’بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد پاک-افغان سفارتی تعلقات میں بہتری انتہائی اہمیت کی حامل ہے
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
’بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد پاک-افغان سفارتی تعلقات میں بہتری انتہائی اہمیت کی حامل ہے‘
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) تجز یہ نگارزاہد حسین کے مطابق ایک ڈرامائی پیشرفت میں پاکستان اور افغانستان نے اپنے سفارتی تعلقات کو سفارتی سطح پر اپ گریڈ کرنے پر اتفاق کیا ہے جو افغان طالبان کی حکومت کی واپسی کے بعد سے پیدا ہونے والے انتہائی کشیدہ دو طرفہ تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
ڈان کے مطابق یہ اعلان گزشتہ ماہ بیجنگ میں چین، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان غیر رسمی سہ فریقی اجلاس کے بعد کیا گیا۔ اس حیران کن اقدام کو تیزی سے ترقی پذیر علاقائی جغرافیائی سیاست میں انتہائی اہم سمجھا جارہا ہے۔
صرف چند ممالک جیسے چین، روس، متحدہ عرب امارات اور ازبکستان نے 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان سفیروں کی میزبانی کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان نے بھی کابل میں قونصل خانے کی سطح پر اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے۔ تاہم ابھی تک کسی ملک نے طالبان انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ خواتین کو تعلیم اور کام کے حق سے روکنے کی طالبان کی پالیسی ہے۔ قیادت کونسل میں سخت گیر افراد کے تسلط کے پیش نظر طالبان کی حکومت سے اپنی قدامت پسند پالیسی کو معتدل کرنے کی توقع کرنا مشکل ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ پاک افغان پیش رفت بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ تنازع کے بعد ہوئی ہے جس نے خطے کو ایک وسیع تر بحران کی جانب دھکیلنے کا خطرہ پیدا کردیا تھا۔ اس دوران افغان حکومت بھارت کے قریب تر ہوتی جارہی تھی۔ یہ اس بات کی وضاحت کرسکتا ہے کہ کیوں بہت سے ماہرین بالخصوص بھارتی میڈیا میں یہ سوچ پائی جارہی تھی کہ تنازعے کے دوران طالبان بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔
تاہم بیجنگ اجلاس نے حالات کی تبدیلی کا عندیہ دیا۔ جہاں دونوں ہمسایہ ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات کو ٹھیک کرنے میں چین کا کردار واضح ہے وہیں دونوں جانب سے سفارتی حساسیت کا بھی مظاہرہ کیا گیا جس نے برف کو پگھلانے میں مدد کی۔ سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کا فیصلہ واقعی ایک مثبت اقدام ہے۔ یہ مختلف شعبہ جات میں دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ یہ قدم بڑھتے ہوئے روابط، اقتصادی، سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی اور تجارتی شعبہ جات میں پاک-افغان تعاون کو مزید گہرا کرنے اور دو برادر ممالک کے درمیان مزید تعامل کو فروغ دے گا‘۔ تاہم ان کے درمیان اب بھی سنگین مسائل ہیں جو ان کے تعلقات کو مکمل طور پر بہتر بنانا بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔
طالبان 2.
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی کے دہشتگردانہ حملوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ عسکریت پسند اب بہت بہتر طریقے سے مسلح اور تربیت یافتہ ہیں۔ وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جو 2021ء میں امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کے بعد چھوڑ گئے تھے۔ لیکن ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے اور پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے دہشتگرد حملوں کا مکمل الزام کابل پر ڈالنا درست نہیں ہے۔
ہماری سر تسلیم خم کرنے کی پالیسی بنیادی طور پر ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے کی وجہ بنی۔ اس سے قبل ریاست نے افغان طالبان انتظامیہ کے اصرار پر نہ صرف کچھ کالعدم عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ امن مذاکرات کی کوشش کی بلکہ ہزاروں بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجوؤں کو پاکستان واپس آنے کی اجازت بھی دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عسکریت پسندوں کو مشرقی سرحد پار سے بھی حمایت مل رہی ہے۔ تاہم غلطی عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے میں ہماری ناقص اور غیر مربوط حکمت عملی میں بھی ہے۔
پاکستان نے افغانستان میں عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانوں پر بھی بمباری کی ہے۔ ان مایوس کن کارروائیوں کے قابلِ اعتراض نتائج برآمد ہوئے جبکہ سرحد پار سے ہونے والی کارروائیوں سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ کابل میں حکومت نے پاکستان کے خلاف اپنی پوزیشن سخت کرلی۔
پاکستان نے افغان شہریوں پر اس کی سرزمین پر ہونے والے کچھ دہشتگردانہ حملوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا لیکن ان الزامات کو کابل نے یکسر مسترد کیا ہے۔ جوابی کارروائی کے طور پر اسلام آباد نے لاکھوں غیر قانونی اور یہاں تک کہ دستاویزی افغان مہاجرین کو ملک بدر کر دیا ہے جن میں سے کچھ اسی ملک میں پیدا ہوئے اور کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم تھے۔ اکتوبر 2023ء سے تقریباً 8 لاکھ 45 ہزارافغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں جبکہ تقریباً 30 لاکھ اب بھی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان اس سال انہیں ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسلام آباد کا اسی ناقابلِ فہم اقدام نے کابل کے ساتھ تناؤ میں مزید اضافہ کیا ہے۔
سرحدوں کی بار بار بندش نے بھی پاکستان کے خلاف افغانستان کے غصے کو بھڑکایا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں خلل ڈالا ہے۔ اس صورت حال میں بھارت نے طالبان حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کی ہے۔ اس سال کے آغاز میں بھارتی سیکرٹری خارجہ نے دبئی میں افغان وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی۔ بھارت کی سفارتی رسائی نے قدامت پسند طالبان حکومت کی جانب اس کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کی۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، کابل اور نئی دہلی کے درمیان اعلیٰ سرکاری سطح پر ہونے والی ملاقاتوں نے طالبان کی حکومت کو اصل جواز فراہم کیا۔ طالبان حکومت نے اشارہ دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے جبکہ انہوں نے بھارت کو ایک ’اہم علاقائی اور اقتصادی طاقت‘ قرار دیا۔ درحقیقت مقبوضہ کشمیر میں پہلگام دہشتگردانہ حملے کی کابل کی شدید مذمت کی تو کچھ لوگوں نے اس امر کو اس علامت کے طور پر لیا کہ طالبان پاکستان کے خلاف بھارت کی فوجی کارروائیوں کی حمایت کررہے ہیں۔
اس پیش رفت سے بیجنگ اور اسلام آباد میں تشویش کو جنم دیا۔ چین نے طالبان حکومت کے ساتھ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بہت قریبی تعلقات استوار کیے ہیں۔ یہ پہلا ملک تھا جس نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو بڑھاتے ہوئے سفیر تعینات کیے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ بیجنگ کا کابل اور اسلام آباد دونوں پر مضبوط اثر و رسوخ ہے جس کی وجہ سے اسے ثالث کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔
جب پاکستان کے وزیر خارجہ سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچے تو سہ فریقی ملاقات کا کوئی طے شدہ شیڈول نہیں تھا۔ افغان وزیر خارجہ خصوصی دعوت پر بیجنگ گئے تھے۔ تاہم ملاقات نے جغرافیائی سیاسی اہمیت کا ایک مثبت نتیجہ نکالا۔ یقیناً کابل پر دباؤ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف سرحد پار سے دہشتگرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ پھر بھی اسلام آباد کو کابل حکومت کے ساتھ اپنے کثیر جہتی تعاون کو مزید وسعت دینی چاہیے۔
عید الاضحیٰ پر کتنی ہزار شکایات موصول ہوئیں : وزیر بلدیات ذیشان رفیق نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: سفارتی تعلقات پاکستان کے بڑھتے ہوئے اسلام آباد تعلقات کو پاک افغان طالبان کی کے درمیان نے طالبان ممالک کے بھارت کے کے ساتھ کے بعد کیا ہے
پڑھیں:
بھارت کے لیے پاکستان سے تعلقات خراب نہیں کرسکتے، امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے کہا ہے کہ امریکا بھارت کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات نہیں بگاڑ سکتا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے دہشتگردی کیخلاف مثبت اور فعال کردار کی پوری دنیا معترف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی کمانڈر امریکی سینٹرل کمانڈ سے ملاقات
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جنرل کوریلا کا کہنا تھا کہ’’داعش خراسان اس وقت عالمی سطح پر سب سے سرگرم دہشتگرد تنظیموں میں شمار ہوتی ہے، پاکستان ایک غیر معمولی انسدادِ دہشتگردی شراکت دار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
جنرل کوریلا نے اعتراف کیا کہ’پاکستان کے ساتھ قریبی انٹیلی جنس تعاون کے نتیجے میں داعش خراسان کے درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک اورگرفتار کیا گیا‘ ان گرفتاریوں میں تنظیم کے کم از کم 5 انتہائی مطلوب رہنما بھی شامل ہیں، پاکستانی حکام نے انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے امریکا کو کئی اہم کامیابیاں دلائیں، ان کامیابیوں میں ایبے گیٹ بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ جعفر کی گرفتاری اور اس کی حوالگی شامل ہے، اس گرفتاری کے فوراً بعد، چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ذاتی طور پر رابطہ کر کے اطلاع دی۔
یہ بھی پڑھیں: انتہا پسندی و دہشتگردی کے خلاف توانا آواز، امریکی جریدے کا آرمی چیف کو خراج تحسین
جنرل کوریلا نے کہا کہ پاکستان محدود مگر مؤثر انٹیلیجنس معلومات کے تبادلے کے ذریعے داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اس وقت یہ دہشتگرد گروہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدی پٹی میں سرگرم ہے، پاکستان کی شراکت داری انسداد دہشتگردی کے عالمی تناظر میں انتہائی اہم اور مؤثر ثابت ہو رہی ہے، 2024ء کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مغربی علاقوں میں ایک ہزار سے زائد دہشتگرد حملے ہوئے، ان حملوں میں تقریباً 700 سیکورٹی اہلکار اور شہری جاں بحق اور 2500 زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان فعال انسداد دہشتگردی کی جنگ لڑ رہا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داعش خراسان کمزور ہو چکی اور اس کی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے، اس کی بنیادی وجہ حالیہ مہینوں میں انہیں پہنچنے والا بھاری نقصان ہے، ہمیں پاکستان اور بھارت دنوں کے ساتھ تعلقات رکھنا ہوں گے، میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی ایسا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ اگر بھارت سے تعلق ہو تو پاکستان سے نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کیخلاف تعاون پر پاکستان اورامریکا کا اتفاق رائے
انہوں نے کہا کہ بھارت کے لیے ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات نہیں بگاڑ سکتے،یہ تعلق امریکا کی قومی سلامتی کے لیے اہم ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں