ایران اسرائیل کی امکانی استعداد
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران پر اسرائیلی حملوں کا آغاز 13جون کو ہوا اور 24 جون کو جنگ بندی ہوئی، اس میں بلاشبہ تناسب کے اعتبار سے ایران کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ اعلیٰ فوجی قیادت منظر سے ہٹ گئی، بعض ایٹمی مراکز، حساس دفاعی تنصیبات اور شہری مقامات پر اندھا دھند بمباری کی گئی ہے۔ لیکن امریکا، اسرائیل اور اہل ِ مغرب کے تمام تر اندازوں کے برعکس ایران نے ہتھیار نہیں ڈالے، بلکہ جرأت واستقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ایران کی بعض کمزوریاں بھی سامنے آئیں کہ موساد، را اور سی آئی اے کے اشتراک سے دشمن کا جاسوسی نظام اُن کی صفوں کے اندر نفوذ کرچکا تھا حتیٰ کہ ایران کے اندر ڈرون تیار کرنے کا کارخانہ بھی بنالیا گیا تھا۔ اس انٹیلی جنس خامی کے سبب ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، لیکن انہوں نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ سطورِ ذیل میں ہم ایران اور اسرائیل کی امکانی استعداد کا تقابل کرتے ہیں:
(۱) ایران کا رقبہ پاکستان سے دوگنا یعنی 1648000 مربع کلومیٹر ہے، جبکہ اس کے مقابل اسرائیل کا رقبہ 22145 کلومیٹر ہے، پس ایران کا رقبہ اسرائیل سے تقریباً 75 گنا بڑا ہے۔ ایران کی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ نوّے لاکھ اور اسرائیل کی آبادی تقریباً پچانوے لاکھ ہے، پس ایران کی آبادی اسرائیل سے تقریباً ساڑھے نوگنا زائد ہے۔ رقبے کی وسعت اور آبادی کا تناسب ایران کی بہت بڑی قوت ہے۔ ایرانی بھاری نقصان اٹھاکر بھی دوبارہ ابھرسکتے ہیں، طاقت بن سکتے ہیں، کیونکہ ان میں قومی تفاخر کا جذبہ موجود ہے، جنگ کی شدید ترین تباہی و بربادی کے باوجود ایرانیوں کے جلوسوں اور جمعوں کے اجتماعات سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایران سے بھارت کو پہچاننے میں غلطی ہوئی اور اس کا نقصان انہیں اس جنگ میں اٹھانا پڑا۔ اس جنگ کا سبق یہ ہے کہ ایران کو پڑوسی مسلم ممالک پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرنا چاہیے۔ ایران کا ایک صوبہ آذربائیجان ہے اور اس کے متصل آذربائیجان ایک خودمختار ملک بھی ہے، ایران کے اُس کے ساتھ بھی تعلقات خوشگوار نہیں ہیں، ایران کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(۲) اسرائیل کی آبادی اور رقبہ دونوں محدود ہیں، اگر ایران دس آدمیوں کا نقصان برداشت کرسکتا ہے تو اُس کے مقابل اسرائیل کے لیے ایک آدمی کا نقصان بھی ناقابل ِ برداشت ہے۔ مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ موت سے نہیں ڈرتا، کیونکہ اس کا عقیدہ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ ٹلتا نہیں ہے، جبکہ قرآنِ کریم کی شہادتیں موجود ہیں اور ہم ایک گزشتہ کالم میں اُن آیاتِ مبارکہ کے حوالے دے چکے ہیں کہ یہودی موت سے بہت ڈرتا ہے اور یہی اُس کی بڑی کمزوری بھی ہے۔
(۳) ایران کی کمزوری فضائی قوت کا نہ ہونا ہے، کیونکہ اُس کے پاس شاہ کے زمانے کے فرسودہ جنگی ہوائی جہاز ہیں جو جدید دور کے جنگی ہوائی جہازوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اسی سبب اسرائیل کو فضا میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیونکہ اسرائیل کے جنگی جہاز جدید ترین ہیں، انہیں پانچویں نسل کے جنگی جہاز کہاجاتا ہے اور موجودہ دور کی جنگوں میں وہی استعمال ہوتے ہیں، الحمدللہ! پاکستان کے پاس بھی جدید ترین جنگی جہاز موجود ہیں اور حالیہ پاک بھارت جنگ میں اُن کی برتری ثابت ہوچکی ہے۔ یہ محض یک طرفہ دعویٰ نہیں ہے، بلکہ عالمی میڈیا نے اسے تسلیم کیا ہے، اگرچہ بھارت کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں سبکی محسوس ہورہی ہے۔
(۳) اسرائیل کے پاس فضائی دفاع کا آئرن ڈوم نظام ہے، اس کے ذریعے دشمن کے میزائلوں کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے فضا میں تحلیل کردیا جاتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ایران کے میزائلوں کے ساتھ ہوا۔ لیکن جب ایران نے فتح، خیبر اور سِجِّیْل ہائپر سونک میزائل داغے تو اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام سو فی صد مؤثر نہیں رہا۔ لہٰذا بعض میزائل اپنے اہداف تک پہنچے میں کامیاب ہوگئے، اگرچہ اُن کا حقیقی تناسب ابھی تک سامنے نہیں آیا، کیونکہ زمانۂ جنگ میں قومی اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے حقائق کو چھپایا بھی جاتا ہے۔ تاہم یہ ضرور ثابت ہوا کہ میزائل ٹیکنالوجی میں ایران کافی آگے ہے اور شاید اسرائیل، امریکا اور اہلِ مغرب کو بھی ایران کی اس استعداد کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔
(۴) اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے میزائل سازی کے کارخانے کو بھی تباہ کردیا ہے۔ اس کی حقیقت تو ہمیں معلوم نہیں ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ایران نے ایک سے زائد مقامات پر یہ کارخانے لگائے ہوں، لیکن ایران کے سابق وزیر خارجہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ آپ میزائل سازی کے کارخانوں اور حساس ایٹمی مراکز تو نقصان پہنچا سکتے ہیں، لیکن آپ علم کو نیست ونابود نہیں کرسکتے۔ جب ہمارے پاس اعلیٰ ٹیکنالوجی، جدید سائنسی اور جوہری علوم کے حامل رِجالِ کار موجود ہوں گے، تو ہم دوبارہ یہ قوت حاصل کرلیں گے۔ جنگ میں اسلحے کی آزمائش بھی ہوتی ہے، اس لیے جنگ کے بعد اس کی تکنیکی کمزوریوں پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ ایران اسرائیل جنگ کے تجربے کا ایک سبق یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی میزائل سازی کی صنعت کو مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے، اب ہمیں ہائپر سونک میزائلوں کی طرف جانا ہوگا، نیز آئرن ڈوم کی طرز پر فضائی دفاعی نظام بنانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
(۵) یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایران نے عالمی پابندیوں اور اقتصادی مشکلات کے باوجود اپنے کافی وسائل شام، لبنان، یمن اور عراق میں اپنے زیر ِ اثر مسلّح گروہ تشکیل دینے پر خرچ کیے، لیکن آخر ِ کار اُن علاقوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ اب انہیں اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آیا یہ حکمتِ عملی درست تھی، اس پر کتنے وسائل خرچ ہوئے اور نتائج کیا ملے۔ بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے ایران نے بہت کچھ کیا، لیکن انجامِ کار اُس کے زوال کو بھی بچایا نہ جاسکا، یہ ایران کے لیے مایوسی اور ندامت کی بات تھی۔ اگر ایران یہ تمام وسائل اپنی فضائی، برّی اور بحری قوت کو منظم کرنے پر خرچ کرتا تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاسدارانِ انقلاب اور باقاعدہ افواج کی الگ الگ قیادت اور ذمے داریوں کے نتائج مثبت رہے یا منفی۔
(۶) ایران کی حکمت ِ عملی کی ایک غلطی انقلاب کو برآمد کرنے کا نعرہ تھا، اس سے عرب حکمرانوں کو اپنی سلطنتیں اور حکومتیں بچانے کی فکر لاحق ہوگئی، اس کے نتیجے میں ایران کو دس سال تک عراق کے ساتھ بے نتیجہ جنگ میں اپنے وسائل جھونکنے پڑے۔ فارسی کا مقولہ ہے: ’’مشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید‘‘، یعنی خوشبو اپنا اشتہار خود ہوتی ہے، عطّار کی تعریف کی محتاج نہیں ہوتی۔ پس اگر انقلاب کے بعد ایران اعلیٰ معیار کا نظامِ حکومت قائم کر دیتا، جہاں ہر سو عدل کا دور دورہ ہوتا، عوام خوشحال ہوتے، عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد و محبت کا رشتہ ہوتا، تو پڑوسی ممالک پر یقینا اس کے اثرات مرتب ہوتے اور اُن کے عوام کے دلوں میں بھی آزادی کی خواہش جنم لیتی۔ انقلاب برآمد کرنے کے نعرے اور بیرونِ ملک اپنے زیرِ اثر گروہ پیدا کرنے سے ایران کے بارے میں ایک توسیع پسندانہ ریاست کا تصور پیدا ہوا۔
(۷) یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایران عراق جنگ کے زمانے میں ہمارے ملک میں بھی بیرونی سرمائے سے اپنے تابع فرمان گروہ پیدا کیے گئے، مسالک کے درمیان مسلّح تصادم ہوئے، اس سے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ اگر یہ سلسلے اب موقوف کردیے جائیں تو سب پڑوسی ممالک کے لیے اچھا ہوگا، امارتِ اسلامیہ افغانستان کو بھی ہمارا مشورہ یہی ہے۔ بہر صورت اب جنگ بندی کے بعد ٹھنڈے دل سے اس کے اسباب، نتائج اور حکمت ِ عملی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
(۸) ہمارے ائمہ ٔ مجتہدین نے ہمیشہ اپنے اجتہادات کو قرآن وسنّت کے دلائل سے مزیّن کیا، اسی بنیاد پر بحث وتمحیص کا شِعار رائج کیا، نزاع اور تصادم سے گریز کیا، اس کے نتیجے میں اسلام کو بہت بڑا علمی سرمایہ ورثے میں ملا۔ پس بہتر ہے کہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں سب اپنے موقف کو اپنے دلائل سے بیان کریں، دوسروں پرطنز، طَعن وتشنیع، سبّ وشتم، تبرّا اور تحقیر واہانت کا سلسلہ ترک کردیں تو ملک و ملّت کے لیے یہ شعار بہتر ہوگا۔ جب کسی کے علمی اثاثے میں دلائل نہ ہوں تو طاقت کے استعمال کی نوبت آتی ہے اور یہیں سے فساد کا آغاز ہوتا ہے۔ آج ہمارے دفاعی ادارے ایسے ہی طبقات کو فتنۃ الخوارج اور فتنۂ ہند سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یہ تقابل ہم نے اپنی فہم کے مطابق نیک نیتی سے کیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کی ا ہے کہ ایران کی ضرورت ہے کی ا بادی ایران کا ایران کو ایران کے کیونکہ ا ایران کی ایران نے کا نقصان کے ساتھ ہے کہ ا لیکن ا کو بھی کے لیے ہے اور اور اس
پڑھیں:
وحدتِ کشمیر سازشوں کی زد میں
آزاد کشمیر، وہ سرزمین جو قدرتی حسن، بہتے جھرنوں، سرسبز وادیوں، خوشبودار قدرتی گل و برگ، پھلوں، جنگلوں، سبزہ زاروں، تن بدن کو جگا دینے والی لہراتی میٹھی ہواؤں، چمکتے آسمانوں، خوبصورت انسانوں سے مزین انتہائی پرامن خطہ تھا، آج اپنے ہی باسیوں کے لہو سے رنگین ہو چکا ہے۔
جہاں کبھی امن کی ہوائیں بہتی تھیں، آج وہاں نفرت، تقسیم اور اضطراب کی لہر دوڑ رہی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کا پلیٹ فارم کیوں بنا؟ احتجاج کیوں ہوا؟، بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ پرامن احتجاج کیسے شوریدہ ہوا؟ کس نے اس ’سوہنی دھرتی ‘ کو نفرت کی داغدار چادر تھما دی، اس کا فائدہ کس کو ہوا، مزید کون فائدہ اٹھائے گا؟
خطہ آزاد کشمیر میں جاری ’تحریک‘ نے ایک مرتبہ پھر ہمیں آئینہ دکھایا ہے کہ دشمن صرف سرحد کے اُس پار نہیں، بلکہ ہمارے اندر گھس کر سازشیں کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
جب بھارتی وزیر دفاع ’راجناتھ سنگھ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ’ہمیں آزاد کشمیر کو فوج کے ذریعے فتح کرنے کی ضرورت نہیں، یہ خود ہی پاکستان کا حصہ نہیں رہے گا‘، تو یہ محض ایک بیان نہیں، بلکہ ایک منصوبہ ہے، ایک ایسا منصوبہ جو برسوں سے کشمیر کی وحدت کو ہمیشہ کے لیے بگاڑنے، عوام کو باہم الجھانے اور پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔
بدقسمتی سے، ہم نے خود دشمن کو یہ موقع فراہم کیا۔ مہاجرین کی نشستوں کا معاملہ ہو یا اشرافیہ کی مراعات، یہ وہ سوالات ہیں جن پر بات ہونی چاہیے، لیکن اس کی تکمیل بندوقوں اور لاشوں کی گواہی پر نہیں، بلکہ دلیل، ووٹ اور آئینی راستے سے ہونی چاہیے۔
اشرافیہ کی بات کی جائے تو یہ بالکل درست ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام اپنے چندے پر سڑکیں بنا رہے ہیں، اپنی مدد آپ ’پیادہ‘ راستے بنا رہے ہیں، سرکاری اسکولوں کی عمارتیں نا گفتہ بہ ہیں، اسپتالوں میں علاج کی سہولتیں نا پید ہیں، جعلی ادویات کی بھرمار ہے، تھانہ، کچہری، محکمہ مال کرپشن اور رشوت ستانی کے گڑھ ہیں، ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہے۔
یہ سب وہ ساختی برائیاں اور مسائل ہیں جو ہماری حکمران اشرافیہ کے پیدا کردہ ہیں، ان کا احتساب یقیناً ضروری ہے لیکن اس کے لیے بھی قصور وار یہی عوام ہے کہ وہ ایسے نمائندوں کو بار بار اسمبلی میں کیوں بھیجتی ہے جو ان کے حقوق کے تحفظ کے بجائے، ان کے حقوق پر ’غاصب‘ بن جائیں، یہ تبدیلی بھی جمہوری طریقوں اور ووٹ سے لائی جا سکتی ہے۔
اگر آزاد کشمیر کے عوام واقعی ’مرعات یافتہ اشرافیہ‘ سے چھٹکارا چاہتے ہیں، تو انہیں سب سے پہلے اپنے سیاسی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ وہ نمائندے جو عوامی مسائل کو نظر انداز کر کے صرف مراعات اور اقتدار کی سیاست کرتے ہیں، ان کا احتساب صرف اور صرف ووٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
خود اسمبلیوں میں پہنچانے والوں کو ہٹانے کا فیصلہ سڑکوں پر قطعاً ممکن نہیں، اس کے لیے عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ صرف لسانی، قبائلی یا جذباتی بنیادوں پر ووٹ نہیں دیں گے بلکہ کارکردگی، امانت و دیانت کی بنیاد پر اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔
دشمن یقیناً طاق میں تھا، ایسا لگتا ہے کہ ایک جانب ہمارا دشمن مقبوضہ کشمیر کی ’ڈیموگرافی‘ تبدیل کرتے ہوئے اکثریت کو اقلیت میں بدلنے میں کامیاب ہونے جا رہا ہے، تو دوسری جانب ہمارے ’اندر‘ نفرتوں کی آگ لگانے میں بھی کامیاب ٹھہرا۔
کشمیر ایک ’وحدت‘ ہے، جس کی، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، جموں کشمیر اور لداخ، 4 اکائیاں ہیں۔ جب تک یہ چاروں اکائیاں باہم ایک نہیں ہوتیں تکمیلِ ’ریاست جموں کشمیر‘ خواب ادھورا رہے گا، ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کی جانب سے مہاجرین کی سیٹوں کے خاتمے کا مطالبہ تبھی پورا ہو سکتا ہے جب ’ریاست جموں کشمیر‘ کی چاروں اکائیوں کے ساتھ تکمیل ریاست کے لیے بھرپور جدوجہد کی جائے گی‘۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا مہاجرین کی سیٹوں کے خاتمے کا مطالبہ یقیناً ’تکمیل ریاست جموں کمشیر‘ کا ایجنڈا نہیں ہو سکتا، یہ چاروں اکائیاں ریاست جموں کشمیر کا وجود ہیں، جن کے لیے ’خطہ آزاد کشمیر‘ کو ان کا ’بیس کیمپ‘ قرار دیا گیا، ان چاروں اکائیوں کی نمائندگی ہمارے ’مہاجر‘ بھائی ہی کرتے ہیں، ان مہاجر بھائیوں کو اپنے وجود سے الگ کرنے کا مطلب چاروں اکائیوں کو الگ کرنے کے مترادف ہے اور ہمارا دشمن بھی یہی چاہتا ہے، مہاجرین کی سیٹوں کی تعداد میں کمی کی بات تو کی جا سکتی ہے لیکن ان کا خاتمہ ’وحدت کشمیر‘ کے خاتمے سے کم نہیں تصور ہوگا۔
مہاجرین وہی لوگ ہیں جو ریاستِ جموں کشمیر کی دیگراکائیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی نشستوں کا خاتمہ دراصل کشمیر کی چاروں اکائیوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
مہاجرین کی نمائندگی کا تحفظ، اشرافیہ کے احتساب کا مطالبہ اور عوامی مسائل کا حل سب ضروری ہیں، لیکن یہ سب تبھی ممکن ہیں، جب ہم عقل، شعور اور جمہوری اقدار کے ساتھ اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔ خونریزی، انتشار اور نفرت کا راستہ نہ صرف مسئلہ کشمیر کو کمزور کرے گا بلکہ دشمن کے بیانیے کو بھی تقویت فراہم کرے گا۔
یقیناً جہاں عوام کو پانی، بجلی، تعلیم، علاج اور انصاف جیسی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے، وہاں غصہ اور اضطراب فطری ہے۔ لیکن اس اضطراب کو استعمال کرنے والے عناصر کون ہیں؟ جب پولیس اور مظاہرین کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا گیا، جب تھوڑ پھوڑ ہو رہی ہے، جب اسلحہ کھلے عام استعمال ہو رہا ہے، تو یہ واضح ہو گیا کہ معاملہ صرف مہنگائی یا مہاجرین کی نشستوں تک محدود نہیں ہے۔
یہ سب ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ریاست کو کمزور کرنا، عوام کو اشتعال دلانا اور بیرونی پروپیگنڈے کو ’انسانی لاشوں‘ کے ذریعے خوراک مہیا کرنا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش پر سب سے زیادہ چیخ و پکار ہوئی، کیوں؟ کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو ایک مخصوص بیانیہ دکھایا جانا مقصود تھا۔
یہی بیانیہ بھارت کے مفاد میں استعمال ہو رہا ہے جو دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ ’آزاد‘ کشمیر بھی کسی قید سے کم نہیں۔ اس ماحول میں بیرون ملک بیٹھے اپنے ہی خطے کے لوگوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے زہر اُگلا، ریاست کو بدنام کیا اور احتجاج کو تحریکِ آزادی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی، آزاد کشمیر کو پاکستان کا ’مقبوضہ کشمیر‘ قرار دے کر کشمیریوں کی پاکستان کے ساتھ وابستگی کو کمزور کیا گیا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ احتجاج کرنا ایک جمہوری حق ہے، لیکن ریاست پر حملہ، عوامی و قومی اداروں کو تباہ کرنا، اپنے ہی بھائیوں پر گولیاں برسانا اور نفرت کی بنیاد پر بیانیہ بنانا دشمن کا ایجنڈا ہی ہو سکتا ہے۔
پولیس، ایف سی، رینجرز پر حملہ صرف اداروں پر نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی نظریاتی وابستگی اور ریاست جموں کشمیر کی بنیادوں پر حملہ ہے اور اگر دشمن کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو پھر یہ ضرور جانچنا ہوگا کہ ہم کہیں دانستہ یا نادانستہ طور پر اس کے ایجنڈے کو مکمل تو نہیں کر رہے؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’عوامی محرومیوں کا حل بندوق نہیں، بیلٹ ہے۔ بدعنوان اشرافیہ کا محاسبہ نفرت سے نہیں بلکہ آئینی اصلاحات سے بھی ممکن ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں موجود اُن عناصر کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا جو سچے عوامی مطالبات کو اپنے خفیہ ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم لاشوں کے پیچھے چھپی سازشوں کو سمجھیں، اپنی ریاستی وحدت کو مضبوط کریں اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک پرامن، خوشحال اور متحد کشمیر کا خواب بچا سکیں۔ ہمیں اس دھرتی کو پھر سے وہی امن، محبت، اور بھائی چارے کی زمیں بنانا ہوگا جہاں خون نہیں، علم اور شعور اگتا ہو۔
آزاد کشمیر کے عوام کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ ’کشمیر ایک وحدت ہے اور اس کی کسی ایک ’اکائی‘ میں کسی بھی قسم کا ’انتشار‘ قابل قبول نہیں، عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ’سوہنی دھرتی‘ کے رنگ کو اپنے لہو سے رنگنے دیں گے یا اس کو امید، ترقی اور اتحاد کے رنگ سے سجا کر دشمن کو یہ پیغام دیں گے کہ ’کشمیر ایک ہے، کشمیر زندہ ہے اور کشمیر آزاد ہو کر رہے گا‘۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں