پیدائش میں تاخیر سے بچے کی ہلاکت، عدالت نے انکوائری کا حکم دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
کراچی کی مقامی عدالت نے بچے کی پیدائش میں تاخیر پر متعلقہ پرائیویٹ اسپتال کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسپتال پہنچنے کے باوجود بچے کی بس میں پیدائش، اصل معاملہ کیا رہا؟
ڈیلیوری کے دوران غفلت برتنے سے بچے کی ہلاکت کے خلاف درخواست کی سماعت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ضلع شرقی کے روبرو پیش ہوئی۔
عدالت کی جانب سے درخواست پر پرائیویٹ انکوائری کروانے کا حکم دے دیا گیا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی پرائیویٹ انکوائری کی سربراہی کریں گے۔
عدالت نے درخواست گزار کو اپنے تمام گواہوں کو مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرنے اور تمام گواہوں کو مجسٹریٹ کے پاس 4 جون کو اپنے بیان قلمبند کروانے کی ہدایت کردی۔
شہری کی جانب سے پٹیل اسپتال کے خلاف 10 کروڑ کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا گیا تھا اور مؤقف اپنایا گیا کہ شہری اپنی اہلیہ کو ڈیلیوری کے لیے اسپتال لے کر گیا لیکن 15 گھنٹے تک ڈیلیوری نہیں کی گئی۔
مزید پڑھیے: کم عمری کی شادی حاملہ خواتین میں موت کا بڑا سبب قرار
وکیل مدعی ایڈوکیٹ عبد الاحد کے مطابق اسپتال میں رات کے اوقات میں کوئی ڈاکٹر ہی موجود نہیں تھا، بچہ پیدا ہوا تو ماں اور بچے کو کئی زخم آئے، بچہ 16 دن وینٹیلیٹر پر رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔
سندھ ہیلتھ کمیشن کیئر بھی اسپتال اور متعلقہ ڈاکٹر پر جرمانہ کر چکے ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق اس سے قبل 3 بچوں کی پیدائش نارمل ہوئی تھی جبکہ اس بار اسپتال انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے بچے کی حالت خراب ہوئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسپتال کے خلاف انکوائری پٹیل اسپتال کراچی کراچی پرائیویٹ اسپتال کی غفلت.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف درخواست، عدالت نے کیا حکم دیا؟
کراچی کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت غربی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست ابتدائی سماعت کے بعد مسترد کردی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ درخواست قابلِ سماعت نہیں ہے کیونکہ پاکستانی قوانین کے تحت ایسے جرم کی سماعت ممکن نہیں جو ملک کی حدود سے باہر پیش آیا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی شہریت اب صرف پیدائش سے نہیں ملے گی، سپریم کورٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیدیا
درخواست گزار جمشید علی خواجہ کے وکیل جعفر عباس جعفری نے مؤقف اختیار کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر ایران میں بمباری کی گئی، جس سے خطے میں بدامنی پھیلی اور لاکھوں پاکستانی شہری متاثر ہوئے۔ وکیل نے کہا کہ چونکہ امریکہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا رکن نہیں، اس لیے درخواست گزار نے پاکستان کی عدالت سے رجوع کیا ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ویانا کنونشن 1961 کے تحت اگرچہ ہیڈ آف دی اسٹیٹ کو گرفتاری سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، تاہم ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ٹرمپ کی گرفتاری نہیں بلکہ صرف مقدمے کے اندراج کی استدعا کررہے ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پاکستانی تعزیرات کی دفعات 124، 125، 126 اور 228 کے تحت مقدمہ بنتا ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے سوال کیا کہ وہ ویانا کنونشن کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ جواب میں وکیل نے کہا کہ وہ اس کنونشن سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، اور یہی استثنیٰ گرفتاری تک محدود ہے، قانونی کارروائی سے نہیں روکتا۔
یہ بھی پڑھیں: شام پر عائد بیشتر امریکی پابندیاں ختم، صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کردیے
سرکاری وکیل نے دلائل میں کہا کہ پاکستان کا قانون اور ویانا کنونشن دونوں ہی کسی بھی ملک کے سربراہِ مملکت کو استثنیٰ دیتے ہیں، اور ایسے شخص کے خلاف مقدمہ نہ صرف ناقابلِ سماعت ہے بلکہ قانونی طور پر بے بنیاد بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں، خصوصاً ڈاکس تھانے یا ضلع غربی کی حدود میں ایسا کوئی جرم وقوع پذیر نہیں ہوا ہے جو اس عدالت کے دائرہ اختیار میں آئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران میں بمباری ہوئی اور یہ بات قانوناً غیر منطقی ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ پاکستان میں درج ہو۔
سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر واقعی عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمات درج ہونے لگیں تو پھر نریندر مودی اور نیتن یاہو جیسے دیگر عالمی رہنماؤں کے خلاف بھی پاکستان میں مقدمات دائر کیے جانے چاہئیں، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ عدالت نے سرکاری وکیل کو معاونت کے لیے طلب کیا تھا، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے اعتراض کیا، تاہم عدالت نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے سرکاری وکیل کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی قریب؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑا دعویٰ
دونوں وکلا کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، تاہم عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کو امریکی فیڈرل قانون کے تحت بھی استثنیٰ حاصل ہے اور ویانا کنونشن 1961 کے تحت بھی، اور پاکستانی قوانین صرف انہی جرائم کے ٹرائل یا انکوائری کی اجازت دیتے ہیں جو پاکستان میں پیش آئیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں بھی 2013 میں پشاور ہائیکورٹ نے امریکی ڈرون حملوں کے خلاف کوئی ایسا حکم جاری نہیں کیا تھا، لہٰذا اس مقدمے کی نظیر بھی موجود نہیں۔
عدالت نے کہا کہ مقدمہ نہ تو قابلِ سماعت ہے، نہ قانونی دائرہ اختیار میں آتا ہے، اس لیے اسے خارج کیا جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیل امریکا ایران پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کراچی گرفتاری