Jasarat News:
2025-06-22@01:31:32 GMT

امن کا نوبیل انعام ٹرمپ کو دیا جا سکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نوبیل انعام دنیا کا سب سے معتبر اور مشہور انعام ہے جو ہر سال اْن افراد یا اداروں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود، علم، ادب، یا امن کے میدان، جنگوں کی روک تھام میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہوں۔ تاہم، حالیہ دنوں میں جب یہ خبر منظرعام پر آئی کہ ایک غیر متوقع اقدام میں، حکومت ِ پاکستان صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو 2026 کے امن کے نوبیل انعام کے لیے سفارش کی ہے، تو دنیا بھر میں سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ کیا واقعی یہ انعام اب بھی اپنی غیر جانب داری اور اخلاقی وزن کا حامل رہا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں نوبل پرائز ملنا چاہیے انہوں نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’’ٹرتھ سوشل‘‘ پر ایک بار پھر نوبیل انعام نہ ملنے کی شکایت دہرا دی۔ اپنے مخصوص انداز میں طنز اور شکایت کا امتزاج پیش کرتے ہوئے انہوں نے لکھا: یہ افریقا اور دنیا کے لیے ایک عظیم دن ہے، لیکن مجھے اس پر بھی نوبیل امن انعام نہیں ملے گا۔ مجھے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ روکنے پر بھی یہ انعام نہیں ملے گا۔ سربیا اور کوسوو کے درمیان امن قائم رکھنے پر بھی نہیں، اور نہ ہی مصر اور ایتھوپیا کے درمیان کشیدگی کم کرنے پر۔ پھر لکھا، چاہے میں کچھ بھی کر لوں، امن کا نوبیل انعام مجھے نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا مجھے نوبل پرائز دو، لیکن پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’نوبل پرائز صرف لبرلز کو ملتا ہے یہ مجھے نہیں دیں گے‘‘۔ تاریخی طور پر نوبیل انعام ان شخصیات کو دیا گیا ہے جنہوں نے اپنے طرزِ عمل، گفتار اور کردار سے دنیا کو بہتر بنانے میں حصہ ڈالا۔ مگر جب ہم ماضی کے کچھ سیاسی نوبیل یافتگان پر نظر ڈالتے ہیں تو سوالات خود بہ خود جنم لیتے ہیں۔ باراک اوباما کو صدارت سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی 2009 میں نوبیل انعام سے نوازا گیا، حالانکہ بعد ازاں انہی کے دورِ صدارت میں عراق، شام، افغانستان، لیبیا، یمن اور پاکستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ اسی طرح یاسر عرفات، اسحاق رابن اور شمعون پیریز کو اوسلو معاہدے پر نوبیل انعام دیا گیا، مگر فلسطین میں نہ جنگ رکی، نہ ظلم، اور نہ اسرائیلی قبضہ ختم ہوا بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران دنیا نے جنگ، تصادم، اور انتہا پسندی کی نئی شکلیں دیکھیں۔ انہوں نے یکطرفہ طور پر اپنے پہلے دور صدارت میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو جائز قرار دیا۔ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی مظالم پر کبھی تنقید نہ کی، بلکہ ظالم کو مظلوم کے برابر لا کر کھڑا کیا۔ ایران سے جوہری معاہدہ توڑا، اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی کھلی پشت پناہی کی ان کے ہی دور میں سی آئی اے اور امریکی فوج کو ڈرون سے قتل کی اجازت دی گئی، یمن اور صومالیہ میں سیکڑوں حملوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا بڑھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ زبان سے وعدے اور عمل میں دھوکا ہی دیا ہے۔ 1962 میں جب بھارت چین سے جنگ ہار رہا تھا، کشمیر بھارتی فوج سے خالی تھا۔ چین نے پاکستان سے کہا: ’’اب بڑھو، ہم ساتھ ہیں، کشمیر تمہارا ہے‘‘۔ مگر پاکستان نے امریکا کی یقین دہانی پر چین کا ساتھ نہ دیا۔ نتیجہ؟ آج بھی کشمیر خون میں ڈوبا ہے، اور امریکا کی ’سفارتی کوششیں‘ کبھی حقیقت نہ بن سکیں۔ اسی طرح 1971 میں، مشرقی پاکستان کی جنگ کے دوران، امریکا صرف ’’مدد آ رہی ہے‘‘ کی لوریاں سناتا رہا، اور ملک ٹوٹ گیا۔ مگر امریکا کی بحری مدد کبھی نہ پہنچی۔ یہ وہی ٹرمپ ہے جس نے پاکستان کو بارہا معاشی و دفاعی بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا۔ آج بھارت، روس اور ایران سے آزادی سے تجارت کر رہا ہے، مگر جب پاکستان ایسا کرے تو امریکا ناراض ہو جاتا ہے۔ ان ہی کے پہلے دور میں پاکستان میں خفیہ ڈرون حملے جاری رکھے گئے جبکہ عدالت و بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کیا گیا ٹرمپ انتظامیہ نے ان ججوں پر پابندیاں لگائیں جو افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی تحقیقات کر رہے تھے۔ بین الاقوامی انصاف کو روکنے کی کوشش کی، جسے عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اکتوبر 2023 سے جاری غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں، خواتین اور عام شہریوں کی ہے۔ غزہ کی پٹی کھنڈر بن چکی ہے، لاکھوں بے گھر، اور خوراک و پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ حالیہ واقعات میں خوراک لینے والے فلسطینیوں کو ٹینکوں اور کواڈکاپٹر بموں سے نشانہ بنایا گیا۔ اس قتل و غارت کے پیچھے اگر کوئی عالمی طاقت کھڑی ہے، تو وہ امریکا ہے۔ اور اگر کوئی امریکی صدر ان مظالم کو جائز قرار دے رہا ہے، تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہیں۔ کیا ایسے شخص کو امن کا پیامبر مانا جا سکتا ہے؟ ٹرمپ کی طرف سے بارہا دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کو روکا اور انہیں نوبیل انعام اسی لیے ملنا چاہیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 10 مئی کی شام جنگ بندی کا اعلان ہوا، مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی مسلح افواج نے بھارت کو زمینی، فضائی اور عسکری محاذ پر منہ توڑ جواب دیا۔ رفال طیاروں سے لے کر بھارتی چیک پوسٹیں، بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز، میزائل ڈیفنس سسٹمز اور ائربیسز سب کو پاکستان کی بھرپور عسکری حکمت عملی نے نشانہ بنایا۔ یہ پاکستان کی صلاحیت حکمت عملی، چین و روس کی پشت پناہی اور جذبے کا نتیجہ تھا کہ امریکا کو بیچ میں آنا پڑا، ورنہ اگر بھارت غالب ہوتا تو امریکا کبھی ثالثی کی بات نہ کرتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ریکارڈ نہ صرف امن کے تصور کے خلاف ہے، بلکہ ان کا طرز عمل عالمی قانون، انسانی حقوق، اور انصاف کی مسلسل خلاف ورزی ہے۔ ان کی سربراہی میں امریکی خارجہ پالیسی نے قتل، بربادی، جارحیت، اور انسانی المیے کو بڑھایا، اور اس سب کو ’’قومی مفاد‘‘ کا نام دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام دیا جاتا ہے، تو کیا یہ واقعی امن کی کوششوں کا اعتراف ہوگا؟ یا پھر یہ سیاسی مفادات، سفارتی خوشامد، اور عالمی و امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ ہوگا؟ اس وقت ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں بھی ٹرمپ کا کردار متنازع ہے۔ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کو وہ مسلسل کرہے ہیں، جبکہ ایران پر حملے کے پران کے بیانات سے ظاہر ہو چکے ہیں۔ یہ کہاں کی سفارت کاری ہے؟ حکومت پاکستان نے ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کی ہے تو قوم کو اس فیصلے کی بنیاد، معیار، اور حکمت عملی سے آگاہ کیا جائے۔ کیا ہم نے فلسطین کے مظلوموں کو بھلا دیا ہے؟ کیا مشرق وسطیٰ میں بہتا لہو اب ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات سے باہر ہو چکا ہے؟ نوبیل انعام صرف ایک تمغہ نہیں، یہ ایک علامت ہے انسانیت، اخلاص اور عالمی ذمے داری کی۔ اگر اسے بھی سیاسی جوڑ توڑ اور مغربی مفادات کے لیے استعمال کیا جائے تو دنیا میں امن کا تصور مزید مجروح ہو جائے گا۔ معلوم نہیں حکومت پاکستان نے کس پس منظر میں یہ فیصلہ کیا ہے، سوال ایک ہی ہے جن کے ہاتھ لہو سے رنگے ہوں، کیا وہ امن کے پیامبر بن سکتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام دینا تاریخ کے ساتھ مذاق ہوگا، مظلوموں کی توہین اور عالمی ضمیر پر طمانچہ ہوگا۔ اگر یہ انعام انہیں دیا جاتا ہے، تو دنیا کو یہ ماننا پڑے گا کہ ’’امن‘‘ اب صرف طاقتوروں کی اصطلاح ہے، اور ظلم اگر امریکی حمایت سے ہو، تو وہ بھی معاف ہے۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امن کا نوبیل انعام نشانہ بنایا ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان انہوں نے ٹرمپ کو جاتا ہے کے لیے امن کے

پڑھیں:

حکومت پاکستان نے امریکی صدر کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کر دی

اسلام آباد(صغیر چوہدری )حکومت پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کر دی
پاکستان کی جانب سے بھارتی جارحیت پر آپریشن “بنیان مرصوص” کا محدود، محتاط اور مؤثر جواب
اور صدر ٹرمپ کی سفارتی کوششوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی آئی اور جنگ ختم ہوئی صدر ٹرمپ نے اسلام آباد اور نئی دہلی کے ساتھ سفارتی روابط سے جنگ کا خطرہ ٹال دیا۔ پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ صدر ٹرمپ کی قیادت نے جنوبی ایشیا کو ایٹمی تصادم سے بچایا، حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل میں ٹرمپ کی سنجیدہ دلچسپی کو سراہا ۔ٹرمپ کا کردار عالمی امن اور مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے اہم قرار ہے ۔صدر ٹرمپ کی امن پسند قیادت کو پاکستان نے “اصل ثالث” قرار دے دیا

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کو نوبیل انعام دینے کے حوالے سے سوالات بہت زیادہ ہیں
  • حکومت پاکستان نے امریکی صدر کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کر دی
  • پاکستان کا صدر ٹرمپ کو نوبیل پرائز کیلئے نامزد کرنے کی سفارش کا فیصلہ
  • ’نوبیل انعام کا جنون ٹرمپ کو تاریخ نظر انداز کرنے پر مجبور کر رہا ہے‘
  • بھارت سے جنگ بندی: پاکستان کی ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دینے کی سفارش
  • ’میں کچھ بھی کرلوں مجھے نوبیل انعام نہیں ملے گا‘، ٹرمپ اس قدر مایوس کیوں؟
  • بھارت سے جنگ بندی: پاکستان نے ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دینے کی سفارش کر دی
  • پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کردی
  • پاکستان کی صدر ٹرمپ کو نوبیل پرائز کیلئے نامزد کرنے کی سفارش