UrduPoint:
2025-05-24@19:15:50 GMT

کولون کیتھیڈرل: جنگ کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

کولون کیتھیڈرل: جنگ کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مئی 2025ء) آج یہ کیتھیڈرل سیاحوں اور مقامی شہریوں کا مرکز نگاہ ہے، جہاں ہر طرف خوش مزاج لوگوں کی قہقہوں بھری باتیں گونج رہی لیکن اس منظر کے پس پردہ ایک سیاہ ماضی چھپا ہے۔ ایک ایسی بھیانک جنگ کی یاد، جس کی گونج آج بھی پورے یورپ میں سنائی دیتی ہے۔

میں کیتھیڈرل کے سامنے ایک سایہ دار درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھی، اس کے گوتھک طرز تعمیر کو نظروں میں سمیٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔

سیاح آ جا رہے تھے، لمحے کو اپنے کیمروں میں قید کر رہے تھے۔ تب ایک بزرگ جرمن، اپنے پوتے کے ساتھ میرے قریب آ کر بیٹھے۔ وہ بچے کو اس تاریخی عمارت کی داستان سنا رہے تھے۔

تجسس کے باعث میں بھی ان کی باتوں میں شریک ہو گئی۔ ان بزرگ نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران کیتھیڈرل کو 14 مرتبہ نشانہ بنایا گیا، لیکن یہ معجزاتی طور پر اپنی جگہ قائم رہا جبکہ پورا کولون شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔

(جاری ہے)

آج کولون ایک بار پھر ایک کثیرالثقافتی شہر ہے۔ مگر اس کی دیواریں اور گلیاں اب بھی اس جنگ کے صدمے کی سرگوشی کرتی ہیں، جس نے اس شہر کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا تھا۔

اس بزرگ کی باتوں نے جہاں ان یادوں کو تازہ کیا، وہیں میرے خیالات بھی اپنے وطن کی طرف بھٹکنے لگے۔ دہلی، لاہور، کراچی، سری نگر، ممبئی، اسلام آباد زندگی سے بھرپور شہر ہیں۔

مگر اگر بھارت اور پاکستان، جو دونوں جوہری طاقتیں بھی ہیں، ایک مکمل جنگ میں اُتر جائیں، تو ان شہروں کے بیچ فاصلہ کچھ بھی معنی نہیں رکھے گا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جدید جنگ کی اصل صورت کیسی ہوتی ہے۔ یہ بہادری یا فتوحات کی کہانی نہیں، بلکہ اجتماعی غم، اندوہناک خبروں اور بےگناہوں کی بربادی کی داستان ہوتی ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی آج بھی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار صرف دشمن کی فوج کو نہیں، بلکہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔

مائیں، بچے، اور بےقصور لوگ۔

جنوبی ایشیا کی سیاست تنازعات کے سائے میں پروان چڑھی ہے۔ اب تک کی لڑائیاں سرحدی علاقوں تک محدود رہی ہیں، لیکن ان کی شدت اور سفاکی کسی بھی وقت بےقابو ہو سکتی ہے۔

آج، ہم ایک نئے محاذ پر جنگ لڑ رہے ہیں۔ ڈیجیٹل میدان میں ایکس پر آرم چیئر جنرلز اور میم ساز دلیر جنگی ماہر بنے بیٹھے ہیں۔ واٹس ایپ گروپس حب الوطنی کے نعرے لگانے والے مجاہدین سے بھرے پڑے ہیں۔

کٹی پارٹی کی آنٹیاں اور مارننگ واک والے انکلز انسٹاگرام اور فلموں سے حاصل کی گئی معلومات کے بل بوتے پر خود کو بین الاقوامی امور کے ماہر سمجھنے لگے ہیں۔

سوشل میڈیا پر جذباتی خطبات اور جنگی مشوروں کی بھرمار ہے۔ مگر یہ سب ایک اہم حقیقت بھول جاتے ہیں: تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔ جنگیں میدانوں میں لڑی جاتی ہیں، مگر ان کے زخم عام انسان سہتے ہیں۔

پنجاب کا کسان، بارہمولہ کا دکاندار، کراچی کے اسکول میں بیٹھا بچہ۔

ایک غلط فیصلہ، ایک چنگاری اور وہ عمارتیں جو آج امن کی علامت ہیں، کل ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہیں۔ انڈیا گیٹ، جو پہلی عالمی جنگ میں مرنے والوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا، ایک لمحے میں نشانہ بن سکتا ہے۔ بھارت منڈپم، جدید فن تعمیر کی علامت، راکھ میں بدل سکتا ہے۔ جوابی کارروائی میں، فیصل مسجد، اسلام آباد کا بلیو ایریا، جہاں پاکستان کی پارلیمان اور سپریم کورٹ واقع ہیں، سب خاکستر ہو سکتے ہیں۔

اور پھر کیا ہوگا؟ وہی سیاست دان، جنہوں نے جنگی جنون بھڑکایا، کسی غیر جانبدار مقام پر مہنگے لباسوں میں نمودار ہوں گے، اور "امن" کا اعلان کرتے ہوئے کسی معاہدے پر دستخط کریں گے۔ جبکہ ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کا خاموشی سے سوگ منائیں گے۔ یہ کوئی خیالی داستان نہیں، بلکہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ ہمیں رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

کولون میں امن کی کہانی صرف کیتھیڈرل کی شیشے کی کھڑکیوں اور میناروں میں محفوظ نہیں، بلکہ اس کے بعد کیے گئے جراتمندانہ فیصلوں میں بھی چھپی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے چند سال بعد، فرانس اور جرمنی جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے،نے بیلجیم، اٹلی، لکسمبرگ اور نیدرلینڈز کے ساتھ مل کر یورپی کوئلہ اور اسٹیل کمیونٹی کی بنیاد رکھی، جس نے بعد میں یورپی یونین کی شکل اختیار کی۔ راکھ سے جنم لینے والا یہ تعاون آج یورپ کے اقتصادی اور سماجی اتحاد کی علامت ہے۔

جنگ ماضی کا حصہ ہے، مستقبل کی پیش گوئی نہیں۔

آج ایک جرمن شہری کولون سے ٹرین میں سوار ہو کر چند گھنٹوں میں بغیر ویزے کے پیرس پہنچ سکتا ہے۔ مگر جنوبی ایشیا میں؟ لاہور اور امرتسر جو کبھی تجارت، رشتوں اور مشترکہ ثقافت سے جڑے تھے اب خاردار تاروں، سیاسی تقسیم اور ویزا پابندیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ امرتسر کا سیاح واہگہ پر جا کر رک جاتا ہے، جبکہ لاہور کی بادشاہی مسجد صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہونے کے باوجود اس کی پہنچ سے باہر ہے۔

ہر بار جب کشیدگی بڑھتی ہے، سب سے پہلے تجارت متاثر ہوتی ہے۔ ثقافتی اور خاندانی رشتے، جو پہلے ہی پروپیگنڈا اور پابندیوں کا شکار ہیں، مزید ٹوٹ جاتے ہیں۔ ترقی اور مکالمے کے دروازے شکوک و شبہات کے قفل میں بند ہو جاتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کو یہ سبق سیکھنے کے لیے ایک اور جنگ کی ضرورت نہیں۔ یہ سبق پہلے ہی تقسیم کے زخموں، امرتسر میں دربار صاحب پر فوجی یلغار، کارگل اور دہشت گردی کے حملوں کی جلی ہوئی باقیات میں تحریر ہے۔

امن ہمارا انتخاب نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ اس کے لیے نفرت کی آسان راہ چھوڑ کر کوشش، صبر اور ہمت کا راستہ اختیار کریں۔ یورپ سے سبق حاصل کریں۔ کولون کے کیتھڈرل کے میناروں سے مکالمہ کریں۔ گو کہ وہ خاموش ہیں، مگر وہ ایک کہانی سناتے ہیں۔

کیونکہ جنگ، چاہے کتنی ہی "محدود" یا "سرجیکل نما" ہو، اپنے پیچھے صرف دکھ، بربادی اور صدمے کے سوا کچھ نہیں چھوڑتی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہوتی ہے

پڑھیں:

ہیٹ ویو میں اپنی حفاظت کیسے کریں؟

موسم سب قدرت کی دیں ہیں مگر جب موسموں میں شدت ایک حد سے بڑھ جائے تو وہ انسانی صحت اور زندگی کو متاثر کرتی ہے۔آجکل ہیٹ ویو نے زور پکڑ رکھا ہے۔

شدیدگرمی اور نمی انتہائی تکلیف دہ ہو سکتی ہے اور خاص طور پر شیر خوار بچوں، نابالغ بچوں، حاملہ خواتین اور بوڑھوں کے لیے اس سے صحت کے سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر، شدید گرمی ہیٹ اسٹروک اور اس سے بھی بدتر موت کا باعث بن سکتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں، گرمی کی لہریں طویل، بار بار اور زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہیں۔ گرمی کی لہر یا جسے ہیٹ ویو بھی کہا جاتا ہے اس کے دوران اپنے خاندان کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں کچھ ماہرانہ ہدایات ہیں۔ جس سے آپ یہ جاننے کے قابل ہو جائیں گے کہ ہیٹ اسٹروک کی علامات کو کیسے پہچانا ہے اور ضرورت پڑنے پر آپ کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔

گرمی کی لہر کیا ہے؟

سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گرمی کی لہریں تب ہوتی ہیں جب درجہ حرارت مسلسل کئی دنوں تک معمول سے زیادہ رہتا ہے۔ نمی سے یہ زیادہ گرم محسوس ہوتی ہے۔

گرمی کی لہر کا سبب کیا ہے؟ :

گرمی کی لہریں ماحول میں گرم ہوا کے پھنس جانے کے نتیجے میں آتی ہیں اور یہ موسم کا قدرتی رجحان ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی لہروں کی شدت اور تعدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خصوصاً گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے نتیجے میں جو گرمی کو زیادہ دیر تک پھنسائے رکھتی ہیں۔

گرمی کی لہروں سے سب سے زیادہ خطرہ کس کو ہے؟:

یوں تو بہت زیادہ گرمی ہر کسی کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ شیر خوار، بچے، حاملہ خواتین اور بوڑھے خاص طور پر گرمی کے دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ ہیٹ ویو بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے لئے زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے، اور بچوں میں پانی کی کمی خطرناک یا جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ بچوں کے جسموں کو بڑوں کی نسبت درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں زیادہ دقت کاسامنا ہوتا ہے۔

انھیں گرمی سے بچنے کے لیے بڑوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ حاملہ خواتین کو بھی اس سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ بہت زیادہ گرمی اور پانی کی کمی بچے کو کم وزن، جلد پیدائش اور یہاں تک کہ مردہ پیدائش کے زیادہ خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ حاملہ خواتین خود بھی منفی طور پر متاثر ہو سکتی ہیں اور جلد ہی زچگی میں جا سکتی ہیں، ساتھ ہی حمل میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو نے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔

ہیٹ ویو سے بچنے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟:

باہر کی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی میں مدد کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آج یا اس ہفتے اور اس مہینے میں کتنا گرم اور مرطوب رہنے والا ہے۔ گھر میں ایک ہنگامی (ایمرجنسی) کٹ رکھیں جس میں اورل ری ہائیڈریشن سالٹ (ORS) کے پیکٹ، تھرما میٹر، پانی کی بوتلیں، تولیے یا ٹھنڈک کے لیے گیلے کپڑے، ہینڈ ہیلڈ پنکھا یا بیٹری کے ساتھ ، اور گرمی کے دباؤ کی علامات کی شناخت اور علاج کے لیے ایک چیک لسٹ موجود ہو۔ مدد حاصل کرنے کا طریقہ جانیں۔ قریبی صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے یا ایمبولینس/ٹرانسپورٹ خدمات کے لیے رابطے کی معلومات کو نوٹ کریں۔

اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھیں: جب ممکن ہو، دن کے گرم ترین حصوں میں پردے بند کر دیں اور گھر کو ٹھنڈا کرنے کے لیے رات کے وقت کھڑکیاں کھولیں۔ اگر دستیاب ہو تو پنکھے اور کولر استعمال کریں۔

گرمی سے دور رہیں:

اگر آپ اس سے بچنا چاہتے ہیں تو دن کے گرم ترین اوقات میں باہر نکلنے سے گرہیز کریں۔ اپنی سرگرمیوں کو دن کے پہلے یا بعد میں ترتیب دینے کی کوشش کریں جب یہ ٹھنڈا ہو۔ جب باہر ہوں تو سن اسکرین پہنیں اور سائے میں رہنے کی کوشش کریں یا حفاظت کے لیے ٹوپیاں اور چھتری استعمال کریں۔

ٹھنڈا اور ہائیڈریٹڈ رہیں:

پیاس لگنے سے پہلے وقفے وقفے سے پانی پی لیں۔ گرمی میں اوور ڈریسنگ آپ کو پانی کی کمی اور تیزی سے گرم کر سکتی ہے، اس لیے ہلکے اور ڈھیلے کپڑے پہنیں۔ گرمی کے دنوں میں سوتی بیڈ شیٹس کا استعمال کریں۔ پانی کی بوتل اور ایک چھوٹا تولیہ ساتھ رکھیں، تاکہ آپ اپنی گردن پر گیلا تولیہ رکھ کر ہائیڈریٹ اور ٹھنڈا ہو سکیں۔ یہ دیکھنے کے لیے چیک کریں کہ آیا آپ کی کمیونٹی میں آپ کے قریب ہیٹ ریلیف یا کولنگ سینٹر موجود ہے۔ آپ صحت کی سہولیات کے انتظار گاہوں کو عارضی ٹھنڈک پناہ گاہ کے طور پر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

بچوں، بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے تجاویز

شیرخوار اور بچے: باقاعدگی سے چیک کریں کہ آیا آپ کا بچہ پیاسا ہے، پسینہ آرہا ہے، گرمی لگ رہی ہے، قے آرہی ہے، منہ خشک اور چپچپا ہے، یا سر درد کا سامنا ہے۔ اگر آپ کا بچہ صحیح طریقے سے جواب نہیں دے رہا ہے، اسے تیز بخار ہے، چکر آ رہا ہے یا تیز سانس لے رہا ہے، تو اسے فوری طور پر صحت کی سہولت پر لے جائیں۔

اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا بچہ ڈھیلے کپڑے پہنے ہوئے ہے ۔ اس سے گرمی کے دانے اور بہت زیادہ گرم ہونے سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔

چیک کریں کہ آپ کا بچہ اچھی طرح سے ہائیڈریٹ ہے۔ وہ شاید نہیں جانتے کہ پانی کی کمی اور گرمی کا دباؤ کیسا محسوس ہوتا ہے۔ 6 ماہ سے کم عمر بچوں کو خصوصی طور پر دودھ پلائیں۔ دودھ پلانے والی ماؤں کو وافر مقدار میں پانی پینا چاہیے کیونکہ پانی کی کمی ماں کے دودھ کی پیداوار کو متاثر کر سکتی ہے۔ 6 ماہ یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں کو دن بھر باقاعدگی سے پانی پلانا چاہیے۔

اگر نوزائیدہ بچوں کو صحت فراہم کرنے والے سے مشورہ کیے بغیر ضرورت سے زیادہ گرم ہونے کی علامات ظاہر ہو رہی ہوں تو انہیں دوا نہ دیں۔

شیر خوار بچوں اور بچوں کو بغیر وینٹیلیشن کے بند جگہوں پر مت چھوڑیں، جیسے کاریں یا بند کھڑکیوں والے کمرے۔ جب گرمی ہو اور ان پر نظر رکھے بغیر اپنے بچوں کو زیادہ دیر تک باہر نہ کھیلنے دیں۔ ورزش کرتے وقت یا باہر کھیلتے وقت انہیں ہر 30 منٹ آرام کریں۔ زیادہ درجہ حرارت میں ورزش کرنا یا کھیلنا پانی کی کمی اور سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

حاملہ خواتین:

اپنے آپ کو اور اپنے پیدا ہونے والے بچے کو مسائل سے بچانے کے لیے دن میں کم گرمی کے وقت طبی دوروں اور کسی بھی کام کا شیڈول بنائیں۔ اگر ممکن ہو تو ٹھنڈے علاقوں میں سوئیں، جیسے عمارت کی نچلی منزلوں پر جہاں سورج کی روشنی براہ راست نہ پڑتی ہو۔ جب باہر گرمی ہو تو بہت زیادہ سرگرمیاں نہ کریں۔ اگر یہ 40 °C/104 °F سے زیادہ ہو تو باہر جانے سے گریز کریں۔ جب ممکن ہو آرام کرنا اور کام کے بوجھ کو دوسروں کے ساتھ بانٹ لیں۔ حاملہ خواتین اس وقت تک کم یا معتدل شدت کے ساتھ ورزش کر سکتی ہیں جب تک کہ وہ آرام دہ محسوس کر رہی ہوں اور مناسب طریقے سے ہائیڈریٹنگ اور آرام کر رہی ہوں۔ گرمی کے دباؤ کی شدید علامات کو فوری دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر خاندان کے کسی فرد کو نیچے دی گئی شدید علامات میں سے کوئی علامت ظاہر ہو رہی ہے تو آپ کو فوری طور پر ایمبولینس کو کال کرنا چاہیے یا صحت کی سہولت کے لیے کسی دوسری قسم کی نقل و حمل کا بندوبست کرنا چاہیے۔ایسی صورت میں طبی امداد کے لیے کال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • ایتھلیٹ مونا خان نے ثابت کیا کہ خواتین کھلاڑی کسی سے کم نہیں: مریم نواز
  • مریم نواز نے باتوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے یوتھ کے دل جیتے، عظمیٰ بخاری
  • BJP کا مسئلہ دہشتگردی نہیں بلکہ پاکستان اور اسلام ہے، حامد میر
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر صرف پاکستان نہیں بلکہ عالم اسلام کے سپہ سالار ہیں : عبدالعلیم خان
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر صرف پاکستان نہیں بلکہ عالم اسلام کے سپہ سالار ہیں : عبدالعلیم خان 
  • خضدا ر میں سکول بس پر نہیں بلکہ ہماری اقدار پر حملہ تھا، وفاقی سیکرٹر ی داخلہ
  • امریکا میں چھوٹا طیارہ آبادی پر گر کر تباہ؛ ہلاکتیں
  • ایک پُرامن قوم، ایک زوردار انتباہ
  • ہیٹ ویو میں اپنی حفاظت کیسے کریں؟