ایشیا کی سب سے بڑی زرعی اجناس کی منڈی میں 70سالہ چینی سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
وہ قریب 70 سال کے چینی شہری ہیں، جب ان سے میرا تعارف کرایا گیا اور بتایا گیا کہ میں پاکستان سے ہوں، تو وہ اپنی سیٹ سے اٹھے اور جس دروازے سے میں داخل ہوا تھا اس کی جانب بڑھے اور بڑے ہی شفیق، محبت بھرے انداز میں مجھ سے ملاقات کی۔
ان کا خلوص ان کی آنکھوں سے چھلک رہا تھا۔ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ بار ہا انھوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور ہر بار ان کے چہرے کی خوشی میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا، میری چینی کولیگ نورین نے اس ملاقات میں بطور مترجم خدمات انجام دیں۔
پھر کہنے لگے چلیں ایک یادگاری تصاویر لیتے ہیں اور تصویر کیلئے ایک جگہ مخصوص کی گئی، یہ بتاتا چلوں کہ یہ کوئی عام شہری نہیں تھے بلکہ ایشیا کی سب سے بڑی زرعی اجناس کی تھوک مارکیٹ (شی فا ڈی) کے چیئرمین زانگ یوشی ہیں۔
پھر بڑے ہی متفکرانہ انداز میں پوچھنے لگے پانی بند کیا گیا ہے؟ پاکستان پر کیسی صورت حال ہے؟ میرا جواب تھا پڑوسی ملک پانی نہیں روک سکتا، کیونکہ اس کے پاس صلاحیت ہی نہیں ہے۔
کہنے لگے ہمیں فکر ہے اس لیے آپ سے یہ سوال کیا، پھر بولے چین سے ہی پانی جاتا ہے آپ فکر نہ کریں اور پھر اس ملاقات میں خوشی کے وہ آثار تھے جو خون گرما دینے والے تھے۔
کہنے لگے ہم دوست ہے اوردونوں ممالک پرانے ساتھی ہیں۔ پھر پوچھا گذشتہ دنوں میں کوئی بڑا نقصان تو نہیں ہوا؟ میں نے جواب دیا شکر ہے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔
ایشیاء کی سب سے بڑی زرعی اجناس کی تھوک مارکیٹ ( شی فا ڈی)خیر میرا ایک پورا دن ایشیا کی سب سے بڑی زرعی اجناس کی تھوک مارکیٹ (شی فا ڈی) میں گزرا، یہ مارکیٹ نہیں بلکہ ایک شہر ہے، جہاں ایک سے دوسری جگہ جانے کیلئے گاڑی میں ہی جایا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے ہم پہنچے سبزیوں کی مارکیٹ جہاں، ٹماٹر اور بے شمار موجود تھے، 200 روپے کلو سے لے کر 4000 روپے کلو کے جاپانی ٹماٹر موجود تھے جو انتہائی خوش ذائقہ تھے۔
پھر ہم نے سبز پیاز خریدی جو پیاز ہم خرید رہے تھے وہ 1 میٹر سے بھی زیادہ لمبی تھی اور چین میں 2 میٹر سے بھی لمبے سبز پیاز موجود ہیں۔
پیاز کے بعد پھل دیکھنے لگے، سب سے پہلے ہم نے جناب غالب کے دل کی بات سنی اور آم کے حصے میں جا پہنچے جہاں 50 سے زائد آم کی دکانیں موجود ہیں اور ہر دکان پر اعلی نسل کے آم دستیاب ہیں۔
پھر انناس خریدنے نکلے تو پہلی بار یہ پتہ چلا کہ انناس کی 2 بڑی اقسام ہیں ایک میٹھے اور دوسرے زرا کم میٹھے اور ہلکے ترش، ہیں بتایا گیا کہ ان کے جو پتے ہیں وہ ان کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں، خاردار پتے والا انناس ہلکا میٹھا ہوتا ہے اور نرم پتوں والا انناس میٹھا ہی ہوتا ہے۔
اس کے بعد خربوزے خریدنے کی باری تھی، چین میں بھی دیسی خربوزے دستیاب ہوتے ہیں جو سائز میں چھوٹے لیکن خوش ذائقہ ہوتے ہیں، اس کے علاوہ سبز خربوزے میں موجود تھے۔
پھر پہنچے چیری خریدنے، یوں تو یہ چیری کا موسم نہیں ہے لیکن چین میں چیری موجود ہے، گہرے مہرون رنگ کے چیری، سرخ اور پیلے رنگ کی چیری بھی دستیاب ہیں، چین میں چیری اب اسٹرابری کی طرح سبز صنعت یعنی انڈور بھی اگائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ سال بھر میسر رہتی ہے۔
یہاں سے نکلے تو اگلا حصہ تھا گوشت، سی فوڈ اور مصالحوں کا یہ ایک 3 منزلہ عمارت ہے، جس میں تقریبا ہر قسم کا گوشت موجود ہے اور تروتازہ اور حلال گوشت بھی موجود ہے، خاص طور پر اسٹیکس بنانے اور تکے اور کلیجی کا بہترین گوشت موجود ہے ، سری پائے، اوجھری، مغز ہر چیز موجود ہے، برائلر چکن اور بلیک چکن کا گوشت بھی موجود ہے۔
اس کے علاوہ تازہ سی فوڈ دستیاب ہے، پانی میں انواع و اقسام کی تیری مچھلیاں، شرم، کھچوے، کریب اور لوبسٹر سب ہی پایا جاتا ہے اور مصالحے، گرین ٹی اور جڑی بوٹیوں بھی اسی عمارت کی پہلی اور دوسری منزل پر وافر انداز میں موجود ہیں، ملکی اور غیر ملکی مصالحے بھی دستیاب ہیں۔
اگلی جگہ تھی چین صوبوں کے مخصوص کھانے، میوہ جات، جہاں ہر صوبے کے لوازمات مود تھے، خشک میوہ جات میں، بادام، اخروٹ، پستہ، چلغوزے اور کھجور موجود ہے، چینی کے علاقے منگولیا کا خشک گوشت بھی دستیاب ہے۔
سامنے ہی دوسری عمارت میں آسیان ممالک کے موسمی فروٹ موجود ہیں، جہاں پاکستان کا جھنڈا دیکھ کر دل کو عجب راحت محسوس ہوتی ہے۔
ایک طرف کو اس مارکیٹ میں عوام خریداری کر رہے ہیں تو دوسری طرف یہاں ایک بلڈنگ میں آن لائن مارکیٹنگ اور سیل جاری ہے، نوجوان انفلوانسرز آن لائن اشیا کی مارکیٹنگ کرتے ہیں اور آرڈ وصول کرتے ہیں اور اشیا عوام کی دہلیز تک پہنچائی جاتی ہیں۔
چین میں لوگ بھاؤ تاؤ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، اور بڑی مارکیٹ سے چیزوں کی خریداری کرنا بہت ہی فائدہ مند ہوتا ہے۔ تو آئندہ آپ جب بھی کسی شہر کو جاننا چاہیں تو اس شہر کی زرعی اجناس کی مارکیٹ کا ضرور دورہ کریں۔
چین کے لوگ بڑے ہی کوئی مروت والے ہیں، اور خاص طور پر پاکستانیوں کا نام سن کر ان کے چہرے پر جو خوشی نمودار ہوتی ہے وہ دیدنی ہوتی ہے۔
مئی کی 6 تاریخ سے 12 تک جو حالات وطن عزیز پاکستان پر آئے اس نے پاکستانیوں کو تو ایک بار پھر بطور مضبوط قوم دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، لیکن چند ایسے ممالک بھی ہیں جن کی خوشی ہماری خوشی میں ہے، جن کے چہرے کی مسکراہٹ ہمیں دیکھ کر بڑھ جاتی ہے جب ان کو صرف اتناپتہ چلتا ہےکہ ہم پاکستان سے ہیں۔
میرے چند ممالک کے دفتری ساتھی جن میں چین، نیپال، ترکیہ، ایران سرفہرست ہیں، پاکستان بارے فکر مند نظر آئے۔ نیپالی دوست تو بھارتی حملے کے بعد 2 دفعہ پوچھ بیٹھے کب جواب دینا ہے اور میرا جواب تھا مطمئن رہیں، جواب ڈنکے کی چوٹ پر دیا جائے گا۔
وقار حیدر
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کی سب سے بڑی زرعی زرعی اجناس کی موجود ہیں موجود ہے ہیں اور چین میں ہے اور
پڑھیں:
طوفانِ الاقصیٰ، تاریخ کا نقطۂ عطف
اسلام ٹائمز: اسرائیلی حکومت جنگ کے اختتام کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان کم ہے کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک جب تک ٹرمپ امریکی سیاست میں فعال رہیں، تل ابیب مغربِ ایشیا میں توازنِ طاقت کو بگاڑنے کی کوششوں سے باز آئے۔ طوفان الاقصیٰ ایک آپریشن نہیں بلکہ تاریخ کا نقطۂ عطف ہے۔ اس نے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بیانیے کو روکا، عرب دنیا کی بے حسی کو چیلنج کیا، اور محورِ مقاومت کو نئی زندگی دی۔ یہ واقعہ اسلامی دنیا کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو 1979 کے انقلابِ اسلامی ایران یا 2006 کی جنگِ لبنان کو جدید اسلامی و عالمی تاریخ میں حاصل ہے۔ اب مغربِ ایشیا کی سیاست اب مابعد طوفان الاقصیٰ دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں بندوق اور بیانیہ دونوں طاقت کے توازن کو ازسرِنو متعین کر رہے ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام سے الہام لیکر طوفان الاقصیٰ آپریشن کو منظم اور کامیاب کرنیوالے یحییٰ سنوار کی روح کو لاکھوں سلام۔ طوفانِ الاقصیٰ کا اثر یہ ہوا کہ عرب اور اسلامی ممالک اور تل ابیب کے تعلقات کی معمول پر واپسی میں رخنہ پڑا اور گریٹر اسرائیل کے علاوہ مسجد اقصیٰ کی تباہی کا منصوبہ بھی ناکام ہوا۔ اس بارے میں مغربِ ایشیا کے امور کے ماہر وحید مردانہ کا کہنا ہے کہ طوفان الاقصیٰ ایک ناگزیر آپریشن تھا، آنے والے برسوں میں ہم مغربی ایشیا اور کسی حد تک پوری دنیا میں نمایاں تبدیلیاں دیکھیں گے۔
کیا یہ ضروری تھا؟: تسنیم نیوز سے گفتگو میں وحید مردانہ نے طوفان الاقصیٰ کے متعلق کہا کہ سب سے پہلا سوال جو وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ آیا طوفان الاقصیٰ آپریشن سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیے تھا؟ کیا ان تمام قربانیوں کا کوئی حقیقی جواز تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب اس آپریشن سے پہلے کے حالات میں تلاش کرنا چاہیے، یعنی یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت خطے میں حالات مزاحمتی محور کے حق میں تھے یا اس کے خلاف، اور عمومی رجحان کیا دکھائی دے رہا تھا۔
صہیونی رجحانات کا بڑھنا اور صدی کی ڈیل: انہوں نے وضاحت کی کہ طوفان الاقصیٰ سے پہلے خطے کی سیاسی سمت واضح طور پر اسرائیل کے مفاد میں تبدیل ہو رہی تھی، 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی طاقت کے عروج پر تھے، وہ پرانی روایات توڑتے ہوئے صدی کی ڈیل منصوبے پر عمل پیرا تھے، ایک ایسا جامع منصوبہ جس میں مغربی کنارے کا اسرائیل یا اردن سے الحاق، غزہ کو نیوم پروجیکٹ کے تحت صحرائے سینا میں ضم کرنا، اور اسلامی ممالک کے ساتھ تل ابیب کے تعلقات کو معمول پر لانا شامل تھا۔ اسی دوران واشنگٹن نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔
اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا: وحید مردانہ کے مطابق اگر یہ عمل جاری رہتا، تو انجام کار اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کی بحالی مسجد الاقصیٰ کی تباہی پر منتج ہوتی، وہی خطرہ جس سے شہید یحییٰ سنوار نے خبردار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ فلسطین کے مکمل زوال اور سقوط پر ختم ہونا تھا۔ انتفاضہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی، کیونکہ مغربی کنارے کے عوام کے ذہنوں پر اسرائیلی اثر بڑھ چکا تھا، اور خود مختار فلسطینی انتظامیہ (PA) نے بھی مزاحمت کو دبا رکھا تھا۔
حماس کے لیے فیصلہ کن لمحہ: انہوں نے کہا کہ حماس کے سامنے دو ہی راستے تھے، یا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فلسطین کو ختم ہوتے دیکھتی، یا پھر اقدام کرتی۔ اگر طوفان الاقصیٰ اس وقت نہ ہوتا تو چند ماہ یا سال بعد بہرحال یہ ناگزیر ہو جاتا، کیونکہ بائیڈن کے آنے کے باوجود صدی کی ڈیل ختم نہیں ہوا تھا اور ٹرمپ کی ممکنہ واپسی کی پیش گوئی کی جا رہی تھی۔
اسرائیلی حکمتِ عملی: وحید مردانہ کے مطابق اگر حماس انتظار کرتی، تو اسرائیل کی چمن زنی (mowing the grass) یعنی سبز دکھانے کی پالیسی کے تحت ہر دو سال بعد غزہ پر جنگ مسلط ہوتی رہتی۔ اس صورت میں حماس کے لیے کسی اچانک اور چونکا دینے والے ردعمل کا عنصر ختم ہو جاتا۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پیشگی اقدام کریں تاکہ امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھ سے پہل کا موقع چھین سکیں۔
سوریہ، لبنان اور یمن کی تبدیلیاں: جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شام اور لبنان کے حالات کو طوفان الاقصیٰ کا نتیجہ سمجھا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ شام اور غزہ کے معاملات کو براہِ راست جوڑنا درست نہیں، اگرچہ ان میں اثرات ضرور تھے۔ حزب اللہ کے لیے لبنان کی سلامتی اور محورِ مقاومت کی بقا سب سے اہم تھی۔ اسی تناظر میں سید حسن نصراللہ کی شہادت نے مغربِ ایشیا کو گہرے تغیر سے دوچار کیا۔ مگر مجموعی تصویر کو ایک ساتھ دیکھنا چاہیے۔
یمن، مزاحمت کی نئی قوت: انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا تغیر یمن کے ابھرنے کی صورت میں سامنے آیا۔ انصاراللہ کی قیادت میں یہ غریب اور تنہا ملک چند سالوں میں ایک فیصلہ کن اور اثر انگیز قوت بن گیا، حتیٰ کہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے سامنے ڈٹ گیا اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہ وہ بات تھی جو کچھ سال پہلے تک محض خواب سمجھی جاتی تھی۔
ایران کا کردار اور استحکام: انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنا علاقائی مقام خود کی طاقت سے حاصل کیا، جبکہ اسرائیل نے یہ حیثیت امریکہ، مغرب اور عرب اتحادیوں کی مدد سے پائی۔ فرق یہ ہے کہ ایران کی بنیادیں کہیں زیادہ مضبوط اور دیرپا ہیں۔
مستقبل کا نقشہ، مزاحمت اور علاقائی سیاست: وحید مردانہ کے بقول تاریخ میں ہمیشہ اقوام اور نظریات کی بلندی و زوال جنگوں کے نتیجے میں طے ہوئی ہے۔ مستقبل قریب میں مغربِ ایشیا اور کسی حد تک دنیا میں بڑی تبدیلیاں یقینی ہیں۔ اس جنگ کے نتائج دونوں فریقوں کے لیے جیت اور ہار کا تعین کریں گے۔ غزہ کی جنگ اس تمام عمل کی کنجی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر غزہ اور حماس برقرار رہتی ہیں، تو محورِ مقاومت نئی حکمتِ عملی اپناتے ہوئے بحالی کا کام کرے گا۔ بصورتِ دیگر علاقائی کھیل مزید پیچیدہ ہو جائے گا، کیونکہ اسرائیل اور مزاحمتی قوتوں کو اپنے نئے سیاسی جغرافیے کو مستحکم کرنا ہوگا اور یہ آسان کام نہیں۔ اسرائیل، اگر غالب آتا ہے، تو مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے حتیٰ کہ ترکی جیسے ممالک میں بھی شخصیات کے قتل (targeted assassinations) تک کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
طوفانِ الاقصیٰ، تاریخ کا نقطۂ عطف: انہوں نے اختتام پر کہا کہ چونکہ صہیونی حکومت خطے میں جنگوں کے خاتمے کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، اس لیے امکان نہیں کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک یعنی ٹرمپ کی موجودگی کے دوران وہ مغربی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی پالیسی سے پیچھے ہٹے گی۔ طوفانِ الاقصیٰ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں تھی، یہ ایک فکری و تزویراتی دھماکہ تھا جس نے مغربی ایشیا کے سیاسی، مذہبی اور سفارتی توازن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وحید مردانہ کے مطابق یہ ایک ناگزیر اقدام تھا، ایسا لمحہ جو اگر مؤخر کیا جاتا، تو فلسطین مکمل طور پر ختم ہو جاتا اور اسرائیل کے ساتھ عرب دنیا کے تعلقات کی معمول پر واپسی ایک ناقابلِ تلافی حقیقت بن جاتی۔
اسرائیلی حکومت جنگ کے اختتام کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان کم ہے کہ کم از کم اگلے تین سالوں تک جب تک ٹرمپ امریکی سیاست میں فعال رہیں، تل ابیب مغربِ ایشیا میں توازنِ طاقت کو بگاڑنے کی کوششوں سے باز آئے۔ طوفان الاقصیٰ ایک آپریشن نہیں بلکہ تاریخ کا نقطۂ عطف ہے۔ اس نے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے بیانیے کو روکا، عرب دنیا کی بے حسی کو چیلنج کیا، اور محورِ مقاومت کو نئی زندگی دی۔ یہ واقعہ اسلامی دنیا کے لیے وہی حیثیت رکھتا ہے جو 1979 کے انقلابِ اسلامی ایران یا 2006 کی جنگِ لبنان کو جدید اسلامی و عالمی تاریخ میں حاصل ہے۔ اب مغربِ ایشیا کی سیاست اب مابعد طوفان الاقصیٰ دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں بندوق اور بیانیہ دونوں طاقت کے توازن کو ازسرِنو متعین کر رہے ہیں۔