Jasarat News:
2025-08-07@10:32:45 GMT

امن کا نوبیل انعام ٹرمپ کو دیا جا سکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نوبیل انعام دنیا کا سب سے معتبر اور مشہور انعام ہے جو ہر سال اْن افراد یا اداروں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود، علم، ادب، یا امن کے میدان، جنگوں کی روک تھام میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہوں۔ تاہم، حالیہ دنوں میں جب یہ خبر منظرعام پر آئی کہ ایک غیر متوقع اقدام میں، حکومت ِ پاکستان صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو 2026 کے امن کے نوبیل انعام کے لیے سفارش کی ہے، تو دنیا بھر میں سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ کیا واقعی یہ انعام اب بھی اپنی غیر جانب داری اور اخلاقی وزن کا حامل رہا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں نوبل پرائز ملنا چاہیے انہوں نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’’ٹرتھ سوشل‘‘ پر ایک بار پھر نوبیل انعام نہ ملنے کی شکایت دہرا دی۔ اپنے مخصوص انداز میں طنز اور شکایت کا امتزاج پیش کرتے ہوئے انہوں نے لکھا: یہ افریقا اور دنیا کے لیے ایک عظیم دن ہے، لیکن مجھے اس پر بھی نوبیل امن انعام نہیں ملے گا۔ مجھے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ روکنے پر بھی یہ انعام نہیں ملے گا۔ سربیا اور کوسوو کے درمیان امن قائم رکھنے پر بھی نہیں، اور نہ ہی مصر اور ایتھوپیا کے درمیان کشیدگی کم کرنے پر۔ پھر لکھا، چاہے میں کچھ بھی کر لوں، امن کا نوبیل انعام مجھے نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا مجھے نوبل پرائز دو، لیکن پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’نوبل پرائز صرف لبرلز کو ملتا ہے یہ مجھے نہیں دیں گے‘‘۔ تاریخی طور پر نوبیل انعام ان شخصیات کو دیا گیا ہے جنہوں نے اپنے طرزِ عمل، گفتار اور کردار سے دنیا کو بہتر بنانے میں حصہ ڈالا۔ مگر جب ہم ماضی کے کچھ سیاسی نوبیل یافتگان پر نظر ڈالتے ہیں تو سوالات خود بہ خود جنم لیتے ہیں۔ باراک اوباما کو صدارت سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی 2009 میں نوبیل انعام سے نوازا گیا، حالانکہ بعد ازاں انہی کے دورِ صدارت میں عراق، شام، افغانستان، لیبیا، یمن اور پاکستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ اسی طرح یاسر عرفات، اسحاق رابن اور شمعون پیریز کو اوسلو معاہدے پر نوبیل انعام دیا گیا، مگر فلسطین میں نہ جنگ رکی، نہ ظلم، اور نہ اسرائیلی قبضہ ختم ہوا بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران دنیا نے جنگ، تصادم، اور انتہا پسندی کی نئی شکلیں دیکھیں۔ انہوں نے یکطرفہ طور پر اپنے پہلے دور صدارت میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو جائز قرار دیا۔ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی مظالم پر کبھی تنقید نہ کی، بلکہ ظالم کو مظلوم کے برابر لا کر کھڑا کیا۔ ایران سے جوہری معاہدہ توڑا، اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی کھلی پشت پناہی کی ان کے ہی دور میں سی آئی اے اور امریکی فوج کو ڈرون سے قتل کی اجازت دی گئی، یمن اور صومالیہ میں سیکڑوں حملوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا بڑھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ زبان سے وعدے اور عمل میں دھوکا ہی دیا ہے۔ 1962 میں جب بھارت چین سے جنگ ہار رہا تھا، کشمیر بھارتی فوج سے خالی تھا۔ چین نے پاکستان سے کہا: ’’اب بڑھو، ہم ساتھ ہیں، کشمیر تمہارا ہے‘‘۔ مگر پاکستان نے امریکا کی یقین دہانی پر چین کا ساتھ نہ دیا۔ نتیجہ؟ آج بھی کشمیر خون میں ڈوبا ہے، اور امریکا کی ’سفارتی کوششیں‘ کبھی حقیقت نہ بن سکیں۔ اسی طرح 1971 میں، مشرقی پاکستان کی جنگ کے دوران، امریکا صرف ’’مدد آ رہی ہے‘‘ کی لوریاں سناتا رہا، اور ملک ٹوٹ گیا۔ مگر امریکا کی بحری مدد کبھی نہ پہنچی۔ یہ وہی ٹرمپ ہے جس نے پاکستان کو بارہا معاشی و دفاعی بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا۔ آج بھارت، روس اور ایران سے آزادی سے تجارت کر رہا ہے، مگر جب پاکستان ایسا کرے تو امریکا ناراض ہو جاتا ہے۔ ان ہی کے پہلے دور میں پاکستان میں خفیہ ڈرون حملے جاری رکھے گئے جبکہ عدالت و بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کیا گیا ٹرمپ انتظامیہ نے ان ججوں پر پابندیاں لگائیں جو افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی تحقیقات کر رہے تھے۔ بین الاقوامی انصاف کو روکنے کی کوشش کی، جسے عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اکتوبر 2023 سے جاری غزہ پر اسرائیلی حملوں میں اب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت بچوں، خواتین اور عام شہریوں کی ہے۔ غزہ کی پٹی کھنڈر بن چکی ہے، لاکھوں بے گھر، اور خوراک و پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ حالیہ واقعات میں خوراک لینے والے فلسطینیوں کو ٹینکوں اور کواڈکاپٹر بموں سے نشانہ بنایا گیا۔ اس قتل و غارت کے پیچھے اگر کوئی عالمی طاقت کھڑی ہے، تو وہ امریکا ہے۔ اور اگر کوئی امریکی صدر ان مظالم کو جائز قرار دے رہا ہے، تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہیں۔ کیا ایسے شخص کو امن کا پیامبر مانا جا سکتا ہے؟ ٹرمپ کی طرف سے بارہا دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کو روکا اور انہیں نوبیل انعام اسی لیے ملنا چاہیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 10 مئی کی شام جنگ بندی کا اعلان ہوا، مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی مسلح افواج نے بھارت کو زمینی، فضائی اور عسکری محاذ پر منہ توڑ جواب دیا۔ رفال طیاروں سے لے کر بھارتی چیک پوسٹیں، بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز، میزائل ڈیفنس سسٹمز اور ائربیسز سب کو پاکستان کی بھرپور عسکری حکمت عملی نے نشانہ بنایا۔ یہ پاکستان کی صلاحیت حکمت عملی، چین و روس کی پشت پناہی اور جذبے کا نتیجہ تھا کہ امریکا کو بیچ میں آنا پڑا، ورنہ اگر بھارت غالب ہوتا تو امریکا کبھی ثالثی کی بات نہ کرتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ریکارڈ نہ صرف امن کے تصور کے خلاف ہے، بلکہ ان کا طرز عمل عالمی قانون، انسانی حقوق، اور انصاف کی مسلسل خلاف ورزی ہے۔ ان کی سربراہی میں امریکی خارجہ پالیسی نے قتل، بربادی، جارحیت، اور انسانی المیے کو بڑھایا، اور اس سب کو ’’قومی مفاد‘‘ کا نام دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام دیا جاتا ہے، تو کیا یہ واقعی امن کی کوششوں کا اعتراف ہوگا؟ یا پھر یہ سیاسی مفادات، سفارتی خوشامد، اور عالمی و امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ ہوگا؟ اس وقت ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں بھی ٹرمپ کا کردار متنازع ہے۔ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کو وہ مسلسل کرہے ہیں، جبکہ ایران پر حملے کے پران کے بیانات سے ظاہر ہو چکے ہیں۔ یہ کہاں کی سفارت کاری ہے؟ حکومت پاکستان نے ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کی ہے تو قوم کو اس فیصلے کی بنیاد، معیار، اور حکمت عملی سے آگاہ کیا جائے۔ کیا ہم نے فلسطین کے مظلوموں کو بھلا دیا ہے؟ کیا مشرق وسطیٰ میں بہتا لہو اب ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات سے باہر ہو چکا ہے؟ نوبیل انعام صرف ایک تمغہ نہیں، یہ ایک علامت ہے انسانیت، اخلاص اور عالمی ذمے داری کی۔ اگر اسے بھی سیاسی جوڑ توڑ اور مغربی مفادات کے لیے استعمال کیا جائے تو دنیا میں امن کا تصور مزید مجروح ہو جائے گا۔ معلوم نہیں حکومت پاکستان نے کس پس منظر میں یہ فیصلہ کیا ہے، سوال ایک ہی ہے جن کے ہاتھ لہو سے رنگے ہوں، کیا وہ امن کے پیامبر بن سکتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام دینا تاریخ کے ساتھ مذاق ہوگا، مظلوموں کی توہین اور عالمی ضمیر پر طمانچہ ہوگا۔ اگر یہ انعام انہیں دیا جاتا ہے، تو دنیا کو یہ ماننا پڑے گا کہ ’’امن‘‘ اب صرف طاقتوروں کی اصطلاح ہے، اور ظلم اگر امریکی حمایت سے ہو، تو وہ بھی معاف ہے۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امن کا نوبیل انعام نشانہ بنایا ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان انہوں نے ٹرمپ کو جاتا ہے کے لیے امن کے

پڑھیں:

’بہت کچھ کہہ سکتا ہوں لیکن‘، اجے دیوگن نے کاجول کی سالگرہ پر کیا کہا؟

بالی ووڈ کی مشہور اداکارہ کاجول آج اپنی 51ویں سالگرہ منارہی ہیں، جس پر خاندان اور دوستوں کی جانب سے ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان میں سب سے دلچسپ پیغام ان کے شوہر، اداکار اجے دیوگن کی جانب سے آیا ہے۔

اجے دیوگن نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر کاجول کے لیے ایک مختصر اور دل کو چھو جانے والا سالگرہ کا پیغام شیئر کیا، جس میں ان دونوں کے درمیان ہنسی مذاق کی جھلکیاں دکھائی گئیں۔ انہوں نے لکھا کہ ’بہت کچھ کہہ سکتا ہوں، لیکن تم پھر آنکھیں گھماؤ گی۔ تو میری پسندیدہ کو سالگرہ مبارک ہو‘۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Ajay Devgn (@ajaydevgn)

اجے نے کاجول کی دو تصاویر بھی شیئر کیں، جن میں سے ایک ان کے کیریئر کے ابتدائی دنوں کی تھی، جس میں کاجول خاصی نوجوان نظر آ رہی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک حالیہ تصویر بھی شیئر کی، جس میں کاجول روایتی لباس میں بہت خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں۔

کام کے لحاظ سے بات کی جائے تو کاجول ان دنوں اپنی مسلسل ریلیز کی وجہ سے کافی مصروف ہیں۔ انہوں نے وِشال فیوریا کی فینٹسی ڈرامہ ’ماما‘ سے اپنے کیریئر کی شروعات کی، جس میں روہت رائے اور انڈرنل سینگھاپتہ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اداکارہ کو آخری بار جیوہوٹ اسٹار کی فلم ’سرزمین‘ میں دیکھا گیا، جو 25 جولائی کو پرمیئر ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ‘کاجول کا سُسرال شادی کے بعد انہیں فلموں میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا، اسی لیے ایک فلم سے نکالنا پڑا’

 اس فلم کی ہدایتکاری کائیزو ایرانی نے کی تھی اور اس میں پرتھوی راج سوکومارن اور ابراہیم علی خان بھی شامل تھے۔ دوسری طرف، اجے دیوگن کی فلم ’سن آف سردار 2‘ حال ہی میں سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی، جسے ناظرین سے ملے جلے ردعمل کا سامنا رہا۔ اس فلم کی ہدایتکاری وجے کمار اروڑا نے کی تھی، اور اس میں روی کشن، سنجے مشرا، مرنال ٹھاکر، چنکی پانڈے، دیپک دوبریال اور دیگر اداکار شامل تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اجے دیوگن بالی ووڈ کاجول کاجول کی سالگرہ

متعلقہ مضامین

  • روس سے تیل کی خریداری پر چین پر بھی مزید ٹیرف عائد کیا جا سکتا ہے، ٹرمپ نے دھمکی دے دی
  • عید الضحیٰ پر دارالحکومت کو صاف ستھرا رکھنے والوں کیلئے بڑے انعام کا اعلان
  • کراچی سرکلر ریلوے کیلئے ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت عالمی شراکت داروں سے رابطے جاری ہیں، شرجیل میمن
  • حکومت کا اسکول ٹیچرز کے لیے انعام کا اعلان
  • ’بہت کچھ کہہ سکتا ہوں لیکن‘، اجے دیوگن نے کاجول کی سالگرہ پر کیا کہا؟
  • مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاضبانہ قبضہ زیادہ دیر نہیں رہ سکتا.عطاتارڑ
  • پاکستان کی ڈیجیٹل ڈرائیو کو معاشی گیم چینجر میں بدلنے کے لیے مستقل پالیسیاں ضروری ہیں. ماہرین
  • مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاضبانہ قبضہ زیادہ دیر نہیں رہ سکتا: عطاء تارڑ
  • مودی حکومت کا 5 اگست کا اقدام تاریخ کا سیاہ باب ہے، شرجیل انعام میمن
  • بائیک سکیم ، کیا آپ ایک لاکھ روپے انعام کے اہل ہیں؟