سات مئی : جنوبی ایشیا کے لیے سچائی کی گھڑی
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
سات مئی : جنوبی ایشیا کے لیے سچائی کی گھڑی WhatsAppFacebookTwitter 0 26 May, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
سات مئی 2025 کی علی الصبح، دنیا نے ایک غیر معمولی مظاہرہ دیکھا—قوم کی مضبوط قوتِ ارادی، عسکری نظم و ضبط، تکنیکی برتری اور خدائی تائید کا—جب پاکستان نے بھارتی جارحیت کو فیصلہ کن انداز میں پسپا کرتے ہوئے ایک ایسے تنازعے میں فتح حاصل کی جو چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں ختم ہوا لیکن جنوبی ایشیا کی تزویراتی سوچ کو ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔ یہ صرف ایک فوجی جھڑپ نہ تھی بلکہ ایک تاریخی لمحہ تھا، جہاں سچ نے فریب کو، تیاری نے غرور کو، اور عزم نے لاپرواہی کو شکست دی۔ یہ مختصر جنگ پاکستان کی برتری کی علامت بن گئی، نہ صرف روایتی دفاع میں بلکہ سائبر میدان میں بھی۔
یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب بھارتی افواج نے اپنی سیاسی قیادت کے اکسانے اور عددی طاقت کے زعم میں، لائن آف کنٹرول کے پار، خاص طور پر آزاد جموں و کشمیر کے شہری علاقوں کو نشانہ بناتے ہوئے حملے کیے۔ مگر بھارت یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ وہ اب ایک ایسے پاکستان سے نبرد آزما ہے جسے بے خوفی سے آزمانا ممکن نہیں رہا۔ حملے کے چند لمحوں بعد ہی پاک افواج نے اپنے دفاعی نظام کو فعال کرتے ہوئے فوری، مؤثر اور مکمل ہم آہنگ ردِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ فضائی، زمینی اور بحری افواج نے یکجہتی سے کارروائی کی، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ پاکستان کا دفاعی نظریہ محض ردِ عمل پر نہیں بلکہ تیاری، درستگی اور مؤثر روک تھام پر مبنی ہے۔
تاہم جو چیز عالمی مبصرین کے لیے حیرت کا باعث بنی اور بھارتی کمانڈ کے لیے پریشانی کا سبب، وہ پاکستان کی بے مثال سائبر برتری تھی۔ انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور سائبر کمانڈ نے گزشتہ مہینوں میں ایسی صلاحیتیں حاصل کر لی تھیں کہ وہ بھارت کے حساس ترین نظاموں میں داخل ہو سکیں۔ جیسے ہی بھارتی طیارے فضا میں بلند ہوئے، ان کے مواصلاتی نظام فیل ہو گئے۔ ریڈار سسٹمز اندھے ہو گئے۔ بھارتی بحریہ کے جہازوں نے نیوی گیشن کھو دی، اور ان کے میزائل سسٹم یا تو ناکارہ ہو گئے یا غلط سمت میں فائر ہوئے۔ دہلی، ممبئی اور فوجی مراکز جیسے پٹھان کوٹ اور امبالہ میں بجلی کے بڑے گرڈز سائبر حملوں کی زد میں آ کر بیٹھ گئے۔ حتیٰ کہ بھارت کے میڈیا سسٹمز ہیک ہو گئے، جن پر پاکستان کے جانب سے امن کے پیغامات نشر ہونے لگے—اس کے اس عزم کا اظہار کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، لیکن دفاع کے لیے مکمل تیار ہے۔
بھارتی جنگی مشین کی اس جراحی انداز میں ناکامی، بغیر کسی زمینی تجاوز کے، جدید ہائبرڈ جنگ کے ارتقاء میں ایک تاریخی سنگِ میل بن گئی۔ 8 مئی کو بھارتی پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس میں اس نقصان کا اعتراف کیا گیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کو، عالمی دباؤ اور ملکی تنقید کے پیشِ نظر، تسلیم کرنا پڑا کہ ان کا حملہ پاکستان کی طاقت کو کم سمجھنے کا نتیجہ تھا۔ بین الاقوامی میڈیا—واشنگٹن پوسٹ سے الجزیرہ تک، بی بی سی سے ٹوکیو کے این ایچ کے تک—نے پاکستان کی کارکردگی کو نہ صرف فوجی کامیابی قرار دیا بلکہ قومی اتحاد اور ٹیکنالوجی میں پختگی کی علامت کہا۔ عالمی تھنک ٹینکس نے فوری تجزیے شائع کیے کہ پاکستان ایک “علاقائی سائبر سپر پاور” کے طور پر ابھرا ہے، اور اس کی جنگی حکمت عملی کو فوجی اداروں میں بطور نصاب پڑھایا جا سکتا ہے۔
یہ صرف طاقت یا ذہانت نہیں تھی جس نے پاکستان کو فتح دلائی، بلکہ ایک روحانی اور اخلاقی قوت بھی کارفرما تھی، جو اس قوم اور قیادت کے عقیدے میں پیوست ہے۔ پوری قوم دعا گو رہی، بغیر خوف کے، اس وعدے پر ایمان رکھتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا
” اور کتنی ہی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آ گئیں، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔” (سورہ البقرہ، 2:249)
یہی آیت ہر پاکستانی سپاہی اور شہری کے دل کی دھڑکن بن گئی۔ یاد دہانی کہ فتح محض تعداد یا طاقت سے نہیں، بلکہ ایمان، اتحاد اور عدل سے حاصل ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” ” دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو، لیکن جب آمنا سامنا ہو جائے تو ثابت قدم رہو۔ (صحیح بخاری)
پاکستان نے جنگ کی خواہش نہیں کی، نہ ہی پہل کی۔ اس کا نظریہ ہمیشہ ایک رہا—عزت کے ساتھ امن، اور قوت کے ساتھ دفاع۔ لیکن جب دشمن نے جارحیت کی، تو اس کا جواب جذبات سے نہیں بلکہ حکمت اور حکمت عملی سے دیا گیا۔
چین، روس، ترکی، سعودی عرب، ایران حتیٰ کہ مغربی ممالک نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان نے نہ صرف صلاحیت کے ساتھ بلکہ احتیاط کے ساتھ کام لیا، شہری نقصان سے بچا، اور علاقائی استحکام کو ترجیح دی۔ کئی تجزیہ نگاروں نے پاکستان کی اس جنگی حکمت عملی کو جدید عسکری اتحادوں کے انداز سے تشبیہ دی، لیکن اس میں وہ اخلاقی وضاحت شامل تھی جو صرف ایک حق پر مبنی موقف سے جنم لیتی ہے۔
سب سے بڑھ کر، پاکستانی قوم کا اتحاد قابلِ فخر تھا۔ گلگت کی پہاڑیوں سے گوادر کے ساحلوں تک، ہر مسجد، گرجا، مندر اور گھر میں لوگ اکٹھے دعا گو تھے۔ سول اور عسکری ادارے ہم آہنگ تھے۔ میڈیا نے ذمہ داری سے کام لیا۔ پارلیمنٹ متحد رہی۔ سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ دیے گئے۔ یہی اصل فتح تھی—ایسی فتح جو کسی میزائل یا مالویئر سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔
بھارت کی شکست صرف تباہ شدہ نظام یا ناکام مشنز تک محدود نہ تھی؛ یہ اس کی تزویراتی ساکھ پر کاری ضرب تھی۔ اربوں ڈالر کی وہ دفاعی ٹیکنالوجی جو ناکام ثابت ہوئی، عالمی اسلحہ فروشوں کو سوچنے پر مجبور کر گئی۔ اسلحہ ساز کمپنیاں اور سرمایہ کار ایک ایسے ملک کی کمزوری دیکھ چکے تھے جو اپنے کمانڈ سسٹمز کا تحفظ نہ کر سکا۔ دوسری جانب، پاکستان کے دفاعی برآمدات، سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ سیکٹر اور عالمی ساکھ میں اضافہ ہوا۔
بے شک، 7 مئی 2025 صرف ایک عسکری فتح کی تاریخ نہیں بلکہ وہ دن ہے جب پاکستان کی روح، سائنس اور اخلاص اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے یکجا ہوئے۔ وہ لمحہ جب شہیدوں کے لہو، قوم کی دعاؤں اور بانیانِ پاکستان کے وژن نے مل کر ایک ابدی سچ کو روشن کیا
” یقیناً اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہوگی۔” (سورہ المجادلہ، 58:22)
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپی۔ٹی۔آئی اور ‘معمولِ نو ‘ (NEW NORMAL) پی۔ٹی۔آئی اور ‘معمولِ نو ‘ (NEW NORMAL) معصومیت کا قتل: پاکستان میں بھارت کی پراکسی جنگ گرمی کی لہر فطرت کا انتقام یا انسانوں کی لاپروائی؟ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھنسی لڑکیاں: جدید سوچ، پرانے بندھن ایک پُرامن قوم، ایک زوردار انتباہ پاکستان میں نوجوان نسل اور سگریٹ نوشیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ نے پیوٹن سے ملاقات کے لیے الاسکا ہی کاانتخاب کیوں کیا؟ الیگزینڈر بوبروف کا تجزیہ
الاسکا کو 15 اگست 2025 کے ڈونلڈ ٹرمپ–ولادیمیر پوتن دوطرفہ اجلاس کے مقام کے طور پر منتخب کرنے کا فیصلہ محض ایک جغرافیائی سہولت نہیں بلکہ ایک نادر قسم کی علامتی اہمیت رکھتا ہے۔
یہ ماضی کی گہرائیوں میں جاتا ہے، موجودہ جغرافیائی و سیاسی توازن کی عکاسی کرتا ہے، اور مستقبل کے امریکا روس تعلقات کے ممکنہ خدوخال کی جھلک دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر زیلینسکی نے الاسکا میں امریکی اجلاس کو پیوٹن کی ’ذاتی فتح‘ قرار دیدیا
تاریخی یادداشت کے لحاظ سے امریکا میں کوئی اور جگہ ایسی نہیں جو ’ہمسائیگی‘ اور باہمی فائدے پر مبنی تعاون کی اُس روح کو اس قدر نمایاں کرے جو سرد جنگ کے دوران ختم ہو گئی۔
1737 سے 1867 تک یہ وسیع اور کم آبادی والا خطہ ’روسی امریکا‘ کہلاتا تھا، روسی سلطنت کا نیم دُورافتادہ حصہ، جو اپنے یوریشیائی مرکز سے الگ لیکن ایک اور ریاست کی سرحد سے ملا ہوا تھا۔
زاریہ الیگزینڈر دوم کا الاسکا کو 72 لاکھ ڈالر میں امریکا کو فروخت کرنے کا فیصلہ 19ویں صدی کی سب سے زیادہ بحث انگیز سفارتی ڈیلز میں سے ایک تھا۔
اُس وقت سینٹ پیٹرزبرگ میں یہ بات واضح تھی کہ اگر الاسکا کو چھوڑ دیا گیا تو وہ برطانوی سلطنت کے ہاتھ لگ سکتا ہے، جو اُس وقت روس کی سب سے بڑی حریف تھی۔ چنانچہ اسے واشنگٹن کے حوالے کرنا کمزوری نہیں بلکہ مستقبل کے تعلقات میں ایک سرمایہ کاری سمجھی گئی۔
20ویں صدی میں یہ علامتی رشتہ ایک نئی معنویت اختیار کر گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران، فیئربینکس شہر، جس کی آبادی صرف تیس ہزار تھی، ’لینڈ-لیز‘ پروگرام کا ایک اہم مرکز بنا، جہاں سے امریکا نے سوویت یونین کو جہاز، سازوسامان اور مواد فراہم کیا۔ الاسکا کے ہوائی اڈے امریکی طیاروں کو مشرقی محاذ تک پہنچانے کے اہم راستے تھے۔
آج بھی الاسکا کو امریکا کی ’سب سے روسی‘ ریاست سمجھا جاتا ہے، جہاں 19ویں صدی میں مذہبی آزادی کی تلاش میں آنے والے ’اولڈ بیلیورز‘ آباد ہیں، اور جہاں آرتھوڈوکس چرچ، نیکولائیفسک اور ووزنی سینسک جیسے مقامات کے نام، اور روسی جھیلوں کے کنارے اب بھی موجود ہیں۔
لیکن الاسکا کا انتخاب صرف تاریخ کو سلامی نہیں، بلکہ ایک سیاسی حکمت عملی بھی ہے۔ ٹرمپ واضح طور پر یہ نہیں چاہتے کہ کسی تیسرے فریق جیسے ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان یا متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید النہیان، جو اہم بین الاقوامی ثالثی کردار ادا کرتے ہیں، اجلاس کے ایجنڈے اور لہجے کو بدلیں۔
ٹرمپ نے امریکا کی سب سے جغرافیائی طور پر دُور دراز ریاست کا انتخاب کر کے اپنے ڈیموکریٹک حریفوں اور نیٹو اتحادیوں سے فاصلے کا اشارہ دیا ہے۔ ان اتحادیوں کی بڑی تعداد، کیف کے مفاد میں، کسی بھی ممکنہ پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گی۔
عملی اعتبار سے بھی یہ فیصلہ موزوں ہے
الاسکا کی کم آبادی سیکیورٹی ایجنسیز کے لیے دہشتگردی یا کسی منصوبہ بند اشتعال انگیزی کے خطرات کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے گرفتاری وارنٹ کے قانونی مسائل سے بچاتی ہے۔ امریکہ 2002 میں روم اسٹیچیوٹ سے دستبردار ہو چکا ہے اور اپنی زمین پر ICC کے دائرۂ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا۔
اس انتخاب کا ایک اور پہلو بھی ہے
الاسکا امریکہ کا واحد حقیقی آرکٹک خطہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ٹرمپ انتظامیہ کینیڈا اور گرین لینڈ پر زیادہ امریکی اثر قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ’ہائی نارتھ‘ ایک اہم اسٹریٹجک میدان بن رہا ہے۔ روس اور امریکا کے یہاں مشترکہ مفادات ہیں، برنگ اسٹریٹ کے راستے ’شمالی سمندری راہداری‘ کی ترقی سے لے کر سمندری تیل و گیس کے ذخائر تک۔ لومانوسوف رِج، جسے روس اپنے براعظمی شیلف کا فطری حصہ قرار دیتا ہے، اس کی ایک مثال ہے۔
مشترکہ آرکٹک منصوبے اس خطے کو دنیا کے خوشحال ترین علاقوں میں بدل سکتے ہیں، یا پھر یہ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات اور فضائی دفاعی مشقوں کا میدان بھی بن سکتا ہے۔
یوکرین کا مسئلہ اس اجلاس کے ایجنڈے پر غالب رہے گا۔ مغربی میڈیا نے پہلے ہی علاقائی تبادلوں کے امکان کی خبر دی ہے، مثلاً روس کی جانب سے سومی، خارکیف، دنیپروپیٹرووسک اور نکولائیف کے کچھ حصوں میں رعایت کے بدلے یوکرینی افواج کا دونیتسک عوامی جمہوریہ سے انخلا۔ مغربی تجزیہ کار بھی مانتے ہیں کہ یہ ماسکو کی بڑی سفارتی کامیابی ہوگی، کیونکہ روس جس غیر مقبوضہ علاقے پر قبضہ کرے گا وہ ان علاقوں سے چار گنا بڑا ہوگا جن سے وہ دستبردار ہوگا۔
الاسکا اس قسم کی بات چیت کے لیے موزوں علامتی پس منظر فراہم کرتا ہے
اس کی اپنی تاریخ یاد دلاتی ہے کہ سرحدی ملکیت کوئی ابدی حقیقت نہیں بلکہ ایک سیاسی و سفارتی متغیر ہے جو مخصوص تاریخی مواقع پر بڑی طاقتوں کے معاہدوں سے طے پاتا ہے۔
الاسکا میں ہونے والا یہ اجلاس محض دو رہنماؤں کی ملاقات نہیں بلکہ براہِ راست اور بلاواسطہ مکالمے کی واپسی، تاریخی روابط کی یاد دہانی، اور اس بات کا امتحان ہے کہ آیا ماسکو اور واشنگٹن اُن جگہوں پر ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں جہاں اُن کے مفادات نہ صرف ملتے ہیں بلکہ یکساں بھی ہو سکتے ہیں۔
الاسکا کی کہانی روسی طور پر شروع ہوئی، امریکی طور پر جاری رہی — اور اب یہ ایک مشترکہ باب بن سکتی ہے، اگر دونوں فریق اسے موقع سمجھیں، خطرہ نہیں۔
تجزیہ نگار الیگزینڈر بوبروف تاریخ میں پی ایچ ڈی، انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک ریسرچ اینڈ فار کاسٹس کے شعبۂ سفارتی مطالعات کے سربراہ، کتاب The Grand Strategy of Russia کے مصنف، اور Diplomacy and the World ٹیلیگرام چینل کے منتظم ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الاسکا امریکا روس صدر پیوٹن صدر ٹرمپ مذاکرات یوکرین