جنوبی ایشیا میں جوہری طاقت کے حامل دو ہمسائیہ ممالک کے درمیان دنیا کی پہلی ڈرون جنگ چھڑنے کے بعد اب سیز فائر کا اعلان ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر حالیہ کشیدگی کے دوران ڈرون اور میزائل حملے کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے‘‘بی بی سی‘‘کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون حملے دہائیوں پرانی دشمنی میں ایک نئے اور خطرناک موڑ کا آغاز ہیں جس میں دونوں اطراف سے روایتی گولہ باری کے ساتھ ساتھ ایک متنازع اور کشیدہ سرحد کے پار ایسے ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا گیا جو فضا میں اڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
خاموشی سی اور ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلنے والے ڈرون، جن کے استعمال کی تردید کرنا آسان ہے، انڈیا اور پاکستان کے دہائیوں پرانے تنازع میں ایک نئے باب کا اضافہ ہیں۔
جہارا مٹیسک امریکی نیول وار کالج میں پروفیسر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا اور پاکستان کا تنازع ایک نئے ڈرون دور میں داخل ہو رہا ہے جس میں نظروں سے اوجھل آنکھیں اور درست اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت یہ طے کر سکتی ہیں کہ تنازع بڑھے گا یا نہیں۔ اسی لیے جنوبی ایشیا کے متنازع آسمانوں میں جو ملک ڈرون جنگ کی صلاحیت پر عبور حاصل کر لے گا وہی اس کی سمت کا تعین بھی کرے گا۔‘
پاکستانی حکام کی جانب سے ان ڈرونز، جو مبینہ طور پر اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرون ہیں، کو مختلف طریقوں سے گرانے جانے کا دعوی کیا گیا۔ دوسری جانب بھارت نے دعویٰ کیا تھا ان ڈرون سٹرائیکس کے نتیجے میں پاکستان میں متعدد دفاعی ریڈار سسٹم ناکارہ بنائے گئے جن میں سے ایک لاہور میں تھا۔ تاہم پاکستان نے اس کی تردید کی تھی۔
لیزر گائیڈڈ میزائل، ڈرون اور یو اے ویز جدید دور کے میدان جنگ کا حصہ بن چکے ہیں جن کی مدد سے عسکری کارروائیوں کی افادیت اور اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں خاطرخواہ اضافہ ہوتا ہے۔ ان کی مدد سے فضائی حملوں کے لیے اہداف کا درست طریقے سے تعین کیا جا سکتا ہے اور اگر ان پر اسلحہ لگا ہو تو پھر ان کی مدد سے اہداف کو نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ڈرونز کو دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو دبانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ دوسرے ملک کی فضا میں داخل ہو کر دشمن کے ریڈار کا پتہ چلا سکتے ہیں اور پھر اِن ریڈارز کو اینٹی ریڈی ایشن میزائل یا پھر کسی اور ڈرون کی مدد سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
پروفیسر جہارا مٹیسک کا کہنا ہے کہ ’یوکرین اور روس نے جنگ کے دوران ایسا ہی کیا ہے۔ ٹارگٹ اور ٹرگر کرنے کی دوہری صلاحیت ڈرون کو اہم بناتی ہے جو لڑاکا طیاروں کو خطرے میں ڈالے بغیر فضائی دفاعی نظام کو متاثر کر سکتا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے پاس موجود ڈرون کی اکثریت اسرائیلی ساختہ ہے جن میں ’آئی اے آئی سرچر‘ اور ’ہیرون‘ کے علاوہ ’ہارپی‘ اور ’ہیروپ لوئٹرنگ ایمونیشن‘ شامل ہیں جو کہ ڈرون ہونے کے ساتھ ساتھ میزائلوں کا کام بھی انجام دیتے ہیں اور خودکار نگرانی اور انتہائی درست نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
خاص طور پر ہاروپ کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انڈیا کی جنگی حکمت عملی اب مہنگے اور خاص طور پر ہدف کو نشانہ بنانے والے حملوں کی طرف بڑھ رہی ہے جو جدید جنگوں میں لوئٹرنگ میزائلز کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ہیرون ڈرون کو انڈیا امن اور جنگ دونوں کے دوران فضا کی بلندی میں موجود اپنی آنکھوں کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ’آئی اے آئی سرچر ایم کے ٹو‘ ڈرون، جو 18 گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے، 300 کلومیٹر تک فاصلہ طے کر سکتا ہے اور سات ہزار میٹر کی بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔
بھارت نے حال ہی میں امریکہ سے ’ایم کیو نو بی پریڈیٹر ڈرون‘ حاصل کرنے کے لیے چار ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ ڈرون مسلسل 40 گھنٹے تک 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔ اس کے حصول سے انڈیا کی ڈرون صلاحیت میں کافی اضافہ ہو گا۔
اس کے علاوہ بھارت ’اس سورام‘ صلاحیت کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے جس کے تحت ایک بہت بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے ڈرون بھیج کر دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کر دیا جاتا ہے جس کے بعد لڑاکا طیاروں کو دراندازی کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
لاہور سے دفاعی تجزیہ کار اعجاز حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان کے پاس موجود ڈرونز کی صلاحیت بھی وسیع اور متنوع ہے جس میں غیر ملکی اور مقامی سطح پر تیار شدہ ڈرون شامل ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان کے پاس ’تقریبا ایک ہزار ڈرون ہیں جن میں چینی سی ایچ فور اور ترکی کے بیراکتر آقنجی کے علاوہ مقامی براق اور شاہپر ڈرون شامل ہیں۔ اُن کے مطابق پاکستان نے لائٹرنگ میونیشن کی صلاحیت بھی حاصل
بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں متعدد دفاعی ریڈار ناکارہ بنائے گئے جن میں سے ایک لاہور میں تھا۔ تاہم پاکستان نے اس کی تردید کی ۔ اعجاز حیدر کے مطابق ’پاکستانی فضائیہ تقریبا ایک دہائی سے اس صلاحیت کو اپنے نظام میں شامل کرنے پر کام کر رہی ہے۔‘ ان کے مطابق ایک اہم جزو ایسے ’ونگ مین ڈرون‘ ہیں جو لڑاکا طیاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پروفیسر جہارا کا ماننا ہے کہ ’اسرائیل کی تکنیکی معاونت، ہیروپ اور ہیرون ڈرون کی فراہمی، بھارت کے لیے اہم رہی جبکہ پاکستان کا ترکی اور چین پر انحصار اسلحہ کی دوڑ کو ثابت کرتا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ڈرونز کا استعمال پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع میں یہ ایک نیا موڑ ہے تاہم روس اور یوکرین کے درمیان ڈرون کی جنگ سے یہ مختلف ہے۔ ان کے مطابق روس اور یوکرین کی جنگ میں ڈرون کو عسکری کارروائیوں میں مرکزی کردار حاصل ہو چکا ہے اور جاسوسی سمیت اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہزاروں ڈرون استعمال کیے گئے ہیں۔
انڈیا کے دفاعی تجزیہ کار منوج جوشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لڑاکا طیاروں یا بھاری میزائلوں کے بجائے ڈرون کا استعمال ایک کم تر عسکری راستہ ہے۔ ان کے مطابق ڈرون کم اسلحہ لے کر جا سکتے ہیں تو یہ ایک محدود کارروائی ہوتی ہے۔ تاہم اگر یہ کسی وسیع فضائی کارروائی کا آغاز ہوں تو پھر معاملہ بدل جاتا ہے۔‘
اعجاز حیدر کا ماننا ہے کہ انڈیا کے زیرانتظام جموں میں حالیہ کارروائی پاکستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر عسکری کارروائی نہیں تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان نے جموں میں ڈرون حملے کی تردید کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع میں یہ ایک نیا موڑ ہے تاہم روس اور یوکرین کے درمیان ڈرون کی جنگ سے یہ مختلف ہے
ماہرین کا ماننا ہے کہ یوکرین اور روس میں میدان جنگ کو یکسر بدلنے والے ڈرون کا پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں محدود اور علامتی کردار رہا ہے۔ منوج جوشی کے مطابق ’ہم جو ڈرون جنگ دیکھ رہے ہیں یہ زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے اور شاید یہ ایک بڑے تنازع کا آغاز ہو۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’یہ تنازع کم ہونے یا بڑھنے، دونوں کا اشارہ ہو سکتے ہیں کیوںکہ دونوں کا ہی امکان موجود ہے۔ ہم ایک ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے یہ تنازع کیا رُخ اختیار کرتا ہے، واضح نہیں۔‘
اگرچہ بھارت نے سرحد پار کیے بغیر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون استعمال کیے ہیں تاہم اس طریقے سے بھی چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔
پروفیسر جہارا کے مطابق ’ڈرون جاسوسی اور سٹرائیک کے راستے فراہم کرتا ہے جس میں تنازع کو بڑھانے کا خطرہ کم ہوتا ہے لیکن ایک نئی صورتحال بھی پیدا ہوتی ہے جس میں ہر وہ ڈرون جو گرایا جائے یا ہر وہ ریڈار جو مفلوج کیا جائے، ایک ایسی ممکنہ صورت حال پیدا کر سکتا ہے جس میں تناؤ دو جوہری طاقت کے حامل ممالک کے درمیان کسی بھی وقت بڑھ سکتا ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: اہداف کو نشانہ بنانے ماہرین کا کہنا ہے کہ لڑاکا طیاروں پاکستان اور ان کے مطابق پاکستان نے کا استعمال استعمال کی جا سکتا ہے کر سکتا ہے کی صلاحیت کے درمیان ہے جس میں کی مدد سے بھارت نے کی تردید انڈیا کے کے علاوہ کرتا ہے ایک نئے ڈرون کی یہ ایک کے لیے ہے اور کی جنگ کیا ہے

پڑھیں:

زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2025ء) زبانی تاریخ کا تعلق فرد کی یادداشت اور حافظے سے ہوتا ہے۔ انسان کے ذہن میں دور اور نزدیک کے واقعات اور اشخاص کی یادیں ہوتی ہیں۔ ہمارا ذہن طویل عرصے میں ہونے والے واقعات میں یا تو کوئی اضافہ کرتا ہے یا اس کے کچھ حصوں کو یادداشت سے نکال دیتا ہے۔ دوسری وہ زبانی تاریخ ہوتی ہے جس کو بیان کرنے والا شخص اس کا عینی شاہد ہوتا ہے۔

ایسے کسی فرد سے لیے گئے انٹرویو میں دیکھا جاتا ہے کہ اس کے بیان میں کوئی تضاد ہے یا نہیں۔ اس کا تعلق انٹرویو لینے والے پر بھی ہوتا ہے کہ اس سے وہ سوالات کرے جن کا تعلق اس کی ذات اور واقعات سے ہو۔

زبانی تاریخ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ تاریخی شخصیات کے بارے میں ہے۔

(جاری ہے)

ان کے بارے میں ان کے اپنے عہد اور بعد میں جو زبانی بیانات مشہور ہوئے وہ لوک کہانیوں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔

مثلاً مغل بادشاہ اکبر کے بارے میں ایسی بہت سی روایتیں ہیں جن کا تعلق مستند تاریخ سے نہیں ہے۔ ان روایتوں کے ذریعے اکبر کی رواداری کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ ایک بار جب وہ پیدل معین الدین چشتی کے مزار کی زیارت کے لیے جا رہا تھا تو راستے میں اسے ایک مندر سے گانے کی آواز سنائی دی۔ وہ اس آواز سے متاثر ہو کر مندر میں گیا جہاں میرا بائی بھجن گا رہی تھی۔

وہ اسے سنتا رہا۔ جب اس کا بھجن ختم ہوا تو اکبر نے اپنا ہیروں کا ہار اتار کر اس کے گلے میں ڈال دیا اور خاموشی سے مندر سے باہر آ گیا۔ میرا بائی کو بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہار اکبر نے اس کے گلے میں ڈالا تھا۔

ڈاکٹر مبارک علی کی مزید تحاریر:
کیا تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے؟

خاموشی – ڈاکٹر مبارک علی کی تحریر

اکبر سے ایسی دیگر کئی کہانیاں منصوب ہیں۔

اس کے دربار میں بیربل اور ملا دوپیازہ کا ذکر ہے جن کے لطیفے مشہور ہیں مگر ان کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ زبانی تاریخ میں اولیاء اور پیروں کی شفقت کے بارے میں ان کے مریدوں نے ان کی کرامات فیاضی اور رواداری کی روایت کے ذریعے ان کو عام لوگوں میں مقبول بنا دیا ہے۔ اس کا فائدہ سجادہ نشینوں کو بھی ہے جو کئی نسلوں سے مریدوں سے عطیات وصول کرتے ہیں۔

سیاست میں حصہ لے کر لیڈر بن جاتے ہیں اور اپنے پیر یا ولی کا عرس منا کر اس کی یاد کو باقی رکھتے ہیں۔

زبانی تاریخ کے ذریعے سیاسی شخصیتوں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ ہندوستان میں سبھاش چندر بوس جو برطانوی حکومت کے سخت مخالف تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ فرار ہو کر جرمنی چلے گئے۔ وہاں سے ریڈیو پر برطانوی حکومت کی مخالفت میں تقریریں کرتے رہے۔

وہاں سے یہ جاپان چلے گئے اور آزاد ہند فوج کی بنیاد رکھی۔ یہ ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں مر گئے مگر ہندوستان میں ان کے چاہنے والوں نے ان پر یقین نہیں کیا اور یہ مشہور کر دیا کہ وہ زندہ ہیں اور بنگال کے ایک دور دراز گاؤں میں بحیثیت سنیاسی کے زندگی گزار رہے ہیں۔ عقیدت مند لوگ اپنے ہیرو کی موت کا یقین نہیں کرتے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ ہٹلر مرا نہیں ہے بلکہ روپوش ہو گیا ہے اور دوبارہ آ کر انگریزوں سے جنگ کرے گا۔

سیموئل رافیل نے اپنی کتاب ’ہسٹری اینڈ پولیٹکس‘ میں کئی مؤرخین کے مضامین زبانی تاریخ کے سلسلے بھی شامل کیے ہیں۔ ان میں ایک مضمون گیلی پولی کی جنگ پر ہے۔ اس میں آسٹریلیا کے فوجی پہلی مرتبہ یورپی ملکوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ آسٹریلیا اس بات پر خوش تھا کہ یورپی ملکوں نے اس کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے مساوی مقام دیا۔

اس جنگ میں ترکوں کے راہمنا مصطفی کمال نے یورپی فوجوں کو شکست دی۔ شکست کے بعد جب آسٹریلیا کے فوجی واپس آئے اور ان سے جنگ کے بارے میں انٹرویو لیے گئے تو فوجیوں کے بیانات مختلف تھے۔ ان میں سے کچھ نے جنگ میں ہونے والی سختیوں اور مسائل کا ذکر کیا۔ کچھ نے یہ کہا کہ وہ زندہ واپس آ گئے، ان کے لیے یہی بہت ہے لیکن ان میں سے کچھ فوجی ایسے تھے جنہوں نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس جنگ کی تلخ یادیں ان کے ذہن میں تھیں اور وہ ان یادوں کے ذریعے دوبارہ سے جنگ کی خونریزی اور مصائب کو بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔

ایک ایسی جنگ جس میں ان کے دوست مارے گئے تھے اور وہ مشکل سے اپنی جان بچا کر آئے تھے۔

یہی یادیں بنگلہ دیش اور پاکستان کے ان افراد کے ذہنوں میں ہیں جن کے رشتے دار اور دوست بنگلہ دیش میں مارے گئے تھے۔ میرے ایک جاننے والے تھے جن کا نام شبیر کاظمی تھا۔ ان کے پانچ بیٹوں کو مکتی باہنی نے قتل کر دیا تھا۔ میرے ساتھ ہونے والی کئی ملاقاتوں میں انہوں نے کبھی بنگلہ دیش کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔

میری ملاقات جب ایک بنگلہ دیشی صحافی سے ہوئی جس کے والد اور بھائی کو پاکستانی فوج نے گولی ماری تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ضرور آئے مگر اس نے فوجی ایکشن کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔

یہی صورتحال تقسیم کے دوران ہندو مسلم فسادات کی تھی۔ ان فسادات پر لوگوں کے انٹرویوز لیے گئے ہیں لیکن ان میں جذبات کا اس قدر غلبہ ہے کہ پوری صورتحال کو نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔

اگرچہ زبانی تاریخ کو تاریخ نویسی میں اہمیت دی جاتی ہے لیکن زبانی تاریخ کے ذریعے جب زبانی بیانات کو تعصب، نفرت، تعریف اور مدح سرائی کے ذریعے تشکیل دیا جائے تو یہ تاریخ کے بیانیے کو مسخ کرتی ہے۔ زبانی تاریخ سے جھوٹ اور فریب کو نکالنا مشکل عمل ہے اس لیے اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

متعلقہ مضامین

  • ایکسکلیوسیو سٹوریز جولائی 2025
  • زبانی تاریخ: کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
  • آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تنازع کا خاتمہ تاریخی کامیابی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • آرمینیا آذربائیجان تنازع حل کرانے میں بہت لوگ ناکام رہے، بالآخر ہم کامیاب ہوئے: ٹرمپ
  • وزیراعلیٰ مریم نواز کی ایک اور کامیابی، صوبہ 31 برس پرانے قرض سے آزاد ہوگیا
  • پنجاب حکومت 3 دہائیوں بعد مقامی بینک سے لیے قرضوں کے بوجھ سے آزاد
  • پنجاب حکومت 3 دہائیوں بعد مقامی بینک کے قرضوں کے بوجھ سے آزاد
  • ملتان میں نانا نے زمین کے تنازع پر بیٹی اور تین نواسے نواسیوں کو قتل کردیا
  • ملتان: زمین اور رشتے کا تنازع، باپ نے بیٹی اور اس کے 3 بچوں کو قتل کر دیا
  •  بھارت بازنہ آیا،  دوبارہ پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی کی  کوشش