Jasarat News:
2025-09-27@15:13:52 GMT

ٹیکٹیکل تعلق یا نئی اسٹرٹیجک شراکت؟

اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

۔18 جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی ظہرانے پر مدعو کیا۔ یہ ملاقات سفارتی لحاظ سے غیر معمولی ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی بھی کسی امریکی صدر نے کسی پاکستانی آرمی چیف سے براہ راست ملاقات نہیں کی جب وہ ریاست کے سربراہ نہ ہوں۔ اس ملاقات کا وقت اور نوعیت کئی اہم سوالات کو جنم دیتے ہیں، خاص طور پر جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں۔
اسٹرٹیجک اہمیت: صدر ٹرمپ کی جانب سے عاصم منیر کو دعوت دینا، نہ کہ کسی سویلین قیادت کو، اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کا اصل کنٹرول فوج کے پاس ہے۔ ٹرمپ کا براہ راست آرمی چیف سے رابطہ، پاکستان کی کمزور جمہوری اداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس بات کا اظہار ہے کہ واشنگٹن کو اصل طاقت کہاں نظر آتی ہے۔ یہ اقدام پاکستان کے سویلین نظام کی مزید کمزوری کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ یہ فوجی بالادستی کو مزید جواز فراہم کرتا ہے۔ تاہم امریکا کے لیے یہ ایک حقیقت پسندانہ حکمت عملی بھی ہے کیونکہ دہشت گردی، جوہری استحکام اور علاقائی سلامتی جیسے معاملات میں مؤثر شراکت داری فوجی قیادت سے ہی ممکن ہے۔
پاکستان کا جوہری پروگرام: پاکستان دنیا کی پانچویں بڑا جوہری طاقت ہے، جس کے پاس 165 سے 200 کے درمیان وارہیڈز ہیں، جن میں سے کئی بھارت کے خلاف میدان جنگ میں استعمال کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ امریکا طویل عرصے سے پاکستان کے جوہری پروگرام کی سیکورٹی، کنٹرول اور دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگنے کے امکانات سے پریشان رہا ہے، خاص طور پر ڈاکٹر اے کیو خان کے نیٹ ورک کے بعد۔ ٹرمپ کی منیر سے ملاقات کا ایک مقصد ممکنہ طور پر اس بات کی یقین دہانی حاصل کرنا تھا کہ ایران تنازعے کے دوران پاکستان کسی بھی غیر مستحکم جوہری طرزعمل سے باز رہے گا اور ایران کو جوہری مہارت کی منتقلی نہیں کرے گا۔
ایران تنازع میں پاکستان کا کردار: یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکا اور اسرائیل، ایران کے خلاف فوجی کارروائیاں تیز کر رہے ہیں۔ پاکستان کی ایران کے ساتھ 909 کلومیٹر طویل سرحد اور تاریخی تعلقات اسے اس تنازعے میں ایک کلیدی کھلاڑی بناتے ہیں۔
امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان: 1۔ ایرانی اہداف پر حملوں کے لیے فضائی حدود فراہم کرے۔ (جیسا کہ افغانستان جنگ میں کیا گیا تھا) 2۔ ایران کے حمایت یافتہ گروہوں جیسے ’’زینبیون بریگیڈ‘‘ کے خلاف کارروائی کرے۔ مگر پاکستان کے لیے یہ نہایت نازک معاملہ ہے۔ ایران کے خلاف واضح حمایت سے پاکستان میں موجود اہل تشیع میں بے چینی پیدا ہو سکتی ہے۔ مزید برآں، ایران بلوچستان میں علٰیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کر سکتا ہے۔ اسی لیے امکان ہے کہ پاکستان پردے کے پیچھے معلوماتی تعاون کرے گا اور بظاہر غیرجانبداری کا مظاہرہ کرے گا۔
بھارت کو توازن میں رکھنے کی کوشش: ٹرمپ کی یہ ملاقات بھارت کے لیے بھی ایک پیغام ہو سکتی ہے کہ امریکا کی حمایت خودکار نہیں ہے۔ یہ بھارت پر دباؤ ڈالنے کا حربہ ہو سکتا ہے تاکہ وہ ایران پر سخت موقف اپنائے یا مسئلہ کشمیر پر نرم رویہ اختیار کرے۔ امریکا شاید پاکستان کو یہ موقع بھی دینا چاہتا ہے کہ وہ بھارت مخالف دہشت گرد گروہوں جیسے لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کر کے اپنی عالمی ساکھ بحال کرے۔ اس سے امریکا کی توجہ ایران تنازع پر مرکوز رہ سکتی ہے۔
چین سے دور کرنے کی کوشش: چین کے ساتھ پاکستان کی گہری معاشی و عسکری شراکت داری (جیسے CPEC میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری) نے بیجنگ کو اسلام آباد پر گہرا اثر رسوخ دے دیا ہے۔ ٹرمپ کی یہ کوشش شاید پاکستان کو چین کے اثر سے نکالنے کی ایک کوشش ہو، جس کے تحت اسے فوجی سازو سامان (مثلاً F-16 طیارے) یا آئی ایم ایف بیل آؤٹ جیسے اقتصادی مراعات دی جا سکتی ہیں۔ تاہم، مکمل اتحاد تبدیلی مشکل ہے کیونکہ چین پر پاکستان کا انحصار بہت گہرا ہو چکا ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ پاکستان چین سے اتحاد برقرار رکھتے ہوئے امریکا سے محدود فائدے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
پاکستان اور امریکا کے اندرونی اثرات: پاکستان میں فوج اس ملاقات کو ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کرے گی۔ معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے دور میں، فوج کی امریکا تک براہ راست رسائی اس کے قومی محافظ کے تاثر کو تقویت دیتی ہے۔ ٹرمپ کے لیے، یہ قدم ان کے ’’طاقتور لیڈر‘‘ والی سفارت کاری کا تسلسل ہے۔ وہ روایتی پروٹوکول کو توڑ کر عملی اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی، یہ قدم ان کے ناقدین کو جواب بھی ہے جو انہیں خطے میں عدم دلچسپی کا الزام دے سکتے تھے۔
وقتی حکمت عملی یا نئی صف بندی؟: خلاصہ یہ ہے کہ یہ ملاقات ایک عارضی حکمت عملی لگتی ہے نہ کہ کوئی نئی اسٹرٹیجک شراکت۔ امریکا کا اصل ہدف: ایران تنازع میں پاکستان کی غیر جانبداری، چین و روس کے ساتھ کسی ممکنہ مخالف اتحاد کو روکنا، بھارت پر دباؤ برقرار رکھنا ہے۔ پاکستان غالباً محتاط تعاون کرے گا، مگر ایران یا چین سے کھلی مخالفت سے گریز کرے گا۔ آنے والے ہفتے طے کریں گے کہ یہ صرف ایک وقتی سفارتی اقدام تھا یا واقعی کوئی بڑی صف بندی کی شروعات۔ فی الحال، یہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ بڑی طاقتوں کی سیاست کی ایک اور مثال ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے کہ پاکستان پاکستان کی یہ ملاقات ہے کیونکہ ایران کے ٹرمپ کی کے خلاف کے لیے کرے گا

پڑھیں:

 اسداللہ بھٹوکی زیرقیادت ملی یکجہتی کونسل کے وفد کی افغان قونصل جنرل سے ملاقات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

250926-08-24

 

 

کراچی (اسٹاف رپورٹر )افغان قونصل جنرل سید عبدالجبار تخاری نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ہم نے بارہا کہا ہے کہ جنگ وجدل کے بجائے سیاسی رہنما اورعلما کرام مل بیٹھ کر اس کاحل نکالیں۔ٹرمپ سمجھتا ہے کہ پوری دنیا کی طرح وہ طالبان کو بھی ڈرائے دھمکائے گا،ان کے پاس دنیا کا جدید ترین اسلحہ وگولہ بارود اور ہمارے پاس صرف اسلام و ایمان کی دولت ہے۔ اگر ان کی اتنی جرأت ہوتی تو نیٹو کے لائولشکرکے ساتھ اپنا سامان چھوڑ کر نہ بھاگتے۔امریکا ایک سازش کے تحت اپنا اسلحہ و گولہ بارود چھوڑ کر گیاتا کہ یہ لوگ آپس میں لڑیں مگر امیر المومنین کے عام معافی کے اعلان کے بعد سب نے اسلحہ جمع کرادیا اوران کی یہ سازش بھی ناکام ہوگئی۔امریکا 20سال یہاں رہا مگرفلاح وبہبود کا کچھ کام نہیں کیابلکہ ا س کا لیا گیاقرض ہم اتار رہے ہیں۔ آج افغانستان میں امن اور ترقی کی طرف گامزن ہے۔بجلی ،نہر،  روڈراستوں ریلوے سمیت دیگر ترقیاتی کام جاری ہیں ان کے ثمرات آئندہ چندسال میں مزیدنمایاں ہوں گے۔یہ بات انہوں نے افغان قونصلیٹ کراچی میں ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدراسداللہ بھٹو کی زیرقیادت ملاقات کرنے والے وفد سے بات چیت کے دوران کہی۔ وفدمیںکونسل کے دیگرعہدیداران علامہ قاضی احمدنورانی، مسلم پرویز،محمد حسین محنتی،علامہ عقیل انجم قادری،مولانا عبدالقدوس احمدانی اوررمجاہدچنا شامل تھے۔رہنمائوں نے حالیہ زلزلے میں قیمتی انسانی جانوں واملاک کے نقصان پراظہارافسوس اورمرحومین کی درجات بلندی کے لیے دعائے مغفرت بھی کی۔ملی یکجہتی کونسل کے وفدنے سرحدپاردہشت گردی کے الزامات پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے دونوں ممالک کی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ بات چیت کیذریعے اپنے معاملات حل کریں۔پاک،افغان بہترتعلقات سے نہ صرف دونوں ملک خطے میں مزید طاقتوربلکہ ایک دوسرے کا دفاع کرنے والے بھی بن سکتے ہیں۔ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر و سابق ایم این اے سد اللہ بھٹو نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی ترقی اورامن ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے امریکی صدرٹرمپ کابگرام ائر بیس امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ اورایسا نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکی قابل مذمت اور اس کے مذموم عزائم کا ایک اظہار ہے۔بگرام ائر بیس امریکا کو دینے سے انکار کرنے کے افغان حکومت کا جرائتمندانہ فیصلہ قابل قدرہے اس فیصلے سے پاکستان سمیت پوری دنیا میں افغان حکومت کی نیک نامی ہورہی ہے ۔ثابت ہوا کہ مزاحمت میں ہی زندگی اورغلامی موت ہے۔افغان قونصل جنرل کا مزید کہنا تھا کہ امت مسلمہ کے پاس سب کچھ ہے مگرہماری بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس قیادت کی کمی ہے۔ قرآن وسنت کو اپنا دستور عمل بنایا جائے تو کامیابی ان کے قدم چومی گے۔امارات اسلامی افغانستان نے خواتین کو جتنا حق دیا وہ دنیا میں کسی نے بھی نہیں دیا ۔ ہم عورت کو اشتہارات کی زینت نہیں بناتے کوئی بھی غیرتمند باپ بھائی شوہر یہ نہیں چاہے گا۔ پرائیویٹ و مدارس میں تعلیم کاسلسلہ جاری ہے۔ افغانستان میں حالیہ زلزلے کے نتیجے میںڈھائی ہزارلوگ شہید،ساڑھے4ہزارزخمی اورلاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے۔پاکستان سمیت امدادکرنے والے ممالک اوراداروںکے مشکور ہیں۔

 

اسداللہ بھٹو کی زیر قیادت ملی یکجہتی کونسل سندھ کا وفد افغان قونصل جنرل سید عبدالجبار تخاری سے ملاقات کررہاہے

اسٹاف رپورٹر گوہر ایوب

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدر سے ملاقات میں معیشت، انسداد دہشت گردی، معدنیات، اے آئی، آئی ٹی، کرپٹو پر بات ہوئی: شہباز شریف
  • امریکی صدر سے ملاقات بہت حوصلہ افزا تھی،امریکا سرمایہ کاری کیلئے تیارہے‘ شہبازشریف
  • ٹرمپ سے ملاقات حوصلہ افزا رہی، امریکا سرمایہ کاری کیلئے تیار ہے: وزیراعظم  
  • امریکا پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • ہو سکتا ہے ایران امریکا تعلقات میں پاکستان کردار ادا کرے: خواجہ آصف
  • امریکا سے قربت… احتیاط لازم ہے!
  • ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی مبینہ نامزدگی، والد کے دہشتگردوں سے تعلق نے نئی بحث چھیڑ دی
  • صدر ٹرمپ کی وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
  •  اسداللہ بھٹوکی زیرقیادت ملی یکجہتی کونسل کے وفد کی افغان قونصل جنرل سے ملاقات
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹرٹیجک دفاعی معاہدہ کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں ایرانی صدر کی جانب سراہا جانا خوش آئند ہے۔ خواجہ رمیض حسن