہی ہے، انڈیا کو بتائیں ، بے شک ہمارا پانی بند کردے-‘‘

’’پتا نہیں ہمارا اتنا پانی بند کر کے انھوں نے کرنا کیا ہے، پیتے تو وہ کچھ اور ہی ہیں-‘‘

’’اگر انھوں نے ہم پر حملہ کیا اور ہمارے کسی علاقے پر قبضہ کر لیا تو ہم ان کا حال بھی اپنے جیسا کر لیں گے، یعنی کہ ان کا بھی بیڑہ غرق کردیں گے-‘‘

’’بڑے ہی بے وقوف ہیں انڈیا والے، اتنی گرمی میں تو لوگ کسی شادی کی تاریخ رکھتے ہوئے بھی کئی بار سوچتے ہیں اور انڈیا نے جنگ رکھ لی ہے-‘‘

’’جنگ کے بعد انڈین قیدیوں کو سزا کے طور پا فلاں پاکستانی گلوکار کے نغمے سنوائے جائیں گے-‘‘

’’پھوپھو، جنگ کا کوئی کارڈ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہم آپ کو بھولے ہیں، اگر جنگ کا کوئی کارڈ ہوتا تو اس پر سب سے اوپر آپ کا نام ہی لکھنا بنتا تھا -‘‘

’’ جنگ کی نہیں بلکہ جنگ کے بعد بجلی کے بلوں میں جنگ ایڈجسٹمنٹ چارجز کی زیادہ فکر ہے-‘‘

مندرجہ بالا فقرے آج کل سوشل میڈیا پر چلنے والی کچھ ریلوں سے ہیں، انھیں ہمارے بچے میم ز بھی کہتے ہیں، انگریزی میں اس کے لیے Gossip کالفظ استعمال ہوتا ہے اور اردو میں فضول گوئی- سب سے دلچسپ لفظ اس کے لیے پنجابی زبان کا ہے جو اس قدر بعینہ صورت حال ہے کہ کوئی اور لفظ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا - ایسی چیزوں کو ہماری پنجابی زبان میں ’’ کھچ‘‘ کہا جاتا ہے ، جمع جس کی ’’ کھچاں ‘‘ ہوتا ہے ، اس لفظ سے بہتر کوئی اور لفظ کسی زبان میں ایسی فضول گوئی اور gossip کے لیے نہیں ہو سکتا ہے - یہ فقرے اور ایسے میم صرف وہی لوگ بنا سکتے ہیں جو زندگی کو پھولوں کی سیج اور مسائل کو فقط ایک لطیفہ سمجھتے ہیں-

جنھیں ’’ جنگ ‘‘ کا مطلب ، ’’مزاحیہ ڈراما ‘‘ لگتا ہے- انھیں علم ہی نہیں کہ جنگ چیز کیا ہے، کیسی قیامت ہے اور کتنا بڑا عفریت ہے- انھیں یاد نہیں یا وہ جانتے ہی نہیں کہ جنگوں میں کیا تباہیاں ہوتی ہیں اور ان کا خمیازہ کن کن ملکوں کو اور قوموں کو کتنے عرصے کے لیے بھگتنا پڑتا ہے- ہم بھول گئے ہیں کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے دنیا کو کس تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا تھا اور کیا انھیں اندازہ ہے کہ تیسری جنگ عظیم کا کیا مطلب ہو گا، دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جانے سے وہ شہر تو خاک ہوئے ہی مگر اس کے بعد بھی کئی نسلوں تک وہاں پیدا ہونے والے بچے بھی اس خوفناک ریڈیائی لہروں کے اثرات کا شکار رہے-

وہ قومیں جنگ کے اثرات سے تباہ ہو کر بھی یوں سنبھلیں کہ ترقی کی دوڑ میں کئی ترقی یافتہ ملکوں کو پیچھے چھوڑ گئیں - ہم ان قوموں کے پاسنگ بھی نہیں ہیں، ہم تو ایک تباہ کن بارش یا آندھی کے بعد بھی کئی دن تک سڑکوں اور گلیوں میں کھڑے پانی کو نہیں نکال پاتے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پانی بند کے لیے جنگ کے کے بعد ہیں کہ

پڑھیں:

پیشہ ور صحافی اب کوئی اور کام دیکھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مئی 2025ء) لیکن ابلاغ اور صحافت بغیر کسی میڈیم کے اپنا وجود نہیں رکھتے بعینہ میڈیم کے بدلتے ساتھ صحافت کے اصول وضوابط بھی بدل جاتے ہیں۔ خبر کا زاویہ، پیش کرنے کا انداز اور طریقہ کار بھی نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ خبر اور تجزیے کا مواد، الفاظ کا چناؤ اور زبان کا استعمال سب نیا ہو جاتا ہے۔

اخبار کا صحافی، نیوز چینل کے صحافی سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح نیوز چینل کا صحافی ڈیجیٹل میڈیا کے صحافی سے ذرا ہٹ کے ہو گا۔

ایک اور بات جو بڑی مشکل سے سمجھ آئی وہ یہ کہ نئے صحافیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیا میڈیم پرانے میڈیم کو کھا جاتا ہے، زبان کھا جاتا ہے اور اس کا لہجہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ مواد ڈکار جاتا ہے اور کہیں کہیں تو ورکنگ جرنلسٹس کو بھی چبا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اگر آپ کی عمر تیس سال سے کم ہے تو آپ کو اخبار یا پرنٹ جرنلزم کے چند ایک ناموں کے علاوہ کوئی صحافی یاد نہیں ہو گا۔

آپ کو ''کیپٹل ٹاک‘‘ تو یاد ہو گا مگر ''قلم کمان‘‘ شاید آپ کی یادداشت کا حصہ نہ ہو۔ حالانکہ ''قلم کمان‘‘ کے عنوان سے کالم بھی حامد میر لکھتے ہیں جو ''کیپٹل ٹاک‘‘ کے نام سے ٹاک شو کرتے ہیں۔

اسی طرح ڈیجیٹل جرنلزم کے موجودہ زمانے میں آپ ان صحافتی ناموں کو زیادہ پہچانتے ہیں جو آپ کے موبائل کی سکرین پہ زیادہ آتے ہیں۔ یا آپ جن کو زیادہ لائک یا فالو کر چکے ہیں یا آپ ان کی طویل دورانیے کی کوئی ویڈیو دیکھ چکے ہیں۔گو کہ صحافتی میڈیم تو ہمیشہ سے تبدیل ہوتے آئے ہیں۔ صحافت اخبار سے ریڈیو، ریڈیو سے ٹی وی اور ٹی وی سے ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے تمام تر لوازمات سمیت شفٹ ہوتی چلی گئی۔

مگر اب کی بار ایک باریک مگر بہت واضع فرق نظر آرہا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے جتنے بھی میڈیم موجود تھے، وہ صحافی کے صحافتی وجود کے لیے خطرہ نہیں تھے۔ صحافی ہی خبر اور تجزیہ کا مالک ہوتا تھا۔ ''ایکسکلوسو‘‘ یا ''سکوپ‘‘ دینا کلی طور پر صحافی کا اختیار ہوتا تھا۔ مگر ڈیجیٹل میڈیا نے صحافی سے یہ انفرادیت چھین لی ہے۔

اب یہ ممکن ہے ایک ہی جلسے کی کوریج کرتے وقت ایک پیشہ ور صحافی سے زیادہ ساتھ کھڑے لڑکے یا لڑکی جو کسی صحافتی ادارے سے وابستہ نہیں بلکہ انفرادی طور پر کسی سوشل میڈیاایپلیکیشن پر اپنے اکاؤنٹ سے کوور کر رہا یا رہی ہے کے لائکس یا شیئرز زیادہ ہوں۔ یعنی اس کی خبر زیادہ لوگوں تک پہنچ رہی ہو۔ اور تو اور اسے کسی ایڈیٹر، ڈائریکٹر نیوز یا پیمرا کی پروا بھی نہیں ہوتی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خبر یا اطلاع پہ کسی کی اجارہ داری اصولی طور پر درست ہے یا رائے سازی کسی خاص ادارے کے کنٹرول میں ہی ہونی چاہیے تو ہر ذی شعور کا جواب ہو گا کہ نہیں خبر کیسے کسی کی ملکیت ہو سکتی ہے۔ آئین تمام شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے نہ کہ صرف صحافیوں کو۔

ایک اور فرق یہ سامنے آیا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سے پہلے صحافیوں کو خبر کے ردعمل کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کیوں کہ عوامی ردعمل کاکوئی طریقہ کار نہیں تھا۔

اور خط بنام مدیر یا لیٹر ٹو ایڈیٹر میں تنقید چھاپنے کا رواج ذرا کم ہی تھا۔ اب توادھر آپ ٹویٹ کرتے ہیں ادھر کمنٹس میں آپ کا حساب برابر کر دیا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے کے میڈیا کو بہت زعم تھا کہ عوام کی رائے سازی انہی کا اختیار ہے۔ عوامی رائے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے حکومتیں ''پی ٹی وی‘‘ جیسے اداروں کو استعمال کرتی تھیں۔

اب تو ہر شخص کے پاس میڈیم ہے۔ کیمرہ ہے، جگہ ہے، لوگوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ سو رائے پر اثر انداز ہونا اب صرف پیشہ ور صحافیوں کا ہی فن نہیں رہا۔آپ کسی بڑے سیاسی لیڈر کو مین سٹریم میڈیا سے بین کروا دیں لیکن آپ دیکھیں گے کہ اس کی مقبولیت یا عوام تک رسائی میں فرق نہیں آتا۔ اس صورتحال میں صرف وہ صحافی بقاء پا جائیں گے جنہوں نے خود کو نئی ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھال لیا ہے۔

آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ بڑی شخصیات پہلے صرف صحافیوں کو انٹرویو دیتی تھیں اب تو ان کے لیے بھی میدان کھلا ہے۔ یو ٹیوبرز، پاڈ کاسٹرز، وی لاگرز، ٹک ٹاکرز، اسٹینڈ اپ کمیڈینز نہ صرف سیاسی شخصیات کے انٹرویوز کرتے ہیں بلکہ سیاسی معاملات پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں اور ان کو دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد عام صحافیوں سے زیادہ ہے۔

اور یہ سب لوگ خبر یا تجزیہ کے مجوزہ اصولوں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے ہیں اور انہیں یہ صحافتی بے راہ روی کی راہ مین سٹریم میڈیا کے لوگوں نے ہی دکھائی ہے۔

جب بڑے چینلز، اخبارات اور صحافی سیاسی جماعتوں یا سیاسی لیڈروں کے بیانیے کے وکیل بن جائیں گے تو ان غیر تربیت یافتہ ''صحافیوں‘‘ کو کون روک سکتا ہے۔ صحافتی اقدار میں ''غیر جانبداری‘‘کے اصول کے پہلے قاتل بڑے بڑے میڈیا گروپس ہیں۔ اب وہ یہ گلہ نہیں کر سکتے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے لوگ غیر پیشہ وارانہ ہیں ہاں وہ آپ کے پریس کلب کے ممبر نہیں ہیں۔

وہاں آپ کی اجارہ داری ہے جیسے آپ نے میڈیا پڑھانے والے اساتذہ کو کبھی پریس کلب میں داخل ہونے نہیں دیا اسی طرح آپ ڈیجیٹل میڈیا کے لوگوں کے لیے بھی گیٹ بند کر سکتے ہیں۔ لیکن مین سٹریم میڈیا اور صحافیوں کے لیے خبر بلکہ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ خبر، تجزیے اور رائے سازی پر اب آپ کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پیشہ ور صحافی اب کوئی اور کام دیکھیں
  • جب بھی شیر آتا ہے سب کچھ کھا جاتا ہے
  • دنیا کی صلیب پر لٹکی ہوئی انسانیت
  • امن کے لیے مکالمہ ضروری
  • پانی روکنے کے لئے کوئی سٹرکچر تعمیر کیا تو پاکستان اسے تباہ کر دے گا
  • بھارت کے پاس دریاؤں کا پانی روکنے کی کوئی سہولت موجود نہیں تو پاکستانی دریاؤں کاپانی کہاں گیا؟ ماہرین نے سوالات اٹھادیے
  • بھارت کے پاس دریاؤں کا پانی روکنے کی کوئی سہولت موجود نہیں تو پاکستانی دریاؤں کاپانی کہاں گیا؟ ماہرین نے سوالات اٹھادیے
  • ہم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں ہوگا   ، خواجہ آصف کا بھارت کو دو ٹوک پیغام
  • سشمیتا اور ایشوریا کے درمیان تعلقات پر نئی بحث چھڑ گئی