سیاسی انتشارکا خاتمہ، ضروری مگر ہو کیسے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
2017میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی متنازع عدالتی نااہلی کے باعث شاہد خاقان عباسی نے اپنی پارٹی میں الگ بات کرنے کی ایک کوشش کی تھی۔ پھر مسلم لیگ ن کے ہی ایک اور رہنما مفتاح اسمٰعیل سے مل کر اپنی الگ سیاسی پارٹی بنائی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رہنما اور خیبر پختو نخوا کے سابق وزیر اعلیٰ سردار مہتاب عباسی بھی ان کے ہم سفر بن گئے اور کوئٹہ جا کر شاہد خاقان عباسی نے بلوچ رہنما لشکری رئیسانی کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ ملک میں سیاسی انتشار کے خاتمے تک ملک آگے نہیں جا سکتا۔ سیاسی انتشار کا خاتمہ کیسے ہوگا وہ طریقہ سابق وزیر اعظم نے نہیں بتایا اور نہ ان کی پارٹی کی اس وقت اتنی سیاسی حیثیت ہے کہ وہ ملک سے سیاسی انتشار کے خاتمے میں کوئی کردار ہی ادا کر سکے کیونکہ کسی سابق وزیر اعظم کا نیا کردار ایسا ہوتا ہے نہ ان کے پارٹی بنا لینے سے ملکی سیاست میں بہتری ممکن ہے۔
بلوچستان کی سابق حکمران پارٹی باپ کے سینیٹر دنیش کمار نے ملک سے سیاسی انتشار کے خاتمے کے بجائے یہ تجویز دی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرکے ہمارے دشمن ملک بھارت کو پاکستانی قوم کے متحد ہونے کا پیغام دیا جائے۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کی بھی یہی سوچ ہے کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت صرف بانی پی ٹی آئی کے پاس ہے اور موجودہ جنگی صورت حال میں سزا یافتہ بانی پی ٹی آئی ہی رہا ہو کر ملک کو سیاسی انتشار سے بچا کر ملک کو مضبوط بنا سکتے ہیں اور ایسی صلاحیت موجودہ حکمرانوں میں نہیں ہے۔
ایک طرف پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا اپنے بانی کی رہائی کا مطالبہ ہے تو دوسری طرف اس کے 3 سال سے مفرور رہنما اور بانی کے دست راست مراد سعید پاک فوج اور موجودہ حکومت کے خلاف مذموم اور گمراہ کن اور ملک میں انتشار اور نفرت پھیلانے کے بیانات دے رہے ہیں مگر گرفتاری سے بچنے کے لیے خود سامنے نہیں آ رہے اور چھپے بیٹھے ہیں مگر انھیںاپنی پارٹی سے بھی مدد نہیں مل رہی اور ان پر پارٹی میں ہی سے الزامات لگ رہے ہیں کہ وہ صرف اپنی سیاست چمکا رہے ہیں اور عملی طور پر کچھ بھی نہیں کر رہے ۔ ملک میں سیاسی انتشار ہر دور میں رہا ہے۔ سیاسی حکومتیں اور جماعتیں خود ملک میں انتشار پھیلا کر غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع دیتی رہی ہیں پھر ان کے خلاف اتحاد کرکے جدوجہد بھی کرتی رہیں۔
2014 میں بانی پی ٹی آئی نے (ن) لیگی حکومت کے خلاف دھرنا دے کر جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہا تھا، پی پی اور (ن) لیگ نے ناکام بنا دیا تھا مگر پی ٹی آئی ملک میں سیاسی انتشار بڑھایا جو 2018 میں عروج پر پہنچا ۔ 2022 میں بانی کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے آئینی راستے سے ہٹایا گیا لیکن اس آئینی تبدیلی کو پی ٹی آئی نے قبول نہیں کیا اور بانی نے غیر ضروری جلسے کیے اور قبل از وقت اپنی پنجاب اور کے پی کی حکومتیں اپنے سیاسی مفاد کے لیے خود ختم کرا کر ملک میں انتشار انتہا پر پہنچایا تھا ۔
بانی کی قید، سزا و معاملات کے وہ خود ذمے دار ہیں ۔حکومت اگر بانی کو رہا بھی کرا دے تب بھی پی ٹی آئی اپنے اقتدار کے لیے حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گی اور بانی رہا ہو کر سیاسی انتشار اپنے سیاسی مفاد کے لیے خود بڑھائیں گے تو حکومت کی پارٹیاں ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی سیاسی انتشار ملک میں کے لیے
پڑھیں:
اداریہ کیسے لکھیں
اداریہ کے لفظی معنی مدیرکی تحریر کے ہیں، یعنی مدیر کی جانب سے خبروں کی وضاحت اور اہم امور کے بارے میں اپنی رائے لکھنے کا عمل اداریہ نویسی کہلاتا ہے۔ فن صحافت میں اسے خصوصی اہمیت حاصل ہے، یہ ایک مشکل فن ہے، جس میں لکھنے والا اپنا مافی الضمیر کم ازکم الفاظ میں پوری وضاحت کے ساتھ انتہائی مدلل انداز میں بیان کرتا ہے۔
اداریہ ایک مختصر تحریر ہوتی ہے جو بنیادی طور پرکسی واقع یا خبر پر اخبار کی رائے کو ظاہر کرتی ہے، اس لیے اسے اخباری ادارے کی اجتماعی رائے بھی تصور کیا جاتا ہے۔
اداریہ عمومی طور پر ہنگامی بنیادوں پر لکھا جاتا ہے جس کا مقصد نہ صرف عوام کی آواز کو حکام بالا تک پہنچانا ہے بلکہ عوام کی رہنمائی بھی کرنا ہے اس میں حالات حاضرہ کی تشریح اور اس کا تجزیہ اسی طرح کیا جاتا ہے کہ قارئین کو مسئلے کے مختلف پہلو سمجھائے جاسکیں تاکہ رائے عامہ کی تشکیل ہو سکے۔
اداریہ نویس کے لیے ضروری ہے کہ اسے زبان اور بیان پر عبور حاصل ہو۔ اسی صورت میں ہی وہ اپنے موقف، خیالات، افکار کو قارئین کے سامنے موثر طور پر پیش کر سکے گا اور بہتر انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرسکے گا۔
یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اداریہ نویس وسیع مطالعہ اور قوت مشاہدہ کا مالک ہو، وسیع مطالعہ کے سبب اداریہ نویس کے پاس وسیع ذخیرہ الفاظ جمع ہو جاتے ہیں جو اس کے لکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ قوت مشاہدہ جتنی زیادہ ہوگی، تحریر اتنی ہی حقیقی اور جاندار ہوگی۔
اداریہ نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ غور و فکر کی صلاحیت کے ساتھ تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کا بھی مالک ہو۔
وہ غور و فکر سے کام لے کر حقائق کی تہہ تک پہنچنے اور مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ اداریہ نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ منطقی ذہن کا مالک ہو۔ اسی صورت میں وہ اپنی تحریر کو منطقی انداز میں پیش کر سکتا ہے۔
اداریہ نویس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو مختلف علوم و فنون سے واقفیت حاصل ہو۔ ایک فرد کے لیے تمام علوم اور فنون پر عبور حاصل کرنا ممکن نہیں، لیکن ایک اچھے اداریہ نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام علوم و فنون کے مبادیات اور نظریات اور ان کی اصطلاحات کا کچھ نہ کچھ علم ضرور رکھتا ہو۔
اداریہ نویس کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاملہ فہم، دور اندیش اور متوازن شخصیت کا مالک ہو۔ متوازن شخصیت سے مراد ایسی شخصیت ہو جو جذبات کے بجائے سائنسی نقطہ نظر رکھتا ہو۔ اداریہ لکھتے وقت صحافتی اصولوں سے واقفیت کے ساتھ ساتھ معاشرتی حالات اور قومی تقاضوں کا احساس ہونا بھی ضروری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اداریہ کیسے لکھیں؟ اس میں سب سے پہلے موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے، اس میں سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوامی مفاد عامہ کے تحت یا قومی نقطہ نظر سے کون سا مسئلہ اہم ہے۔ اداریہ نویس ان موضوعات کو اپنا موضوع بنائے جو اجتماعی حوالے سے اہم ہوں۔
اداریہ لکھتے وقت جس موضوع پر قلم اٹھانا مقصود ہو، اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرکے اس کے بعد حتمی رائے قائم کرے۔
یعنی اس حوالے سے ذہن بالکل واضح ہو، پھر قلم اٹھائے۔ اس کے بعد عنوان کا مرحلہ آتا ہے، عنوان کی اپنی جگہ بڑی اہمیت ہے، اداریے میں عنوان کی وہی حیثیت ہے جو خبر میں سرخی کی ہوتی ہے، جس طرح ہم خبر کی سرخی کے چند الفاظ میں پوری خبر کا خلاصہ بیان کر دیتے ہیں، اسی طرح اداریہ کے عنوان کو بھی اس کی روح کا مظہر ہونا چاہیے۔
اداریے کے عنوان کے تعین کے بعد اداریہ کے پہلے حصے میں موضوع یا مسئلہ بیان کیا جاتا ہے، دوسرے حصے میں اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے، تیسرے حصے میں اس کا حل پیش کیا جاتا ہے، یعنی جو بھی خبر یا واقع کو موضوع بنایا گیا ہو اس کو مختصراً بیان کرکے اس کے اہم پہلوؤں کی تشریح کی جانی چاہیے، پھر ان کا تجزیہ کر کے ٹھوس دلائل کی روشنی میں کوئی رائے قائم کرکے کم از کم الفاظ میں اپنا نقطہ نظر موثرانداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔
تحریرگہری اور بامقصد ہو اس کا کوئی جملہ، کوئی پیراگراف تحریر کے مرکزی خیال سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔ صداقت اور سچائی کے ساتھ غیر جانبدارانہ رویہ بھی اداریہ نویس کی بنیادی طرح ہے خوف اور بزدلی کے زیر اثر ہوکر لکھے جانے والا اداریہ کمزور اور بے اثر ہوتا ہے، اس لیے جو کچھ بھی تحریرکیا جائے سچائی اور صداقت کے ساتھ پیش کیا جائے، سچائی کے ساتھ لکھے جانے والے اداریے نہ صرف دلکش ہوتے ہیں بلکہ پراثر بھی۔ اس لیے اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
ہمارے یہاں سیاسی نظام میں تسلسل جاری نہ رہنے کے سبب عوام بالخصوص سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنان کی سیاسی تربیت نہ ہو سکی، ان میں جذبات کا عنصر زیادہ غالب ہے، اس لیے اداریہ نویس کو سیاسی بالخصوص مذہبی معاملات پر لکھتے وقت احتیاط کی زبان اختیار کرنی چاہیے تاکہ اداریہ ان کی فکری رہنمائی اور تربیت کا ذریعہ بنے۔
اداریہ میں کوئی جملہ یا پیراگراف ملک میں رائج قوانین، ہمارے سماجی اور مذہبی اقدار کے منافی نہ ہو، ورنہ اداریہ نویس کسی قانونی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے۔
یہ وہ فنی امور ہیں جن کو سامنے رکھ کر ایک اچھا اداریہ لکھا جاسکتا ہے۔ بعض پڑھے لکھے حضرات مضمون، کالم اور اداریہ کو ایک ہی معنی میں لیتے ہیں جو کہ علمی حوالے سے غلط ہے۔
کالم کے لفظی معنی کلام کے ہیں اصطلاح میں ایسی تحریر کو کہتے ہیں جس میں کسی ایشوزکو مشاہدات اور احساسات کے تناظر میں دلائل کے ساتھ نئے زاویے سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ یہ سنجیدہ بھی ہو سکتا ہے اور طنز و مزاح پر مبنی بھی، کالم کوئی بھی شخص جو تحریر نگاری پر عبور رکھتا ہے لکھ سکتا ہے، اس کا صحافی ہونا ضروری نہیں۔
مضمون کے لفظی معنی کسی بات کو عام الفاظ میں پیش کرنے کے ہیں، اصطلاح میں کسی شخصیت یا کسی چیز کے حوالے سے معلومات کو منظم شکل دینے کا نام ہے جس کا مقصد پڑھنے والوں کو معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔
اداریہ ایک ایسی تحریر ہے جسے اخبار یا رسالے کے عملے کے تجربہ کار کارکن یا ناشر کی جانب سے تحریرکیا جاتا ہے یہ عمومی طور پر کسی ہنگامی موضوع پر لکھا جاتا ہے جس کا مقصد پڑھنے والوں کو رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ اداریہ کسی دور کے سیاسی، سماجی مزاج کی اہم دستاویزی شہادت ہوتے ہیں، فن صحافت میں اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔