UrduPoint:
2025-07-10@15:14:50 GMT

کولون کیتھیڈرل: جنگ کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

کولون کیتھیڈرل: جنگ کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مئی 2025ء) آج یہ کیتھیڈرل سیاحوں اور مقامی شہریوں کا مرکز نگاہ ہے، جہاں ہر طرف خوش مزاج لوگوں کی قہقہوں بھری باتیں گونج رہی لیکن اس منظر کے پس پردہ ایک سیاہ ماضی چھپا ہے۔ ایک ایسی بھیانک جنگ کی یاد، جس کی گونج آج بھی پورے یورپ میں سنائی دیتی ہے۔

میں کیتھیڈرل کے سامنے ایک سایہ دار درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھی، اس کے گوتھک طرز تعمیر کو نظروں میں سمیٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔

سیاح آ جا رہے تھے، لمحے کو اپنے کیمروں میں قید کر رہے تھے۔ تب ایک بزرگ جرمن، اپنے پوتے کے ساتھ میرے قریب آ کر بیٹھے۔ وہ بچے کو اس تاریخی عمارت کی داستان سنا رہے تھے۔

تجسس کے باعث میں بھی ان کی باتوں میں شریک ہو گئی۔ ان بزرگ نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران کیتھیڈرل کو 14 مرتبہ نشانہ بنایا گیا، لیکن یہ معجزاتی طور پر اپنی جگہ قائم رہا جبکہ پورا کولون شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔

(جاری ہے)

آج کولون ایک بار پھر ایک کثیرالثقافتی شہر ہے۔ مگر اس کی دیواریں اور گلیاں اب بھی اس جنگ کے صدمے کی سرگوشی کرتی ہیں، جس نے اس شہر کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا تھا۔

اس بزرگ کی باتوں نے جہاں ان یادوں کو تازہ کیا، وہیں میرے خیالات بھی اپنے وطن کی طرف بھٹکنے لگے۔ دہلی، لاہور، کراچی، سری نگر، ممبئی، اسلام آباد زندگی سے بھرپور شہر ہیں۔

مگر اگر بھارت اور پاکستان، جو دونوں جوہری طاقتیں بھی ہیں، ایک مکمل جنگ میں اُتر جائیں، تو ان شہروں کے بیچ فاصلہ کچھ بھی معنی نہیں رکھے گا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جدید جنگ کی اصل صورت کیسی ہوتی ہے۔ یہ بہادری یا فتوحات کی کہانی نہیں، بلکہ اجتماعی غم، اندوہناک خبروں اور بےگناہوں کی بربادی کی داستان ہوتی ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی آج بھی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار صرف دشمن کی فوج کو نہیں، بلکہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔

مائیں، بچے، اور بےقصور لوگ۔

جنوبی ایشیا کی سیاست تنازعات کے سائے میں پروان چڑھی ہے۔ اب تک کی لڑائیاں سرحدی علاقوں تک محدود رہی ہیں، لیکن ان کی شدت اور سفاکی کسی بھی وقت بےقابو ہو سکتی ہے۔

آج، ہم ایک نئے محاذ پر جنگ لڑ رہے ہیں۔ ڈیجیٹل میدان میں ایکس پر آرم چیئر جنرلز اور میم ساز دلیر جنگی ماہر بنے بیٹھے ہیں۔ واٹس ایپ گروپس حب الوطنی کے نعرے لگانے والے مجاہدین سے بھرے پڑے ہیں۔

کٹی پارٹی کی آنٹیاں اور مارننگ واک والے انکلز انسٹاگرام اور فلموں سے حاصل کی گئی معلومات کے بل بوتے پر خود کو بین الاقوامی امور کے ماہر سمجھنے لگے ہیں۔

سوشل میڈیا پر جذباتی خطبات اور جنگی مشوروں کی بھرمار ہے۔ مگر یہ سب ایک اہم حقیقت بھول جاتے ہیں: تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔ جنگیں میدانوں میں لڑی جاتی ہیں، مگر ان کے زخم عام انسان سہتے ہیں۔

پنجاب کا کسان، بارہمولہ کا دکاندار، کراچی کے اسکول میں بیٹھا بچہ۔

ایک غلط فیصلہ، ایک چنگاری اور وہ عمارتیں جو آج امن کی علامت ہیں، کل ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہیں۔ انڈیا گیٹ، جو پہلی عالمی جنگ میں مرنے والوں کی یاد میں تعمیر کیا گیا، ایک لمحے میں نشانہ بن سکتا ہے۔ بھارت منڈپم، جدید فن تعمیر کی علامت، راکھ میں بدل سکتا ہے۔ جوابی کارروائی میں، فیصل مسجد، اسلام آباد کا بلیو ایریا، جہاں پاکستان کی پارلیمان اور سپریم کورٹ واقع ہیں، سب خاکستر ہو سکتے ہیں۔

اور پھر کیا ہوگا؟ وہی سیاست دان، جنہوں نے جنگی جنون بھڑکایا، کسی غیر جانبدار مقام پر مہنگے لباسوں میں نمودار ہوں گے، اور "امن" کا اعلان کرتے ہوئے کسی معاہدے پر دستخط کریں گے۔ جبکہ ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کا خاموشی سے سوگ منائیں گے۔ یہ کوئی خیالی داستان نہیں، بلکہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ ہمیں رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

کولون میں امن کی کہانی صرف کیتھیڈرل کی شیشے کی کھڑکیوں اور میناروں میں محفوظ نہیں، بلکہ اس کے بعد کیے گئے جراتمندانہ فیصلوں میں بھی چھپی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے چند سال بعد، فرانس اور جرمنی جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے،نے بیلجیم، اٹلی، لکسمبرگ اور نیدرلینڈز کے ساتھ مل کر یورپی کوئلہ اور اسٹیل کمیونٹی کی بنیاد رکھی، جس نے بعد میں یورپی یونین کی شکل اختیار کی۔ راکھ سے جنم لینے والا یہ تعاون آج یورپ کے اقتصادی اور سماجی اتحاد کی علامت ہے۔

جنگ ماضی کا حصہ ہے، مستقبل کی پیش گوئی نہیں۔

آج ایک جرمن شہری کولون سے ٹرین میں سوار ہو کر چند گھنٹوں میں بغیر ویزے کے پیرس پہنچ سکتا ہے۔ مگر جنوبی ایشیا میں؟ لاہور اور امرتسر جو کبھی تجارت، رشتوں اور مشترکہ ثقافت سے جڑے تھے اب خاردار تاروں، سیاسی تقسیم اور ویزا پابندیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ امرتسر کا سیاح واہگہ پر جا کر رک جاتا ہے، جبکہ لاہور کی بادشاہی مسجد صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہونے کے باوجود اس کی پہنچ سے باہر ہے۔

ہر بار جب کشیدگی بڑھتی ہے، سب سے پہلے تجارت متاثر ہوتی ہے۔ ثقافتی اور خاندانی رشتے، جو پہلے ہی پروپیگنڈا اور پابندیوں کا شکار ہیں، مزید ٹوٹ جاتے ہیں۔ ترقی اور مکالمے کے دروازے شکوک و شبہات کے قفل میں بند ہو جاتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کو یہ سبق سیکھنے کے لیے ایک اور جنگ کی ضرورت نہیں۔ یہ سبق پہلے ہی تقسیم کے زخموں، امرتسر میں دربار صاحب پر فوجی یلغار، کارگل اور دہشت گردی کے حملوں کی جلی ہوئی باقیات میں تحریر ہے۔

امن ہمارا انتخاب نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ اس کے لیے نفرت کی آسان راہ چھوڑ کر کوشش، صبر اور ہمت کا راستہ اختیار کریں۔ یورپ سے سبق حاصل کریں۔ کولون کے کیتھڈرل کے میناروں سے مکالمہ کریں۔ گو کہ وہ خاموش ہیں، مگر وہ ایک کہانی سناتے ہیں۔

کیونکہ جنگ، چاہے کتنی ہی "محدود" یا "سرجیکل نما" ہو، اپنے پیچھے صرف دکھ، بربادی اور صدمے کے سوا کچھ نہیں چھوڑتی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہوتی ہے

پڑھیں:

خاموش لابی۔۔۔۔۔بلندسازشیں

تاریخ کے اوراق پرجب کبھی انسانیت کے مستقبل کے حوالے سے سوالات ابھرتے ہیں،تب سیاست کی بازی گری،عسکری چالاکی اور سفارتی مکاری اپنے جوبن پرنظرآتی ہے۔ حالیہ دنوں میں مشرقِ وسطی کے افق پروہی کہانی ایک نئے باب کے ساتھ ابھری،جہاں امریکی پینٹاگون میں تیارکی گئی خفیہ حکمتِ عملی نے دنیاکی نظریں ایران کی جوہری تنصیبات سے ہٹاکرایک گمنام جزیرے پر مرکوزکردیں۔گویایہ منظروہی تھاجسے عربی محاورے کے مطابق’’چشمِ زدن میں صحراؤں کو گلستان اورگلستانوں کوویرانہ کرنے والی‘‘چال کہاجاسکتا ہے ۔امریکااوراسرائیل کاتعلق محض دو ریاستوں کادوستانہ رشتہ نہیں،بلکہ بیسویں اوراکیسویں صدی کی تاریخ کاسب سے پیچیدہ،ہمہ گیر اورہمہ جہت باب ہے۔یہ باب محض مادی امداداورسیاسی حمایت تک محدود نہیں،بلکہ تاریخی،تہذیبی،اقتصادی اوراسٹریٹجک پہلوئوں کا ہمہ گیرامتزاج ہے۔اس کی بنیادمحض ’’دوستی‘‘ یا ’’اتحاد‘‘کی سادہ تعریف میں سمیٹ دینا تاریخ اور سیاسیات دونوں کی توہین ہوگی۔امریکی سیاسی تاریخ میں اسرائیلی لابی کااثرورسوخ محض محاورہ نہیں بلکہ وہ محکم حقیقت ہے،جووائٹ ہاس اورکیپیٹل ہِل تک پھیلی ہوئی ہے۔اسرائیل اورامریکاکارشتہ محض دوریاستوں کا دوستانہ بندھن نہیں،بلکہ اس کی بنیادگہری اسٹریٹجک ہم آہنگی،مشترکہ تہذیبی بیانیے اورسرمایہ واثرونفوذکی مضبوط زنجیر پراستوارہے۔
(اے آئی پی اے سی)،(اے ڈی ایل)، (جے آئی این ایس اے)،وہ تمام تنظیمیں ہیں جن کے مختلف کرداراورتوجہ اسرائیل اوریہودی قوم سے متعلق ہے،حالانکہ وہ الگ الگ ادارے ہیں۔اے آئی پی اے سی،امریکامیں اسرائیل نوازلابنگ گروپ ہے۔ اے ڈی ایل،(اینٹی ڈیفیمیشن لیگ)سام دشمنی اورنفرت کی دیگراقسام کامقابلہ کرتی ہے،جبکہ اسرائیل سے متعلق مسائل کوبھی حل کرتی ہے۔جے آئی این ایس اے (یہودی انسٹی ٹیوٹ برائے قومی سلامتی امور) امریکی قومی سلامتی اور اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات پر توجہ مرکوزکرتاہے، گویاامریکی سیاست میں اسرائیلی لابی کے اثرورسوخ کایہ عالم ہے کہ امریکامیں کوئی بھی جماعت ان کے تعاون کے بغیرحکومت سے قاصررہتی ہے۔
1948ء میں اسرائیل کی تشکیل کے بعد، سردجنگ کے سائے تلے امریکانے اسرائیل کومحض خطے کااتحادی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کا’’نگہبانِ اقتدار‘‘ قرار دیا۔اسرائیل کا جغرافیائی محلِ وقوع،اس کی جدیدعسکری صلاحیت اوراس کا سٹریٹجک محاذپرہمہ تن مصروف رہناواشنگٹن کی پالیسی کاحصہ بن گیا۔یوں اسرائیل، امریکی سامراجی پالیسی کامحوری ستون بن کر ابھرا اور امریکااوراسرائیل کے مابین حربی اوراسٹریٹجک تانے بانے لازم وملزوم ہوگئے۔امریکاکی سیاسی تاریخ میں اسرائیل کی لابی کااثرورسوخ محض خارجی پالیسی تک محدود نہیں ،بلکہ انتخابی مہمات، قانون سازی اور وائٹ ہاس کی پالیسی ترجیحات تک پھیلاہواہے۔ یہی وجہ ہے کہ1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے فورابعدامریکااس کاسب سے بڑاسفارتی واقتصادی پشت پناہ بن کرسامنے آیا۔
امریکااوراسرائیل کارشتہ محض ریاستی یا اسٹریٹجک اتحادتک محدودنہیں۔یہ تاریخی،تہذیبی اور اقتصادی پہلوئوں کاہمہ گیرحصہ ہے۔ امریکی صدر،خواہ ری پبلکن ہو یا ڈیموکریٹ،اس ناطے کاحصہ بننے اوراس کاتحفظ کرنے پرمجبورہے۔ اے آئی پی اے سی اوردیگر یہودی لابی تنظیمیں امریکاکی داخلی سیاست میں اس درجہ نفوذرکھتی ہیں کہ کسی بھی امریکی صدرکو اسرائیل کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے تاریخی نتائج کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔امریکی تاریخ میں اس امرکی مثالیں موجودہیں کہ اسرائیلی لابی کااثرورسوخ امریکی صدراور پالیسی سازوں پرکس طرح غالب آسکتاہے۔
اس تناظرمیں جان ایف کینیڈی،رچرڈنکسن اوربارک اوباما تین ایسے امریکی صدورتھے، جنہوں نے اپنے دورمیں اسرائیل یااس کی پالیسیوں کوچیلنج کرنے کی جرت کی،یاآزادی سے اقدامات کیے لیکن اس آزادی کی قیمت چکانی پڑی،کیونکہ یہودی لابیوں اور طاقتور تنظیموں نے تینوں کی سخت مخالفت کی۔
1960ء کی دہائی میں جان ایف کینیڈی اوراسرائیل کاتاریخی تنااس بات کااولین مظہر ہے۔ کینیڈی نے اسرائیل کودیمونانیوکلیئرری ایکٹر پرعالمی معائنے کی شرط عائدکرنے کی کوشش کی،اوراس پالیسی نے اسرائیل اوراس کی لابی میں شدیدبے چینی اور مزاحمت کوجنم دیا۔کینیڈی نے اسرائیل پرزور دیا تھا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کوبین الاقوامی معائنے اورکنٹرول میں لائے۔اس کامقصدمشرقِ وسطی میں جوہری اسلحے کی دوڑکاسد باب تھا۔اسرائیلی حکومت نے اس دباؤکو شدید ناپسندکیا۔کینیڈی کاکھلے عام قتل اوراس کے اردگرد تاریخی سازشوں کاتذکرہ محض سازشی نظریہ نہیں بلکہ امریکی سیاسی ذہن میں پائے جانے والے شکوک کاحصہ بھی ہے۔یہ واقعہ اس امرکی طرف اشارہ کرتاہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اوراسرائیلی لابی کاتنامحض سیاسی نہیں،بلکہ تاریخی،اسٹریٹجک اورنفسیاتی محاذکاحصہ ہے۔
رچرڈ نکسن (1969۔1974)کا دور سردجنگ کاحساس ترین حصہ تھا۔اسرائیل اورعرب ریاستوں کامحاذگرم تھااورامریکا دونوں طرف توازن قائم کرنے کی جدوجہدمیں تھا۔ 1973ء کی یومِ کپورجنگ میں اسرائیل کی بقاخطرے میں تھی۔ نکسن نے بڑے پیمانے پراسلحہ اورسازوسامان اسرائیل کومہیاکیا، تاہم اس عمل میں اس کی پالیسی میں تذبذب اور دیگرعرب ریاستوں کوبھی انگیج کرنے کی خواہش اسرائیلی لابی کوناگوارگزری۔
اس دورمیں وزیرخارجہ ہینری کسنجر نے عرب۔ اسرائیل معاملے میں نسبتاً متوازن رویہ اپنایالیکن ہینری کسنجر کااعتدال پسندرویہ جو یہودی لابیوں اوراسرائیل کی سخت گیرقیادت کو ناپسندتھا۔لابیوں نے نکسن کواسرائیل کی حمایت میں ’’کمزور‘‘ اور’’دوغلا‘‘ قراردیا۔ مکافاتِ عمل میں واٹرگیٹ اسکینڈل نے نکسن کواقتدارچھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ بعض مبصرین نے اس ضمن میں یہودی لابیوں اورمیڈیا کارویہ غیرمعمولی سخت قراردیاحالانکہ واٹرگیٹ کامعاملہ قانون اوراحتساب کاحصہ تھالیکن اسرائیل اوریہودی تنظیموں نے اس دوران نکسن کی پالیسیوں کوتنقیدکاحصہ بناتے ہوئے اس کی ساکھ اورسیاسی طاقت کو مزید کمزورکرنے کی کوشش کی۔ واٹرگیٹ کا معاملہ محض قانون شکنی کامعاملہ نہیں رہا بلکہ اقتدارکے قبل ازوقت خاتمہ کے علاوہ سیاسی محاذ پربھی تاریخی دھبہ اور دشمنیوں کاحصہ بن گیا۔ اسرائیل اوریہودی تنظیموں نے یہ پیغام دیاکہ جو امریکی صدراسرائیل یااس کی پالیسیوں پرتنقید کرے گا،وہ اقتدارمیں مشکلات کاشکار ہو سکتا ہے ۔
بارک اوباما 2009۔2017ء ) کا دور مشرقِ وسطیٰ میں نئے چیلنجوں اورنئے رجحانات کادورتھا۔عرب اسپرنگ،ایران نیوکلیئرڈیل اور اسرائیل کی بستیاں بسانے کی پالیسی جیسے مسائل اس دورکی نمایاں نشانیاں بنے۔اوبامانے ایران کونیوکلیئرمیدان میں محدودکرنے اور خطے کوبڑے جنگی خطرے سے بچانے کی خاطر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن تاریخی معاہدہ کیا۔ اسرائیل اوراس کی حامی یہودی لابیوں نے اس معاہدے کواسرائیل کی سلامتی اورامریکی اسٹریٹجک مفادکا ’’ناقابلِ معافی سودا‘‘قراردیا۔نیتن یاہونے امریکی کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے اس معاہدے کی شدیدمخالفت کی،اوراوباماانتظامیہ کواسرائیل دشمن قراردیا۔امریکی یہودی لابی نے اوباماکی پالیسیوں کو ’’تاریخی غلطی ‘‘قرار دیا ۔
اوبامانے فلسطین۔اسرائیل تنازعے میں دوریاستی حل کی تائیداورمغربی کنارے میں اسرائیل کی بستیاں بسانے کی مخالفت کی۔اس پالیسی کوامریکی یہودی لابی نے اسرائیل کی سکیورٹی اوربقاپرحملہ تصورکیا۔اوبامااورنیتن یاہوکی ذاتی اورسیاسی کشمکش وتناؤ اس دورکا حصہ رہی۔اس تناؤنے یہ تاثرمضبوط کیاکہ اوبامااسرائیل اوریہودی لابی کی روایتی حمایت سے کچھ فاصلے پرکھڑے تھے۔ایران ڈیل کی حمایت کرنے والاامریکی صدر،اسرائیل اوراس کی لابی کی نظروں میں’’مخالف‘‘قرار پایا۔ نیتن یاہواوراوباماکی سردمہری نے اسرائیل ۔ امریکاتعلقات میں عارضی تناؤپیداکیا، تاہم روایتی امداداوراسٹریٹجک اتحادبرقراررہا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ رچرڈنکسن اوربارک اوباماکی مثال اس تاریخی سچائی کاحصہ ہے کہ امریکاکی داخلی سیاسی بساط پریہودی لابیوں اوراسرائیلی اثرورسوخ کاغیرمعمولی اثرہے۔ نکسن کادوراس بات کی مثال ہے کہ امریکی صدور کو اسرائیل کی پالیسیوں پر آزادی یاتذبذب کی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔اوباماکادوریہ درس دیتاہے کہ ایک مضبوط صدر،جو سفارت کاری اورامن کی زبان بولے،بھی لابیوں اورتنظیموں کی طاقت کا سامنا کرتے ہوئے تنقید،سیاسی دبااور تاریخی جدوجہد کا حصہ بن سکتاہے۔نکسن اوراوباماکی مثال اس امر کا بھی اعلان ہے کہ اسرائیل کی پالیسیوں اوراس کی لابیوں کا اثر امریکی نظامِ سیاست اوراقتدارکی راہ گزرپرکس حدتک محیط ہے۔
امریکی سیاسی روایت گواہ ہے کہ اسرائیلی لابی کسی بھی صدریاقانون سازکو،جواس کی پالیسی یا مفادات سے متصادم ہو،مختلف محاذوں پرچیلنج کرسکتی ہے۔ میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اوردیگربڑے ذرائع ابلاغ میں اسرائیل نواز بیانیے کافروغ سب سے بڑاہتھیارہوتاہے۔ دوسرااسرائیلی لابی اپنے مالی اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے انتخابی مہمات میں تمام سیاسی پارٹیوں میں چندہ اورسرمایہ کاری کابے دریغ استعمال کرتی ہیں۔قانون سازمحاذمیں مضبوط عمل دخل کے ساتھ سینیٹ اورایوانِ نمائندگان میں اسرائیل حامی ارکان کامحاذآرائی پرآمادہ ہونابھی اس بات کی دلیل ہے اوراس کے ساتھ ہی پینٹاگون اوراسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اسرائیل نوازبیوروکریٹس کامؤثر انتظامی دباؤبھی حکومت کومجبور کردیتاہے۔تین تاریخی مثالوں سے باآسانی سمجھاجاسکتاہے۔ (جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • خاموش لابی۔۔۔۔۔بلندسازشیں
  • عمران خان کی رہائی بچوں یا بہنوں سے نہیں، انکے اپنے طرزِعمل پر منحصر ہے،عرفان صدیقی
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں‘ عدالت عظمیٰ
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ آگیا
  • بینک کا گوشوارہ کافی نہیں۔ آمدن ثابت کرنے اور ٹیکس سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں ،سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں، سپریم کورٹ کا ٹیکس سے متعلق کیس میں فیصلہ
  • عورت کو اتنا خود مختار بنانا چاہیئے کہ وہ مرد کے چلے جانے کے بعد بھی زندگی گزار سکے، احسن خان
  • پاک بھارت جنگ بندی میں امریکی کردار سے انکار  پر بھارت جھوٹا قرار
  • ماحولیاتی تباہ کاریوں کو اب قدرتی نہیں، بلکہ انسان ساختہ جرائم کہیں گے، شیری رحمان