ایران اسرائیل کی امکانی استعداد
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران پر اسرائیلی حملوں کا آغاز 13جون کو ہوا اور 24 جون کو جنگ بندی ہوئی، اس میں بلاشبہ تناسب کے اعتبار سے ایران کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ اعلیٰ فوجی قیادت منظر سے ہٹ گئی، بعض ایٹمی مراکز، حساس دفاعی تنصیبات اور شہری مقامات پر اندھا دھند بمباری کی گئی ہے۔ لیکن امریکا، اسرائیل اور اہل ِ مغرب کے تمام تر اندازوں کے برعکس ایران نے ہتھیار نہیں ڈالے، بلکہ جرأت واستقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ایران کی بعض کمزوریاں بھی سامنے آئیں کہ موساد، را اور سی آئی اے کے اشتراک سے دشمن کا جاسوسی نظام اُن کی صفوں کے اندر نفوذ کرچکا تھا حتیٰ کہ ایران کے اندر ڈرون تیار کرنے کا کارخانہ بھی بنالیا گیا تھا۔ اس انٹیلی جنس خامی کے سبب ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، لیکن انہوں نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ سطورِ ذیل میں ہم ایران اور اسرائیل کی امکانی استعداد کا تقابل کرتے ہیں:
(۱) ایران کا رقبہ پاکستان سے دوگنا یعنی 1648000 مربع کلومیٹر ہے، جبکہ اس کے مقابل اسرائیل کا رقبہ 22145 کلومیٹر ہے، پس ایران کا رقبہ اسرائیل سے تقریباً 75 گنا بڑا ہے۔ ایران کی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ نوّے لاکھ اور اسرائیل کی آبادی تقریباً پچانوے لاکھ ہے، پس ایران کی آبادی اسرائیل سے تقریباً ساڑھے نوگنا زائد ہے۔ رقبے کی وسعت اور آبادی کا تناسب ایران کی بہت بڑی قوت ہے۔ ایرانی بھاری نقصان اٹھاکر بھی دوبارہ ابھرسکتے ہیں، طاقت بن سکتے ہیں، کیونکہ ان میں قومی تفاخر کا جذبہ موجود ہے، جنگ کی شدید ترین تباہی و بربادی کے باوجود ایرانیوں کے جلوسوں اور جمعوں کے اجتماعات سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایران سے بھارت کو پہچاننے میں غلطی ہوئی اور اس کا نقصان انہیں اس جنگ میں اٹھانا پڑا۔ اس جنگ کا سبق یہ ہے کہ ایران کو پڑوسی مسلم ممالک پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرنا چاہیے۔ ایران کا ایک صوبہ آذربائیجان ہے اور اس کے متصل آذربائیجان ایک خودمختار ملک بھی ہے، ایران کے اُس کے ساتھ بھی تعلقات خوشگوار نہیں ہیں، ایران کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(۲) اسرائیل کی آبادی اور رقبہ دونوں محدود ہیں، اگر ایران دس آدمیوں کا نقصان برداشت کرسکتا ہے تو اُس کے مقابل اسرائیل کے لیے ایک آدمی کا نقصان بھی ناقابل ِ برداشت ہے۔ مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ موت سے نہیں ڈرتا، کیونکہ اس کا عقیدہ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ ٹلتا نہیں ہے، جبکہ قرآنِ کریم کی شہادتیں موجود ہیں اور ہم ایک گزشتہ کالم میں اُن آیاتِ مبارکہ کے حوالے دے چکے ہیں کہ یہودی موت سے بہت ڈرتا ہے اور یہی اُس کی بڑی کمزوری بھی ہے۔
(۳) ایران کی کمزوری فضائی قوت کا نہ ہونا ہے، کیونکہ اُس کے پاس شاہ کے زمانے کے فرسودہ جنگی ہوائی جہاز ہیں جو جدید دور کے جنگی ہوائی جہازوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اسی سبب اسرائیل کو فضا میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیونکہ اسرائیل کے جنگی جہاز جدید ترین ہیں، انہیں پانچویں نسل کے جنگی جہاز کہاجاتا ہے اور موجودہ دور کی جنگوں میں وہی استعمال ہوتے ہیں، الحمدللہ! پاکستان کے پاس بھی جدید ترین جنگی جہاز موجود ہیں اور حالیہ پاک بھارت جنگ میں اُن کی برتری ثابت ہوچکی ہے۔ یہ محض یک طرفہ دعویٰ نہیں ہے، بلکہ عالمی میڈیا نے اسے تسلیم کیا ہے، اگرچہ بھارت کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں سبکی محسوس ہورہی ہے۔
(۳) اسرائیل کے پاس فضائی دفاع کا آئرن ڈوم نظام ہے، اس کے ذریعے دشمن کے میزائلوں کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے فضا میں تحلیل کردیا جاتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ایران کے میزائلوں کے ساتھ ہوا۔ لیکن جب ایران نے فتح، خیبر اور سِجِّیْل ہائپر سونک میزائل داغے تو اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام سو فی صد مؤثر نہیں رہا۔ لہٰذا بعض میزائل اپنے اہداف تک پہنچے میں کامیاب ہوگئے، اگرچہ اُن کا حقیقی تناسب ابھی تک سامنے نہیں آیا، کیونکہ زمانۂ جنگ میں قومی اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے حقائق کو چھپایا بھی جاتا ہے۔ تاہم یہ ضرور ثابت ہوا کہ میزائل ٹیکنالوجی میں ایران کافی آگے ہے اور شاید اسرائیل، امریکا اور اہلِ مغرب کو بھی ایران کی اس استعداد کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔
(۴) اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے میزائل سازی کے کارخانے کو بھی تباہ کردیا ہے۔ اس کی حقیقت تو ہمیں معلوم نہیں ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ایران نے ایک سے زائد مقامات پر یہ کارخانے لگائے ہوں، لیکن ایران کے سابق وزیر خارجہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ آپ میزائل سازی کے کارخانوں اور حساس ایٹمی مراکز تو نقصان پہنچا سکتے ہیں، لیکن آپ علم کو نیست ونابود نہیں کرسکتے۔ جب ہمارے پاس اعلیٰ ٹیکنالوجی، جدید سائنسی اور جوہری علوم کے حامل رِجالِ کار موجود ہوں گے، تو ہم دوبارہ یہ قوت حاصل کرلیں گے۔ جنگ میں اسلحے کی آزمائش بھی ہوتی ہے، اس لیے جنگ کے بعد اس کی تکنیکی کمزوریوں پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ ایران اسرائیل جنگ کے تجربے کا ایک سبق یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی میزائل سازی کی صنعت کو مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے، اب ہمیں ہائپر سونک میزائلوں کی طرف جانا ہوگا، نیز آئرن ڈوم کی طرز پر فضائی دفاعی نظام بنانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
(۵) یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایران نے عالمی پابندیوں اور اقتصادی مشکلات کے باوجود اپنے کافی وسائل شام، لبنان، یمن اور عراق میں اپنے زیر ِ اثر مسلّح گروہ تشکیل دینے پر خرچ کیے، لیکن آخر ِ کار اُن علاقوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ اب انہیں اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آیا یہ حکمتِ عملی درست تھی، اس پر کتنے وسائل خرچ ہوئے اور نتائج کیا ملے۔ بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے ایران نے بہت کچھ کیا، لیکن انجامِ کار اُس کے زوال کو بھی بچایا نہ جاسکا، یہ ایران کے لیے مایوسی اور ندامت کی بات تھی۔ اگر ایران یہ تمام وسائل اپنی فضائی، برّی اور بحری قوت کو منظم کرنے پر خرچ کرتا تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاسدارانِ انقلاب اور باقاعدہ افواج کی الگ الگ قیادت اور ذمے داریوں کے نتائج مثبت رہے یا منفی۔
(۶) ایران کی حکمت ِ عملی کی ایک غلطی انقلاب کو برآمد کرنے کا نعرہ تھا، اس سے عرب حکمرانوں کو اپنی سلطنتیں اور حکومتیں بچانے کی فکر لاحق ہوگئی، اس کے نتیجے میں ایران کو دس سال تک عراق کے ساتھ بے نتیجہ جنگ میں اپنے وسائل جھونکنے پڑے۔ فارسی کا مقولہ ہے: ’’مشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید‘‘، یعنی خوشبو اپنا اشتہار خود ہوتی ہے، عطّار کی تعریف کی محتاج نہیں ہوتی۔ پس اگر انقلاب کے بعد ایران اعلیٰ معیار کا نظامِ حکومت قائم کر دیتا، جہاں ہر سو عدل کا دور دورہ ہوتا، عوام خوشحال ہوتے، عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد و محبت کا رشتہ ہوتا، تو پڑوسی ممالک پر یقینا اس کے اثرات مرتب ہوتے اور اُن کے عوام کے دلوں میں بھی آزادی کی خواہش جنم لیتی۔ انقلاب برآمد کرنے کے نعرے اور بیرونِ ملک اپنے زیرِ اثر گروہ پیدا کرنے سے ایران کے بارے میں ایک توسیع پسندانہ ریاست کا تصور پیدا ہوا۔
(۷) یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایران عراق جنگ کے زمانے میں ہمارے ملک میں بھی بیرونی سرمائے سے اپنے تابع فرمان گروہ پیدا کیے گئے، مسالک کے درمیان مسلّح تصادم ہوئے، اس سے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ اگر یہ سلسلے اب موقوف کردیے جائیں تو سب پڑوسی ممالک کے لیے اچھا ہوگا، امارتِ اسلامیہ افغانستان کو بھی ہمارا مشورہ یہی ہے۔ بہر صورت اب جنگ بندی کے بعد ٹھنڈے دل سے اس کے اسباب، نتائج اور حکمت ِ عملی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
(۸) ہمارے ائمہ ٔ مجتہدین نے ہمیشہ اپنے اجتہادات کو قرآن وسنّت کے دلائل سے مزیّن کیا، اسی بنیاد پر بحث وتمحیص کا شِعار رائج کیا، نزاع اور تصادم سے گریز کیا، اس کے نتیجے میں اسلام کو بہت بڑا علمی سرمایہ ورثے میں ملا۔ پس بہتر ہے کہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں سب اپنے موقف کو اپنے دلائل سے بیان کریں، دوسروں پرطنز، طَعن وتشنیع، سبّ وشتم، تبرّا اور تحقیر واہانت کا سلسلہ ترک کردیں تو ملک و ملّت کے لیے یہ شعار بہتر ہوگا۔ جب کسی کے علمی اثاثے میں دلائل نہ ہوں تو طاقت کے استعمال کی نوبت آتی ہے اور یہیں سے فساد کا آغاز ہوتا ہے۔ آج ہمارے دفاعی ادارے ایسے ہی طبقات کو فتنۃ الخوارج اور فتنۂ ہند سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یہ تقابل ہم نے اپنی فہم کے مطابق نیک نیتی سے کیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کی ا ہے کہ ایران کی ضرورت ہے کی ا بادی ایران کا ایران کو ایران کے کیونکہ ا ایران کی ایران نے کا نقصان کے ساتھ ہے کہ ا لیکن ا کو بھی کے لیے ہے اور اور اس
پڑھیں:
اللہ نے زندگی دی ہے وہی اسے لے گا، کارکنوں سے کہتی ہوںفکر نہ کریں،شیخ حسینہ واجد
بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا ہے کہ ہم سب کچھ یاد رکھیں گے، سب کا حساب لیا جائے گا، اللہ نے زندگی دی ہے وہی اسے لے گا، کارکنوں سے کہتی ہوں: فکر نہ کریں، یہ وقت کی بات ہے، یقین ہے میں اس کا بدلہ لے سکوں گی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق شیخ حسینہ واجد نے فیصلے سے پہلے ایک بیان میں کہا کہ کہ ان کے خلاف الزامات غلط ہیں اور وہ ایسے فیصلوں کی پرواہ نہیں کرتی ہیں۔
انسانیت کے خلاف جرائم کے عالمی ٹربیونل کے فیصلے سے پہلے اپنے حامیوں کے نام ایک آڈیو پیغام میں سابق وزیراعظم نے کہاکہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی زیر قیادت عبوری حکومت ان کی جماعت کو ختم کرنا چاہتی ہے، 78 سالہ حسینہ نے بنگالی میں کہا کہ ’یہ اتنا آسان نہیں ہے، عوامی لیگ جڑوں سے اُبھری ہے، کسی طاقت کے ناجائز قبضہ کرنے والے کی جیب سے نہیں‘۔
حسینہ واجد نے کہا کہ ان کے حامیوں نے بنگلہ دیش میں احتجاجی منصوبوں کے لیے خودبخود ردعمل ظاہر کیا، ’انہوں نے ہمیں یقین فراہم کیا، لوگ اس کرپٹ، عسکری اور قاتل یونس اور اس کے معاونین کو دکھائیں گے کہ بنگلہ دیش کس طرح بدل سکتا ہے، لوگ انصاف کریں گے‘۔
حسینہ واجد نے اپنے حامیوں سے کہا کہ فکر نہ کریں، میں زندہ ہوں، زندہ رہوں گی، دوبارہ عوام کی فلاح کے لیے کام کروں گی اور بنگلہ دیش کی زمین پر انصاف کروں گی۔
محمد یونس پر اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے آئین کے مطابق منتخب نمائندوں کو زبردستی عہدوں سے ہٹانا قابل سزا ہے، محمد یونس نے منصوبہ بندی سے بالکل ایسا ہی کیا ہے۔
حسینہ نے کہا کہ ان کی حکومت نے گزشتہ سال احتجاج کے دوران طلبہ کے مطالبات قبول کیے، لیکن مسلسل نئے مطالبات آتے رہے، جن کا مقصد انارکی پیدا کرنا تھا۔
اپنے دور حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو رد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے 10 لاکھ روہنگیا کو پناہ دی اور وہ مجھے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں؟
حسینہ واجد نے کہا کہ محمد یونس کی زیر قیادت حکومت نے پولیس، عوامی لیگ کے کارکنان، وکلا، صحافیوں اور ثقافتی شخصیات کے قاتلوں کو معافی دی، لیکن ایسے افراد کو معافی دے کر، وہ خود الزام کی زد میں آگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’فیصلہ دیں، مجھے پرواہ نہیں، اللہ نے مجھے زندگی دی، اللہ ہی اسے لے گا، لیکن میں اپنے ملک کے لوگوں کے لیے کام جاری رکھوں گی۔ میں اپنے والدین اور بھائی بہن کھو چکی ہوں اور انہوں نے میرا گھر جلا دیا‘۔
حسینہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسے عدالتی فیصلے انہیں نہیں روکیں گے، میں لوگوں کے ساتھ ہوں۔ میں اپنی پارٹی کے کارکنوں سے کہتی ہوں: فکر نہ کریں، یہ وقت کی بات ہے، میں جانتی ہوں کہ آپ مصیبت میں ہیں، ہم سب کچھ یاد رکھیں گے، سب کا حساب لیا جائے گا، اور مجھے یقین ہے کہ میں اس کا بدلہ لے سکوں گی۔