Express News:
2025-07-28@18:53:50 GMT

بلاول کی دانشمندانہ تجویز

اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT

نوجوان سیاست دان، پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور امریکا میں پاکستان کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے والے وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ایک معقول تجویز پیش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ "ISI-RAW cooperation could reduce terrorism"۔ انھوں نے اپنے اس نئے بیانیے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بات کا کامل یقین ہے کہ پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیز کے حکام ایک دوسرے سے رابطہ کریں تو دونوں ممالک میں دہشت گردی کا قلع قمع ہوسکتا ہے۔ عالمی برادری کو اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان تصادم خطرناک صورتحال اختیارکرسکتا ہے۔

بلاول بھٹو نے اس موقعے پر یہ بھی کہا کہ عالمی برادری، خاصوصاً صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی مداخلت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہوگئی تھی مگر یہ پہلا خوش آیند اقدام تھا۔ بلاول نے اس بات پر خصوصی زور دیا کہ یہ محض پہلا قدم ہے۔ بلاول بھٹو نے امریکا کے دورہ کے دوران مستقل اس بیانیہ پر زور دیا کہ بات چیت اور ڈپلومیسی ہی امن کی طرف جانے والا واحد راستہ ہے اور پاکستان بھارت سے تمام مسائل پر جن میں دہشت گردی شامل ہے، جامع مذاکرات کرنے کا خواہاں ہے۔

اس کے ساتھ ہی وزارت خارجہ نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کو حقیقت سے دور قرار دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ سمیت تمام معاہدے ختم ہوچکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت 1948کے وقت کشمیر میں ہونے والی جنگ بندی کی صورت حال کے قریب ہیں۔ وزارت خارجہ کے ذرایع نے ایک غیر رسمی اعلامیہ میں واضح کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی میں ہونے والے معاہدے موجود ہیں۔

 2008میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صدر آصف زرداری نے اپنی پہلی تقریر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے تجویز پیش کی تھی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیانی سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کیے جائیں گے۔

کچھ عرصہ کے بعد ممبئی میں دہشت گردی کی سنگین واردات ہوئی جس میں 72 کے قریب افراد ہلاک ہوئے، پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے عالمی واقعات کے تناظر میں فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ عسکری ایجنسی کے ڈی جی کو نئی دہلی بھیجا جائے تاکہ ممبئی دہشت گردی کی تحقیقات کا رخ شفاف طریقے سے ہو اور اس سانحہ کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا ہوسکے مگر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی یہ دانش مندانہ تجویز طالع آزما قوتوں کو گراں گزری، مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل صحافیوں نے بھی اس تجویزکے خلاف واویلا کرنا شروع کردیا۔

یوں ایک جذباتی ماحول پیدا ہوگیا۔ مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے بھی اس تجویز کی مخالفت کردی۔ یوں حکومت کو یہ تجویز واپس لینا پڑی مگر اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ بھارت نے امریکا کی مدد سے پاکستان کو ایشیا اور مشرق بعید کی Financial Action Task Force کی گرے فہرست میں شامل کر ادیا ۔ پاکستان کو FATFکی سفارشات پر عملدرآمد کرنا پڑا ۔

 پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947 سے کشمیر کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تنازع کی بناء پر دو بڑی جنگیں اور پانچ سے زیادہ چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں۔ 1971 کی جنگ کے بعد اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی بصیرت کی بنا پر شملہ معاہدہ ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات دوبارہ قائم ہوئے۔ شملہ معاہدہ میں یہ طے ہوا کہ دونوں ممالک تمام تنازعات پرامن بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔

اس مقصد کے لیے سیکریٹریوں کی سطح پر بات چیت کے علاوہ وزراء خارجہ کی سطح پر بات چیت اور دونوں ممالک کے سربراہوں کی بات چیت پر اتفاق کیا گیا۔ شملہ معاہدہ کے تحت صرف اسلام آباد اور نئی دہلی میں ہی دونوں ممالک کے ہائی کمیشن نے کام شروع کیا بلکہ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ کراچی اور ممبئی میں قونصل خانے کھولے جائیں گے۔ اس فیصلے کے تحت کراچی میں بھارت کا قونصل خانہ کھل گیا مگر بعض تکنیکی مسائل کی بناء پر ممبئی میں پاکستان کا قونصل خانہ قائم نہ ہوسکا۔ یوں دونوں ممالک کے شہریوں کو ویزے کے حصول میں آسانی ہوئی اور پھر دونوں ممالک کے درمیان تجارت شروع ہوگئی۔ بھارت نے پاکستان کو تجارتی شعبہ میں انتہائی پسندیدہ ملک Most Favourite Nationکا درجہ دیا۔

اس معاہدے کی روح کے مطابق وزیر اعظم واجپائی دوستی بس کے ذریعے لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر حاضری دی مگر کارگل جنگ نے معاملات الٹ دیے، وزیر اعظم نواز شریف کی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو نقصان ہوا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔

صدر پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو وہ آگرہ گئے مگر آگرہ سربراہ کانفرنس ناکام ہوگئی۔ اس وقت کے بھارت کے وزیر اعظم واجپائی نے کہا تھا کہ صدر مشرف کو تاریخ کا ادراک نہیں ہے مگر جب صدر مشرف نے پاکستان کی روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے 6نکات پیش کیے تو بھارت کی حکومت فوری طور پر فیصلہ نہ کرسکی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دوبارہ اقتدار میں آتے ہی بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کیے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی لاہور آئے ۔ لیکن اندرونی خلفشار کے نتیجے میں میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا۔

 بلاول بھٹو نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس میں یہ درست مؤقف اختیارکیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے پانی کو روکنے کے لیے سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا ہے جو آبی جارحیت ہے ، یہ تنازع ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی یہ تجویز درست ہے کہ مذاکرات اور ڈپلومیسی ہی مسائل کے حل کا طریقہ کار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی قوتیں امریکا اور چین مستقل مذاکرات کے عمل میں مصروف رہتی ہیں۔ صدر ٹرمپ مستقل چین پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں مگر پھر بھی صدر ٹرمپ اور چین کے مرد آہن Liqiang نے دیر تک ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ بلاول بھٹو کی دانش مندانہ تجویز پر بھارت کو مثبت ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت کے درمیان دونوں ممالک کے درمیان شملہ معاہدہ کہ پاکستان پاکستان کے پاکستان کو بلاول بھٹو تعلقات کو نواز شریف بات چیت

پڑھیں:

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر عائد تجارتی پابندیوں کے خاتمے پر بڑی پیش رفت، دونوں ممالک کا ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندیوں کے خاتمے پر اتفاق

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 جولائی2025ء)افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر عائد تجارتی پابندیوں کے خاتمے کے سلسلے میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے، دونوں ممالک کا ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندیوں کے خاتمے پر اتفاق کر لیا ہے۔ذرائع وزارت تجارت کے مطابق افغانستان نے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں اضافے کے لیے پاکستان سے سہولیات مانگ لی ہیں، پاکستان کی جانب سے جائزے کے بعد پابندیاں ہٹانے پر اتفاق کیا گیا۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندیاں ختم کرنے کا معاملہ حالیہ مذاکرات میں آیا تھا، جس میں افغان وفد کی قیادت نائب وزیر صنعت و تجارت اور پاکستانی وفد کی قیادت سیکریٹری تجارت نے کی تھی، مذاکرات میں افغانستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ پر تمام پابندیاں ختم کرنے کی تجویز دی تھی اور تمام اشیا پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

(جاری ہے)

افغان حکومت کا موقف تھا کہ افغانستان کی معیشت بہتر ہونے سے افغانستان کی درآمدات بڑھ گئی ہیں، اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے باعث افغانستان کی معیشت کا حجم بڑھ رہا ہے۔

چناں چہ پڑوسی ملک نے ٹرانزٹ ٹریڈ پر SRO1397/2023 ختم کرنے کی تجویز دی۔افغانستان صنعتی استعمال کے لیے مطلوب ضروری اشیا کی لسٹ فراہم کرے گا، پاکستان نے ضروری اشیا کا جائزہ لے کر پابندی والی لسٹ سے مصنوعات کے نام نکالنے کی یقین دہانی کرائی، پڑوسی ملک کی جانب سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی اشیا پر 10 فی صد پروسیسنگ فیس بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔پاکستان کا کہنا تھا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے 53 فی صد اشیا پر پابندی پہلے ہی ختم کی جا چکی ہے، پاکستان کی جانب سے پروسیسنگ فیس کے خاتمے کے لیے افغانستان سے لسٹ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا، فہرست کا جائزہ لینے کے بعد پراسیسنگ فیس خاتمے کے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • وزیر خزانہ محمد اورنگزیب تجارتی مذاکرات کی تکمیل کیلئے پھرامریکا روانہ
  • سیز فائر نہ کراتا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی جنگ ہوتی، ٹرمپ
  • سیز فائر نہ کراتا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان دنیا کی سب سے بڑی جنگ ہوتی؛ ٹرمپ
  • افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر عائد تجارتی پابندیوں کے خاتمے پر بڑی پیش رفت، دونوں ممالک کا ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندیوں کے خاتمے پر اتفاق
  • پاکستان اور اماارات کے درمیان سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ پر ویزا چھوٹ پر اتفاق؛ اسحاق ڈار
  • اماارات کیساتھ سفارتی و سرکاری پاسپورٹ پر ویزا چھوٹ پر اتفاق ہو گیا: اسحاق ڈار
  • ‎وفاقی وزیر احسن اقبال سے چینی سفیر جیانگ زائیڈونگ کی اہم ملاقات
  • چین کی دنیا بھر کے لیے اے آئی تعاون کی نئی عالمی تنظیم کی تجویز
  • تھائی لینڈ-کمبوڈیا جنگ نے پاک بھارت کشیدگی یاد دلا دی، امریکی صدر ٹرمپ 
  • ’’ہیپی برتھ ڈے صدر زرداری‘‘،70 ویں سالگرہ پر بلاول،بختاور،آصفہ، فریال اور جیالوں کی مبارکباد