پاکستان سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے ہر ضروری اقدام کرے گا، دفتر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
ویب ڈیسک :پاکستان نے بھارتی وزیر اعظم کے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز بیانات مسترد کردیے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان مودی کے اشتعال انگیز اور نفرت انگیز بیانات مکمل طور پر مستردکرتا ہے، دنیا خطے میں امن اور استحکام کے لیے کوششیں کر رہی ہے، ایسےوقت میں یہ بیان غلط معلومات اور سیاسی مفاد پرستی پر مبنی خطرناک اقدام ہے۔دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے ہر ضروری اقدام کرے گا۔
ترکی میں کرد علیحدگی پسندی کا خاتمہ، پاکستان کا خیرمقدم
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان خود بھارت کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے، پاکستان نے دہشت گردی کی لعنت کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کی خدمات اور قربانیاں دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہیں۔ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کا حامی رہا ہے، مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے، صدر ٹرمپ کی تنازع کشمیر کے حل کی کوششوں کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں، مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہمارا امن کے لیے عزم کبھی بھی ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
کھانے کے برتن دِل کے دشمن نکلے، لاکھوں کو موت کے منہ میں پہنچا دیا
دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کا بیان بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی پر مبنی خطرناک اقدام ہے، بیان ظاہرکرتا ہےکس طرح جھوٹے بیانیے گھڑ کر جارحیت کا جواز بنایا جاتا ہے۔ پاکستان سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد میں ضروری اقدامات کے لیے پر عزم ہے، پاکستان کشیدگی میں کمی کے لیے بھی ضروری اقدامات کے لیے پرعزم ہے۔بھارتی اقدامات خطےکو تباہی کے دہانے پر لے جانے والی خطرناک مثال قائم کرتے ہیں، بھارتی اقدامات ایسی سوچ کے عکاس ہیں جو خطے میں اسٹریٹجک استحکام کو خطرےمیں ڈالنےکےدرپے ہیں۔ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے، ہم آئندہ دنوں میں بھارت کے اقدامات اور طرز عمل کا بغور جائزہ لیتے رہیں گے، ہم بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی ایسا ہی کرے۔
بھارتی سفارتی جارحیت کا سخت جواب؛ پاکستان کا بھارتی سفارتخانے کے اہلکار کو ملک چھوڑنے کا حکم
دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان کا بھارتی جارحیت کا جواب محتاط اور صرف فوجی تنصیبات کے خلاف تھا، پاکستان نے بھارتی فوجی صلاحیت اور اہداف کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، یہ ناقابل تردید اور معلوم حقیقت ہے جسے جھوٹ اور پروپیگنڈے سے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ
پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔ترجمان دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا، پاکستان، دہشت گردی کے بنیادی مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں کو سراہتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران، جب سے طالبان حکومت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، پاکستان نے ان سالوں میں بے پناہ جانی نقصان اٹھانے کے باوجود حد درجہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد حملوں پر قابو پائے گی اور ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور دیگر عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرے گی۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارتی، انسانی ہمدردی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں تعاون کی راہیں کھولنے کی کوشش کی، مگر اس کے جواب میں افغان حکومت کی جانب سے صرف وعدے اور غیر سنجیدہ بیانات ملے۔افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا طالبان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، لیکن اس حوالے سے وہ عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات سے گریزاں ہیں اور غیر متعلقہ موضوعات اٹھا کر اصل مسئلہ دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اکتوبر 2025 میں پاکستان کا ردعمل اس عزم اور ارادے کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار پاکستان اور اس کے عوام کے کھلے دشمن ہیں اور جو کوئی بھی ان کی پناہ، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان کا خیرخواہ نہیں۔پاکستان امن اور سفارت کاری کا حامی ہے اور طاقت کا استعمال ہمیشہ آخری آپشن سمجھتا ہے، ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ تجاویز پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے امن مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔دوحہ میں پہلے دور کے دوران فریقین کے درمیان بعض اصولی نکات پر اتفاق ہوا اور عارضی فائر بندی پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی، استنبول میں دوسرے دور میں ان نکات پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات ہونا تھی، لیکن طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ‘تیسرے دور میں بھی پاکستان نے مثبت اور تعمیری رویہ اپنایا اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے مؤثر نگرانی کے نظام پر زور دیا، لیکن افغان وفد نے غیر متعلقہ الزامات اور دعووں کے ذریعے بات چیت کو بے نتیجہ بنایا۔انہوں نے ک مذاکرات کے دوران یہ بات واضح رہی کہ طالبان حکومت صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی ہے، جبکہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار کے خلاف کوئی ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔طالبان حکومت دہشت گردوں کو مہاجرین کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ یہ انسانی مسئلہ نہیں بلکہ دہشت گردی کی حمایت کا معاملہ ہے۔پاکستان کسی بھی پاکستانی شہری کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ انہیں طورخم یا چمن بارڈر پر باقاعدہ طریقے سے حوالہ کیا جائے، نہ کہ اسلحہ و ساز و سامان کے ساتھ غیر قانونی طور پر بھیجا جائے۔ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان کسی دہشت گرد گروہ سے بات چیت نہیں کرے گا، خواہ وہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند ہو یا بی ایل اے / فتنۃ الاحرار، طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو پاکستان سے تصادم نہیں چاہتے، مگر بیرونی مالی معاونت یافتہ ایک لابی تعلقات خراب کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔بیان کے مطابق پاکستان کے عوام اور افواج دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں.پاکستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان پاکستانی عوام نے اٹھایا ہے، پاکستان اپنے اندرونی مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے بارہا طالبان حکومت سے کہا ہے کہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت ترک کرے، اگست 2021 کے بعد سے افغانستان سے دہشت گردی میں واضح اضافہ ہوا ہے جسے طالبان حکومت نہ جھٹلا سکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داری سے بری ہو سکتی ہے۔ طالبان حکومت کی جانب سے پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششیں بھی قابلِ مذمت ہیں. حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پشتون عوام ریاست اور معاشرے کا متحرک حصہ ہیں، جو سیاست، بیوروکریسی اور قومی اداروں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستان باہمی اختلافات کے حل کے لیے مذاکرات کا حامی ہے. تاہم دہشت گردی کا مسئلہ اولین ترجیح کے طور پر حل ہونا چاہیے.پاکستان کی مسلح افواج اور عوام مل کر اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔