وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی بینک نے پاکستان کی ترقی میں بطور ایک اہم شراکت دار کلیدی کردار ادا کیا، عالمی بینک کی جانب سے کنٹری پارٹنر شپ جس کی بدولت پاکستان میں 20 ارب ڈالر سے زائد کی ترقیاتی سرمایہ کاری ہوگی،  جس کے لیے عالمی بینک کے شکر گزار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی بینک کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، جس نے جمعرات کے روز منیجنگ ڈائریکٹر آپریشنز اینا بیئرڈہ کی قیادت میں ان سے ملاقات کی۔

وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے وفد کا پاکستان میں خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عالمی بینک نے پاکستان کی ترقی میں بطور ایک اہم شراکت دار کلیدی کردار ادا کیا، عالمی بینک کی جانب سے کنٹری پارٹنر شپ جس کی بدولت پاکستان میں 20 ارب ڈالر سے زائد کی ترقیاتی سرمایہ کاری ہوگی، کے  لیے عالمی بینک کے شکر گزار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب 2 کروڑ ڈالر کی قسط موصول ہوگئی

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت عالمی بینک کی ترقیاتی سرمایہ کاری کے ثمرات کے حصول کے لیے عملی اقدامات یقینی بنا رہی ہے، 2022 میں پاکستان میں سیلاب سے لاکھوں لوگوں کا روزگار اور املاک متاثر ہوئیں، عالمی بینک نے 2022 کے سیلاب کے دوران پاکستان میں متاثرین کی مدد کی۔ عالمی بینک کی منیجنگ ڈائریکٹر آپریشنز نے پاکستان کی جانب سے ان کی مہمان نوازی پر وزیرِ اعظم کا شکریہ ادا کیا۔

مینجنگ ڈائریکٹر ورلڈ بینک نے کہا کہ عالمی بینک پاکستان کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے  لیے حکومت اور ورلڈ بینک گروپ کے مابین تاریخی شراکت داری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پاکستان اور عالمی بینک کے مابین شراکت داری کی مضبوطی اور کنٹری پارٹنرشپ پروگرام کے  لیے مؤثر کردار ادا کرنے پر وزیرِ اعظم شہباز کے خصوصی شکر گزار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم سے آئی ایم ایف وفد کی ملاقات، سہ ماہی اہداف پورے کرنے کی کوششوں کا اعتراف

 انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی شعبے میں حالیہ کارکرگی اور استحکام مثالی ہے، پاکستان نے میکرو اکنامک استحکام کے  لیے مثبت اقدامات سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور عالمی بینک کے مابین کنٹری پارٹنر شپ کے مثبت نتائج کے  لیے تعاون جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔

مینجنگ ڈائریکٹر ورلڈ بینک نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی قیادت و پاکستانی عوام کی ترقی کے  لیے عزم، دیرپا و پائیدار ترقی کے  لیے پالیسیوں کے تسلسل بالخصوص سیاسی سطح پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا اور ملکی پائیدار ترقی کے  لیے صحیح ترجیحات کا تعین عالمی بینک کے  لیے دوسرے ممالک میں پارٹنرشپ فریم ورک کے  لیے قابل تقلید مثال بن گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی شاندار اور مؤثر قیادت کی بدولت کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کو دنیا میں پاکستان ماڈل کے نام منسوب کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اہم ڈیٹا کے تبادلے کے ساتھ ہی آئی ایم ایف سے مذاکرات کا پہلا مرحلہ مکمل

انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم کا عملی اقدامات پر زور اس پارٹنرشپ فریم ورک کو کامیابی سے ہمکنار کر ے گا۔ ملاقات میں پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجے بینحسین کے علاوہ وفاقی وزرا احسن اقبال، احد خان چیمہ، شزہ فاطمہ خواجہ، مشیر وزیراعظم ڈاکٹر توقیر شاہ، سینیٹر شیری رحمن، رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور متعلقہ اعلی حکام بھی موجود تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news آئی ایم ایف اینا بیئرڈہ منیجنگ ڈائریکٹر وزیراعظم شہباز شریف.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف اینا بیئرڈہ منیجنگ ڈائریکٹر وزیراعظم شہباز شریف کنٹری پارٹنر شپ عالمی بینک کی عالمی بینک نے نے پاکستان کی عالمی بینک کے پاکستان میں ا ئی ایم ایف نے کہا کہ انہوں نے کی ترقی ادا کیا

پڑھیں:

جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی چیلنجز اور سوشل میڈیا کا کردار

پاکستان اور بھارت کا رشتہ تاریخ، تہذیب اور جغرافیہ کے گہرے روابط رکھنے کے باوجود کشیدگی، بداعتمادی اور تنازعات سے عبارت رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدوں پر خار دار دیواریں تو موجود ہیں، لیکن قدرتی مسائل، خاص طور پر موسمیاتی اور ماحولیاتی چیلنجز، ان کے درمیان کسی سرحد کے پابند نہیں۔فضائی آلودگی، پانی کی کمی، ہیٹ ویوز، سمندری طوفان کے خطرات، طوفانی بارشیں اور برفانی گلیشیئرز کے پگھلنے جیسے مسائل دونوں ممالک کے شہریوں کو یکساں اور شدید متاثرکررہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان اور بھارت طویل المدتی موسمیاتی بحران کی لپیٹ میں ہیں، جو ان کے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہمیں ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے کہ اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر مشترکہ ماحول دوست مستقبل کی جانب بڑھا جائے۔

اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ ''South Asia Environmental Outlook 2024'' کے مطابق جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی بحران کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ رپورٹ  کے مطابق ’’بھارت اور پاکستان کے شہری علاقوں میں فضائی آلودگی عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے، جس کے باعث بھارت میں سالانہ 1.6 ملین جب کہ پاکستان میں تقریباً 135,000 اموات ہوتی ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ دریائے گنگا اور سندھ کی آلودگی، زمینی پانی کی قلت اور زراعت میں کیمیکل کے بے تحاشا استعمال نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی نے ماحولیاتی تعاون کو محدود کردیا ہے۔ ایسی صورتحال میں سوشل میڈیا ایک نیا رابطہ پل ثابت ہو سکتا ہے۔

2024 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 467 ملین اور پاکستان میں 71 ملین فعال سوشل میڈیا صارفین موجود ہیں۔ یہ نوجوان صارفین انسٹاگرام، ٹوئٹر، یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے عالمی و مقامی مسائل پر آواز بلند کر رہے ہیں، اگر ان پلیٹ فارمزکو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ماحولیات کے تحفظ اور خطے میں امن کے فروغ کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔

اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں، مثال کے طور پر ہیش ٹیگ #IndoPakClimateSolidarity کے ذریعے نوجوانوں نے سرحد پار ماحولیاتی یکجہتی کا اظہارکیا۔ یوٹیوب چینلز جیسے India Pakistan Together نے ماحولیاتی موضوعات پر مثبت مکالمے کو فروغ دیا۔ مختلف این جی اوز نے آن لائن کانفرنسز اور وسمینارز کے ذریعے مشترکہ ماحولیاتی حل تلاش کیے۔ عالمی سطح پر بھی دیکھاجائے تو سوشل میڈیا نے متصادم گروہوں کو ماحولیاتی مسائل  کے حوالے سے  متحدکیا جیسے فلسطین اور اسرائیل کے نوجوانوں نے EcoPeace Middle East کے ذریعے پانی کے تحفظ پر مل کر کام کیا۔ چین اور بھارت کی ڈیجیٹل مہمات نے سرحدی ماحولیاتی خطرات پر توجہ دی۔ اقوام متحدہ کے Climate Action Now جیسے عالمی پروگراموں نے سوشل میڈیا کو مؤثر ماحولیاتی سفارت کاری کا ذریعہ بنایا۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جہاں مواقع  موجود ہوتے ہیں، وہیں چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔ بعض گروہ سوشل میڈیا کو تعصب اور دشمنی کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہوئے نفرت انگیز بیانیے کو پروان چڑھاتے ہیں جب کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق جعلی خبریں اور اس حوالے سے سازشی نظریات ماحول دوستی کے لیے کی جانے والی کوششوں کوکمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں، اس کے ساتھ بعض اوقات حکومتیں ریاستی سنسر شپ کے زریعے آن لائن مکالمے پر پابندیاں عائد کردیتی ہیں ۔

 ہمارے پالیسی ساز اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے مشترکہ ماحول دوست مستقبل کو پروان چڑھانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھا سکتے ہیں جیسے، ماحولیاتی یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور انسٹا ایکٹیوسٹس کو ڈیجیٹل بیداری اور تحقیق پر مبنی تربیت دی جائے۔ پاکستان اور بھارت کے طلبا، محققین اورکارکنان کے درمیان ورچوئل کلائمیٹ کانفرنسز منعقد کی جائیں، دونوں ممالک کے نوجوان فلم ساز ماحولیاتی ڈاکیومنٹریز اور سوشل میڈیا سیریز بنائیں جیسے ’’ سانس ایک، شہر دو‘‘ جامعات ماحولیاتی اور سوشل میڈیا سے متعلق تحقیق کو فروغ دے کر بین الاقوامی تحقیقی گرانٹس حاصل کرسکتی ہیں۔ UNEP،SAARCاور دیگر عالمی ادارے اس ضمن میں سوشل میڈیا بیداری مہمات کو مالی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کرسکتے ہیں۔

ہمیں جلد از جلد اس امرکا ادراک کرنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا کی ماحولیاتی بقا اب دونوں ممالک کے لیے بقاء کا سوال ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو روایتی سفارتی دروازوں کو کھولے بغیر دلوں کو جوڑ سکتا ہے۔ نوجوانوں کی آوازیں اگر ماحولیاتی انصاف، پانی کی حفاظت اور صاف فضا کے لیے بلند ہوں، تو نہ صرف کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے بلکہ ایک بہتر، مشترکہ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

اب پاکستان اور بھارت کا مستقبل جنگ یا سیاست کے فیصلے نہیں بلکہ مشترکہ ماحولیاتی خطرات طے کریں گے۔ دریاؤں کا پانی،آلودہ فضا،گرم ہوتا موسم اور ختم ہوتی حیاتیاتی تنوع بھی ان مسائل میں شامل ہیں جن کی سرحدیں نہیں ہوتیں، اگر دونوں ملکوں کے نوجوان سوشل میڈیا کو نفرت کے بجائے فہم و فراست کا ذریعہ بنائیں، تو وہ نہ صرف ماحول کو بچا سکتے ہیں بلکہ دشمنی کی برف کو بھی پگھلا سکتے ہیں۔آج ہمیں جنگ کی زبان سے نہیں، ہوا اور پانی کی زبان سے بات کرنی ہے، اور سوشل میڈیا ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم نفرت کے شور میں ماحول کے حق میں ایک نیا نغمہ چھیڑیں۔ سوشل میڈیا، جوکل تک تفریح کا ذریعہ تھا، آج ہمارے ہاتھ میں ایک بااثر ہتھیار ہے، محبت، شعور اور مکالمے کا۔

متعلقہ مضامین

  • مودی حکومت غربت و عدم مساوات چھپانے کی کوشش کررہی ہے، کانگریس
  • برکس بزنس فورم کا آغاز، ڈیجیٹل معیشت سمیت مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال
  • ہمیں بطور قوم حسینی کردار کی سخت ضرورت ہے، صدر مملکت
  • ملک کو چیلنجز درپیش، بطور قوم حسینی کردار کی ضرورت ہے: صدر مملکت
  • دیہی ترقی قومی خوشحالی کی ضمانت ہے، وزیراعظم کا دیہی آبادی کی ترقی کے عالمی دن پر پیغام
  • وزیراعظم کی ترکیہ، آذربائیجان کے صدور کیساتھ چہل قدمی
  • جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی چیلنجز اور سوشل میڈیا کا کردار
  • چین نے افریقہ کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کی حیثیت سے اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے ، وزیراعظم سینیگال
  • دیرینہ شراکت داری بہت اہم:وزیراعظم ٹرمپ کو یوم آزادی پر مبارکباد ‘امید ہے  عالمی تنازعات حل ہونگے: وزیر داخلہ 
  • شاہد اسلام کی بطور ڈپٹی ڈی جی پاکستان سپورٹس بورڈ بحالی پر مبارکباد