Islam Times:
2025-05-09@21:37:03 GMT

جہاد کس قیادت میں

اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT

جہاد کس قیادت میں

اسلام ٹائمز: 71ء کی جنگ میں ہماری پاک فوج کو بھی جس طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑا، اس کی ایک وجہ اس کی ”شارب الخمر“ قیادت تھی۔ امام عالی مقام (ع) کو جب یزید کی بیعت کیلئے کہا گیا، تو آپؑ نے فرمایا ”میں اس کی بیعت کیسے کروں جو شارب الخمر (زیادہ شراب پینے والا) ہے اور کتوں سے کھیلتا ہے“۔ آج ہمارا مقابلہ دنیا کے نقشے پر دیکھی جانے والی واحد بت پرست قوم سے ہے۔ اس کے خلاف بھی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے حکمران اپنے گریبانوں میں جھانکیں، اپنی اصلاح کریں اور استغفار پڑھیں۔ آخر ”خدائے بخشندہء مھربان“ نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے سر پر کھڑے عذاب کو ٹال دیا تھا اور جناب حرؑ کو یزید ملعون کے لشکر سے نکال کر ہدایت کے رستے پر ڈال دیا تھا۔ تحریر: سید تنویر حیدر

رسول خدا (ص) اور آئمہ ھدیٰ (ع) کے فرامین کی روشنی میں اسلام دشمنوں کے خلاف ”جہاد“ میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ”صالح قیادت“ کا ہونا اشد ضروری ہے۔ صدر اسلام سے لے کر آج تک ظالمانہ اور کافرانہ طاقتوں کے خلاف جو جنگیں لڑی گئیں، ان میں امیر لشکر کا اہم کردار تھا۔ جہاں بھی قیادت میں ذرا اخلاقی ضعف تھا، وہاں مسلمانوں کے لشکر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ خیبر میں لشکر اسلام کے بار بار اور پے در پے حملوں کے باوجود قلعہ خیبر فتح نہیں ہو پا رہا تھا، لیکن بالآخر مسلمانوں کو فتح تب نصیب ہوئی، جب علم اس کے ہاتھ میں آیا ”جو خدا کو دوست رکھتا تھا اور خدا اسے دوست رکھتا تھا“۔ فی زمانہ بھی جب ہم آج کے سب سے بڑے طاغوت امریکا اور غاصب اسرائیل کے خلاف مسلمانوں کی لڑی جانے والی جنگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں  کہ ان جنگوں میں مسلم افواج کی شکست کا بڑا سبب مسلمانوں کی غیر صالح قیادت تھی۔ اس ضمن میں درج ذیل کچھ مثالیں زیر غور ہیں:

1) طالبان کی پہلی حکومت کو ختم کرنے کیلئے جب امریکا اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا تو طالبان کے امیرالمومنین ملا عمر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ”دنیا دیکھے گی کہ خدا ہماری کس طرح مدد کرتا ہے“، لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ خدا کی مدد طالبان کے شامل حال نہ ہوئی اور طالبان کا دفاع ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ طالبان مزار شریف سے پسپا ہو کر کابل آئے اور پھر کابل میں بغیر مقابلہ کیے قندھار کی طرف فرار ہو گئے اور پھر وہاں دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے اور اس کے بعد جو کچھ ان کے ساتھ ہوا، وہ ایک الگ داستان ہے۔

2) عراق کا صدر صدام حسین جو خود کو ”قادسیہ کا ہیرو“ کہتا تھا، اس کے تمام دعوؤں کے برعکس اس کی فوج امریکا کے سامنے ڈھیر ہو گئی اور وہ خود تلاش بسیار کے بعد ایک گٹر سے برآمد ہوا۔ حالانکہ عراقی عوام کو امید تھی کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی، ان ایام میں عراق کے صحراؤں میں اٹھنے والا ریت کا طوفان امریکی جارحین کی آنکھوں کو اندھا اور ان کے اسلحے کو ناکارہ کر دے گا، لیکن پھر ہوا یہ کہ وہ طوفان جو ہر سال انہی دنوں میں اٹھتا تھا معمول سے ہٹ کر کہیں ریت کے بستر پر سویا رہا، جبکہ اس کے مقابلے میں امریکا نے 1980ء کے جن ایام میں ایران پر حملہ کرنا چاہا، ان ایام سے متعلق اپنے محکمہ موسمیات سے رپورٹ چاہی۔ رپورٹ کے مطابق امریکا ایران کے جس صحرا میں اپنے طیارے اتارنا چاہتا تھا اس صحرا میں ان دنوں کبھی کوئی طوفان نہیں آیا تھا، لیکن جب منصوبے کے مطابق امریکی طیاروں نے ایران کے ”طبس“ کے صحرا میں اترنے کی کوشش کی، تو عین اس وقت  غیر متوقع طور پر ایک ایسا طوفان اٹھا، جس کی وجہ سے امریکی طیارے آپس میں ہی ایک دوسرے سے ٹکرا کر سرنگوں ہوگئے۔

3) عربوں کی تمام قیادتوں نے باہم مل کر اسرائیل سے کئی جنگیں لڑیں لیکن ہر بار شکست کھائی۔ اس کے بعد فلسطین کی سیکولر قیادت یاسر عرفات نے فلسطینی جنگجوؤں کی قیادت سنبھالی اور ایک عرصے کی جدوجہد کے بعد ناکام ہو کر اپنے ہاتھ میں اٹھایا ہوا اسلحہ پھینک کر اس کی جگہ ”زیتون کی شاخ“ اٹھا لی اور اسرائیل سے ذلت آمیز ”اوسلو امن معاہدہ“ کر لیا، لیکن انہی فلسطینی عوام کی قیادت جب ایک دینی جماعت ”حماس“ کے ہاتھوں میں آئی، تو اس نے انہی مظلوم فلسطینوں کے ہاتھوں ”طوفان اقصیٰ“ برپا کرکے اسرائیل کی سلامتی پر سرخ نشان لگا دیا۔ اسی طرح ”حزب اللہ“ کی مومن اور صالح قیادت کے تحت اسرائیل سے لڑی جانے والی جنگ میں اسرائیل کو اپنی زندگی کی پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور لبنان چھوڑنا پڑا۔ 

4) شام کا صدر بشارالاسد بھی ایک سیکولر حکمران تھا اور ایک لادین پارٹی (بعث پارٹی) کا سربراہ تھا اور بالآخر اسرائیل اور امریکا کی زیرسرپرستی لڑنے والے تکفیری دہشتگردوں کے ایک ہی حملے میں چاروں شانے چت ہو گیا۔ 

5) 71ء کی جنگ میں ہماری پاک فوج کو بھی جس طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑا، اس کی ایک وجہ اس کی ”شارب الخمر“ قیادت تھی۔ امام عالی مقام (ع) کو جب یزید کی بیعت کیلئے کہا گیا، تو آپؑ نے فرمایا ”میں اس کی بیعت کیسے کروں جو شارب الخمر (زیادہ شراب پینے والا) ہے اور کتوں سے کھیلتا ہے“۔ آج ہمارا مقابلہ دنیا کے نقشے پر دیکھی جانے والی واحد بت پرست قوم سے ہے۔ اس کے خلاف بھی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے حکمران اپنے گریبانوں میں جھانکیں، اپنی اصلاح کریں اور استغفار پڑھیں۔ آخر ”خدائے بخشندہء مھربان“ نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے سر پر کھڑے عذاب کو ٹال دیا تھا اور جناب حرؑ کو یزید ملعون کے لشکر سے نکال کر ہدایت کے رستے پر ڈال دیا تھا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کا سامنا کرنا پڑا شارب الخمر جانے والی کی بیعت کے خلاف دیا تھا تھا اور کے بعد اور اس

پڑھیں:

بھارتی قیادت کی عقل دشمنی

غصے، جنون اورہیجان میں کیے گئے فیصلے ہمیشہ تباہی کا باعث بنتے ہیں، پاکستان پر حملہ بھارتی قیادت کی عقل دشمنی کی بہترین مثال ہے۔پہلگام واقعہ بھارتی قیادت کے اعصاب، ہوشمندی اور تدبر کا امتحان تھا جس میں وہ بری طرح فیل ہوئی ہے۔

چھ اور سات مئی کی درمیانی شب بھارت نے پاکستانی سرزمین پر میزائل داغ کر ثابت کردیا کہ مذہب اور قوم پرست نظریات کی حامل قیادت دانشمندانہ فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتی، پہلگام واقعہ کئی سربستہ راز لیے ہوئے ہے، پاکستان نے آفر بھی کی کہ مشترکہ یا غیرجانبدار عالمی ٹیم تحقیقات کرے تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ واقعہ کرانے والی قوتیں کون سی ہیں لیکن بی جے پی کوئی صائب فیصلہ نہ کرسکی۔ بھارت کے انتہاپسند میڈیا نے ریاست اور سیاست کو بے دست و پا کردیا،ارنب گوسوامی، گورو آریا، سدھیر چوہدری اور ان جیسے نیوز اینکرز ، رپورٹرز اور بی جے پی فلسفہ کے پرچارک تجزیہ کاروں نے شمالی ہند میں آگ لگا دی، فیک نیوز، تضحیک ،نفرت کو پروان چڑھایا، راہول گاندھی اور سماج وادی پارٹی کے لیڈر سینسی ایبل بات کرتے ہیں لیکن بی جے پی کے گودی میڈیا کے اینکرز اور میزبانوں نے ان سیاستدانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا۔

میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بھارتی میڈیا میں انڈر ورلڈ کی بھاری انوسٹمنٹ ہے۔ انڈر ورلڈمحض ایک ٹرم یا اصطلاح نہیں ہے، یہ ایک سوچ، فکر اور فلسفہ ہے، ایک معاشی ماڈل ہے،اس معاشی و اقتصادی ماڈل کی وسعت و حجم قانونی و آئینی معیِشت سے کہیں زیادہ ہے۔انفرمیشن ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ٹولز کو اگر کوئی صحیح معنوں میں استمعال کررہا ہے تو وہ انڈر ورلڈ ہے۔اس نے ریاستوں کے سسٹمز کو کرپٹ کردیا ہے بلکہ کھوکھلا کردیا ہے۔دہشت گرد گروہ اور جرائم پیشہ گروہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے اپنا ٹارگٹ حاصل کر رہے ہیں اور ان کا ٹارگٹ آگنائزڈ سسٹم کو کمزور کرنا، انھیں کرپٹ کرنا اور ان کے سسٹم کو اپنے حق میں استعمال کرنا تاکہ کالی دولت پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے۔ بہرحال یہ موضوع گہرا اور پیچیدہ ہے، اس پر بات پھر کبھی سہی ، سردست بھارت کی شرارت پر ہی توجہ رکھتا ہوں ۔

وزیراعظم میاں شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوچکا ہے، اس میں پاک فوج کو مناسب کارروائی کرنے کے مکمل اختیارات دے دیے گئے ہیں‘ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں یہ اجلاس دو گھنٹے تک جاری رہا‘ یقیناً اہم ترین فیصلے کر لیے گئے ہیں۔ 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات بھارت نے آزاد کشمیر میں مظفر آباد، کوٹلی، باغ جب کہ پنجاب میں احمد پورشرقیہ، مریدکے اور بہاولپور سمیت 8 مقامات پر اپنی فضائی حدود سے میزائل فائر کیے اور سویلین آبادی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ چھبیس افراد شہید ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔پاک فوج نے ان حملوں کا فوری اور منہ توڑ جواب دیا جس کے بعد دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا ، بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، بھارت کے 5 طیارے گرائے اور بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کو تباہ کردیا گیا۔

  قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ بھارت کا اقدام بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی اقدامات کے زمرے میں آتا ہے، معصوم شہریوں، خصوصاً خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانا انسانیت کے خلاف جرم ہے، بھارتی اقدام بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، شہری علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، مساجد اور تنصیبات کو نقصان پہنچا۔اعلامیے کے مطابق نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو نشانہ بنانا عالمی کنونشنز کی خلاف ورزی ہے، عالمی برادری بھارت کو غیرقانونی اقدامات پر جوابدہ بنائے، پاکستان امن کا حامی ہے لیکن خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، پاکستان کے معصوم عوام پر حملہ نا قابل برداشت اورنا قابل قبول ہے، بھارت نے ایک بار پھر غیر دانشمندانہ طرز عمل سے خطے میں آگ بھڑکائی ہے، نتائج کی تمام تر ذمے داری بھارت پر عائد ہو گی، پاکستان کسی بھی وقت، جگہ اور طریقے سے اپنے معصوم شہریوں کی شہادت کا بدلہ لینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

بھارت کی جارحیت اور اشتعال انگیزی نے واضح کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کو سب سے بڑا خطرہ نئی دہلی کی انتہا پسند پالیسیوں سے لاحق ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے جس طرح داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان دشمن بیانیے کو ہوا دی ہے، وہ نہ صرف سفارتی آداب کے منافی ہے بلکہ خطے کی سلامتی کو بھی داؤ پر لگا چکی ہے۔

مودی کی تقاریر ہوں یا بی جے پی کے دیگر رہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات، ان سب کا مقصد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان پر دباؤ بڑھانا اور دنیا کو ایک غلط تصور دینا ہے کہ بھارت مظلوم ہے اور پاکستان جارح ہے۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔بھارت کی پالیسی اب محض دفاعی نہیں رہی بلکہ جارحانہ ہوگئی ہے۔ موجودہ بھارتی قیادت کے ذہن میں ایک شدت پسندانہ نظریہ کارفرما ہے، جو علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ عالمی برادری کی خاموشی اور اقتصادی مفادات کی خاطر بھارت کی آنکھ بند کر کے حمایت، ان تمام خطرات کو مزید بڑھا رہی ہے۔ حال ہی میں پہلگام کے مقام پر مبینہ فالس فلیگ آپریشن نے ایک بار پھر اس خطرناک رجحان کی نشاندہی کردی ہے جو بڑی جنگ کا خطرہ بن چکا ہے۔

بھارت کا پرانا وطیرہ رہا ہے کہ داخلی بحرانوں یا انتخابی دباؤ سے نکلنے کے لیے پاکستان کے خلاف مصنوعی الزامات تراشے جائیں، جھوٹے حملوں کا ڈراما رچایا جائے اور عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے۔ اس بار بھی کچھ مختلف نہیں ہوا۔ پہلگام واقعے کے فوری بعد جس تیزی سے بھارت نے انگلی پاکستان کی طرف اٹھائی اور اپنا میڈیا ہتھیار بنا کر فضا کو زہر آلود کیا، وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس واقعے کے پیچھے خود بھارتی اداروں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس معاملے پر بریفنگ بھی دی اور سلامتی کونسل کے ارکان نے بھی پاکستان کا ساتھ دیا لیکن بھارت نے کسی کی نہیں سنی۔ بھارت خطے کے امن، عالمی قوانین اور ایٹمی استحکام کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔

بھارت نے ماضی میں بھی کئی مواقع پر جھوٹے الزامات، فالس فلیگ آپریشنز اور جعلی سرجیکل اسٹرائیکس کے ذریعے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پلوامہ واقعہ اور اس کے بعد ہونے والی مبینہ کارروائی میں بھی یہی رویہ دیکھنے میں آیا۔ بعد میں خود بھارتی میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں نے ان کارروائیوں پر سوالات اٹھائے۔ پہلگام کا حالیہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے ذریعے بھارت عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور داخلی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے درپے ہے۔خطے کے کروڑوں عوام جنھیں بنیادی سہولیات، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل کا سامنا ہے، وہ اس کشیدگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان کی مسلح افواج ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہماری ایئر فورس، نیوی اور آرمی نے وقتاً فوقتاً یہ ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا سکتی ہیں بلکہ ہر محاذ پر اپنی برتری کو برقرار رکھ سکتی ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے افواج پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کیا، جو قومی فہم و فراست کا مظہر ہے۔

پاکستان، جو پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور مشکل جنگ لڑ چکا ہے، کسی بھی صورت میں ایک نئی جنگ کا خواہاں نہیں۔ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے ہمیشہ امن کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور بارہا بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی حارحانہ پالیسی کا نوٹس لے۔ تاہم، بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ موجودہ حالات میں قومی یکجہتی محض ایک نعرہ نہیں بلکہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان کے اندر اختلافات کو ہوا دے کر اسے اندر سے کمزور کیا جائے، لیکن حالیہ دنوں میں جس طرح سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ملکی سلامتی پر یکجہتی کا مظاہرہ کیا، وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کو کمزور سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔اس نازک صورت حال میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا کا جنگی پراپیگنڈہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے جب کہ پاکستانی میڈیا نے اب تک ذمے دارانہ رویہ اپنایا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اشتعال انگیزی عروج پر ہے ۔ اگر عوامی سطح پر اشتعال پھیلایا جاتا رہا تو حکومتیں بھی دباؤ میں آ کر غلط فیصلے کر سکتی ہیں۔ بھارت کے جنونی اور انتہا پسند میڈیا نے یہی کام کیا ہے۔پڑھا لکھا تو دور کی بات ان پڑھ دیہاتی بھی یہ جانتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیںہوتی تو پھر یہ دانا دانشور اور سوٹ میں ملبوس یہ کونسی مخلوق ہے جو اٹھتے بیٹھتے جنگ کا بگل بجاتے ہیں۔

عہد قدیم میں جنگیں عصبیت ‘عقیدے اور نفرتوںکی آگ بھڑکا کر لڑی جاتی تھیں حالانکہ اصل ہدف متحارب ملک کے وسائل اور خزانے پر قبضہ کرنا ہوتا تھا ‘عصبیتیں اور نفرتیں ابھارنے کا کام پروہت اور پجاری کیا کرتے تھے۔بادشاہ اور حملہ آور مخالفوں کا قتل اور مال جائز قرار دینے کے لیے انھیں منصب عطا کرتے تھے۔بھارت میں بی جے پی کی قیادت یہی کام کر رہی ہے۔ورنہ پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے میں کیا حرج تھا۔ریاست بہار کا الیکشن واضح کر دے گا کہ انتہا پسندی کا چورن بکتا ہے یا ریاست کا ووٹر یہ چورن خریدنے سے انکار کر دیتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دشمن کے کسی بھی مس ایڈونچر کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں، پاک بحریہ
  • بھارت اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پر الزام لگا رہا ہے: ترجمان پاک فوج
  • ہمیں یمن سے جنگبندی کیلئے اسرائیل کی رضامندی کی ضرورت نہیں، امریکی ڈپلومیٹ
  • اسرائیل کیساتھ بالواسطہ مذاکرات کیلئے تیار ہیں، شامی صدراحمد الشرع
  • خطیب جمعہ کے خطبوں میں جذبہ جہاد کو فروغ دیں: مفتی تقی عثمانی
  • بھارتی قیادت کی عقل دشمنی
  • پاک بھارت کشیدگی،برطانیہ نے اپنے شہریوں کیلئے ٹریول الرٹ جاری کر دیا
  • ’پاکستان نے جارحیت میں کبھی پہل نہیں کی لیکن اپنے دفاع کیلئے جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے‘
  • غیور قوم اپنے وطن کے دفاع کیلئے ہر قیمت چکانے کو تیار ہے، سید علی رضوی