پاکستان کی فضائی حدود تمام پروازوں کے لیے بند
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
پاکستان ائیرپورٹس اتھارٹی نے نوٹم جاری کیا ہے جس کے مطابق پاکستان کی فضائی حدود تمام پروازوں کے لیے کل دن بارہ بجے تک بند رہے گی۔
پاکستان ائیرپورٹس اتھارٹی کے مطابق پاکستان نے ملکی فضائی حدود کو تمام قسم کی پروازوں کے لیے عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔اتھارٹی کی طرف سے جاری کئے گئے باضابطہ نوٹم میں کہا گیا ہے کہ تمام ائیر پورٹس پر فلائٹ آپریشن کل دن 12 بجے تک معطل رہے گا۔ائیرپورٹس اتھارٹی کے مطابق یہ اقدام سکیورٹی صورتِ حال اور قومی فضائی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، تمام ملکی اور غیر ملکی ایئرلائنز کو صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ساختی اصلاحات کے بغیر قلیل مدتی غیر ملکی سرمایہ کاری عارضی قرار
لاہور:اگرچہ حکومت معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہے تاہم صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک گہرے ساختی اصلاحات نافذ نہیں کی جاتیں، پاکستان میں قلیل مدتی سرمایہ کاری کے بہاؤ محض عارضی اور غیر پائیدار رہیں گے۔
مقامی صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ چین، متحدہ عرب امارات اور بیلاروس سے حالیہ سرمایہ کاری کے وعدے حوصلہ افزا ضرور ہیں، لیکن انھیں معاشی لحاظ سے انقلابی نہیں کہا جا سکتا۔
ان کے مطابق یہ نئے منصوبے زیادہ تر سرمائے پر مبنی ہیں، جدت یا تحقیق پر نہیں، اور وہ ان کثیرالقومی کمپنیوں کے انخلا کا ازالہ نہیں کر سکتے جنھوں نے ملک میں تحقیق، ترقی اور کارپوریٹ گورننس کے اعلیٰ معیارات قائم کیے تھے۔
ایس ایم انجینئرنگ کے سی ای او ایس ایم اشتیاق نے کہاچینی صنعتی منصوبوں اور یو اے ای کی بینکاری دلچسپی کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے مگر سانوفی اور پی اینڈ جی جیسی کمپنیوں کے انخلا سے ملک کو ادارہ جاتی نقصان پہنچا ہے جس کا ازالہ وقتی سرمایہ کاری سے ممکن نہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سے کئی بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنا کاروبار بند یا محدود کیا ہے جن میں سانوفی، پراکٹر اینڈ گیمبل (P&G) اور گلیکسو اسمتھ کلائن کنزیومر ہیلتھ کیئر شامل ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر میں ٹیلی نار اور کریم جیسے ادارے بھی مارکیٹ سے نکل چکے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال 25ء میں ایف ڈی آئی کا حجم تقریباً 1.84 ارب ڈالر رہا، جو گزشتہ سال کے 1.9 ارب ڈالر سے کچھ کم ہے، جس سے سرمایہ کاروں کے غیر یقینی اعتماد اور کمزور کاروباری ماحول کا پتہ چلتا ہے۔
اشتیاق کا کہنا تھا کہ حالیہ غیر ملکی سرمایہ کاری، بالخصوص توانائی اور مالیاتی شعبوں میں، زیادہ تر سرکاری یا دو طرفہ منصوبوں جیسے سی پیک سے منسلک ہیں۔
یہ مارکیٹ پر مبنی سرمایہ کاری نہیں، اور یہ لازمی طور پر ٹیکنالوجی کی منتقلی، مقامی جدت یا پائیدار روزگار تخلیق میں مددگار نہیں بنتی۔صنعتی ماہرین کے مطابق بڑی دواساز کمپنیوں کا انخلا صرف زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ساختی کمزوریوں جیسے سخت قیمت کنٹرول اور کمزور دانشورانہ املاک کے تحفظ کے باعث بھی ہے۔
ٹیلی کام سیکٹر میں ملازمتوں میں کمی اگرچہ عالمی کاروباری تنظیم نو کا حصہ ہے تاہم یہ رجحان پاکستان میں پائیدار سرمایہ کاری کے فقدان کا اشارہ ضرور دیتا ہے۔
مارکیٹ کے سینئر تجزیہ کار محمد سلمان کے مطابق پاکستان کی ایف ڈی آئی پالیسی میں اب بھی پیش بینی اور شعبہ جاتی گہرائی کی کمی ہے۔ ہم ردعمل پر مبنی پالیسی سازی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔
حکومتیں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے وقتی مراعات دیتی ہیں مگر کاروبار برقرار رکھنے کے لیے پائیدار ماحول فراہم نہیں کرتیں۔
جب تک پالیسیاں مستقل، ٹیکس نظام شفاف اور قانونی نفاذ مضبوط نہیں ہوگا، پاکستان قلیل مدتی سرمایہ کار تو کھینچ لے گا مگر طویل مدتی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کو کھو دے گا۔حکومتی اداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ توانائی، انفراسٹرکچر اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں ملک مخصوص سرمایہ کاری کے لیے مختلف ممالک سے رابطے میں ہیں۔
تاہم اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ توجہ اب بھی بڑے سرمائے والے منصوبوں پر ہے، نہ کہ علم و تحقیق پر مبنی شعبوں جیسے آئی ٹی یا فارماسیوٹیکل پر، جو پائیدار اقتصادی اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔
ایک اور صنعت کار نے کہا کہ پاکستان میں مینوفیکچرنگ اور برآمدات کے شعبوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، لیکن جب تک معاشی عدم استحکام اور زرِ مبادلہ میں غیر یقینی صورتِ حال برقرار رہے گی، سرمایہ کاروں کا آنا جانا ایک معمول رہے گا تبدیلی نہیں آئے گی۔
ماہرینِ معیشت اور صنعت کار متفق ہیں کہ صرف غیر ملکی سرمایہ کافی نہیں۔ حقیقی اعتماد کی بحالی کے لیے اصلاحات پر مبنی طرزِ حکمرانی، کاروبار میں آسانیاں، اور سرمایہ کاروں کے حقوق کا تحفظ ناگزیر ہے۔