معافی مانگنے سے الیکشن ہار کر بھی حکومت اور وزرات عظمٰی کاملنا بھی ممکن ہوجاتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 اگست 2025ء ) سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ معافی مانگنے سے الیکشن ہار کر بھی حکومت اور وزرات عظمٰی کاملنا بھی ممکن ہوجاتا ہے؟ ۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے حالیہ کالم پر جماعت اسلامی کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے ردعمل دیا گیا ہے۔ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے سوال کیا کہ معافی کس سے؟ مفافی مانگنے سے نہ صرف سیاسی مصالحت ممکن ہے بلکہ معافی مانگنے سے الیکشن ہار کر بھی حکومت اور وزرات عظمی کاملنا بھی ممکن ہوجاتا ہے؟ اور معافی نہ مانگنے کی صورت میں اڈیالا میں راولپنڈی کی مہمان نوازی ملتی ہے۔
واضح رہے کہ معروف صحافی، تجزیہ کار و کالم نگار سہیل وڑائچ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا کہنا ہے سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے۔(جاری ہے)
روزنامہ جنگ کیلئے اپنے کالم میں انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاسم منیر سے پہلی ملاقات بلجیئم کے شہر برسلز میں ہوئی، میں نے نہ پہلے کبھی کوئی خفیہ ملاقات کی اور نہ آج کی ، یہ ایک عاجز صحافی اور فیلڈ مارشل کی ملاقات تھی جس میں میرے کھردرے سوالات کے انہوں نے واضح اور شفاف جوابات دیئے، بات سیاست سے شروع ہوئی اوربالخصوص ان افواہوں پر کہ صدرِپاکستان اور وزیراعظم کو تبدیل کرنے پر کام ہو رہا ہے، جنرل عاصم منیر نے برسلز کے جلسے میں اور میرے ساتھ دو گھنٹے کی طویل نشست میں واضح طور پر کہا کہ ’تبدیلی کے بارے میں افواہیں سراسر جھوٹ ہیں‘، جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ سب خبریں تو سول اور عسکری ایجنسیوں کی طرف سے آئی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’ایسا ممکن نہیں دراصل ا ن کے پیچھے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے مخالف اور سیاسی انارکی پیدا کرنے والے عناصر ہیں‘۔
انہوں نے سٹیج پر کھڑے ہو کر کہا کہ ’خدا نے مجھے ملک کا محافظ بنایا ہے مجھے اس کے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں، میں ایک سپاہی ہوں اور میری سب سے بڑی خواہش شہادت ہے‘، جنرل عاصم منیر بار بار سیاسی حکومت کے تدبر اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف کے 18 گھنٹے پر خلوص کام کرنے کو سراہتے رہے، انہوں نے کہا کہ ’جنگ کے دوران وزیراعظم اور کابینہ نے جس عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کیا اس کی تعریف کی جانی چاہیئے‘۔ سیاسی حوالے سے کئے گئے سوال پر انہوں نے کہاکہ ’سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے‘، اس حوالے سے انہوں نے اسٹیج پر قرآن پاک کی آدم کی تخلیق او رشیطان کے کردار کے حوالے سے آیات کا متن اور ترجمہ سنایا جس سے واضح ہوتا تھا کہ شروع میں فرشتوں کو آدم سے مسئلہ تھا مگر خدا نے آدم کو تخلیق کیا تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوں نے انسان کو خدا کا حکم اور کرشمہ سمجھ کر قبول کرلیاگویا معافی مانگنے والے فرشتے رہے اور معافی نہ مانگنے والا شیطان بن گیا۔ معروف صحافی کا کہنا ہے کہ معاشی بحران کے حل کے حوالے سے ان کے پاس پورا روڈ میپ تھا جس میں پانچ اور دس سال کے اندر پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی تھی،انہوں نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ ’اگلے سال سے ریکوڈک سے ہر سال دو ارب ڈالر کا خالص منافع ہوگا اور جو ہر سال بڑھتا جائے گا، پاکستان کے پاس نایاب زمینی خزانہ ہے اس خزانے سے پاکستان کا قرضہ بھی اتر جائے گا اور پاکستان کا شمار جلد ہی خوشحال ترین معاشروں میں ہونے لگے گا‘۔ بین الاقوامی حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو چین اور امریکہ کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا طویل تجربہ ہے، ہم ایک دوست کیلئے دوسرے کو قربان نہیں کریں گے، پاکستان نے صدر ٹرمپ کیلئے نوبل انعام کی سفارش میں پہل کی اب باقی دنیا ہماری پیروی کر رہی ہے‘، فیلڈ مارشل ہر موقع پر بھارت اور مودی کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں، برسلز میں بھی انہوں نے جہاں بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ پراکسیز کے ذریعے پاکستان کے امن کو تباہ نہ کرے وہاں انہوں نے افغان حکومت کو بھی وارننگ دی کہ ’طالبان کو پاکستان میں دھکیلنے کی پالیسی بند کی جائے ورنہ ایک ایک پاکستانی کے خون کا بدلہ لینا ہم پر واجب ہے، ہم نے افغانوں پر سالہا سال تک مہربانیاں اور احسانات کیے اس کا بدلہ اتارنے کی بجائے ہمارے خلاف بھارت سے مل کر سازش کی جارہی ہے‘۔ سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر ذاتی طور پر تکبّر سے کہیں دور ہیں حالانکہ عام طور پر حکمرانوں اور جرنیلوں کے اردگرد ’’ہٹو بچو‘‘ کا شور ہوتا ہے مگروہ گھنٹوں کھڑے ہو کر کم از کم دو تین سو لوگوں سے ملے ہر ایک سے مصافحہ کیا، ان کے ساتھ تصویر بنوائی اور ہر ملاقاتی کے ایک آدھ سوال کا جواب بھی دیا، ان کے چہرے پر کوفت نہیں بلکہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی، ایک دو ساتھیوں نے مشورہ بھی دیا کہ اتنے لوگوں سے ملنا بدانتظامی پیدا کر دے گا۔ مگر انہوں نے عجز سے کہا کہ ’یہ لوگ بہت دور دور سے آئے ہیں، ملنے کے خواہش مند ہیں تو ا ن کا دل کیسے توڑا جائے؟‘، پھر جب تک آخری اوورسیز پاکستانی ان سے ہاتھ ملا کر رخصت نہیں ہوا وہ اپنا یہ فرض نبھاتے رہے، ایک سیاسی ورکر نے مجھے کہا کہ’اتنا حوصلہ تو سیاسی لیڈروں میں نہیں کہ ہر ایک سے ملنا گوارا کریں‘، فیلڈ مارشل نے اس عاجز کی معروضات کو کمال مہربانی سے سُنا، سب سے بڑی آوازتو یہی ہے کہ سویلین نظام چلتا رہے اس کو مصلحت اور مصالحت سے مزید نمائندہ بنایا جائے تاکہ واقعی مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے معافی مانگنے سے انہوں نے کہا فیلڈ مارشل کا کہنا ہے حوالے سے ا حکومت اور کہا کہ
پڑھیں:
ڈیجیٹل اکانومی کے فروغ کیلئے حکومت اور نجی شعبے کا اشتراک ناگزیر ہے،آئی سی سی آئی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اگست2025ء) اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آئی سی سی آئی) کی قیادت بشمول صدر ناصر منصور قریشی، سینئر نائب صدر عبدالرحمان صدیقی اور نائب صدر ناصر محمود چوہدری نے ای کامرس سیکٹر کے فروغ اور ملک کی عالمی منڈی میں مسابقت کو بڑھانے کے لیے ڈیجیٹل تبدیلی کو تیز کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل کامرس دنیا بھر میں معاشی ترقی کا ایک بڑا محرک بن چکی ہے تاہم عالمی ای کامرس معیشت میں پاکستان کا حصہ اس کی صلاحیت سے بہت کم ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسی پالیسیاں اپنائے جو ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو سپورٹ کریں، انٹرنیٹ کی رسائی کو بہتر بنائیں، ادائیگی کے قابل اعتماد گیٹ ویز کو یقینی بنائیں، اور مالیاتی شمولیت کو فروغ دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کاروباری افراد، خاص طور پر SMEs، ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھا سکیں۔(جاری ہے)
آئی سی سی آئی کی قیادت نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے نوجوانوں کو جو کہ آبادی کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں، اگر مناسب تربیت اور سہولت فراہم کی جائے تو وہ ای کامرس کے مستقبل کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ڈیجیٹل خواندگی کے پروگراموں کو پھیلانا، لاجسٹکس کے نظام کو بہتر بنانا، اور آن لائن کاروبار کے لیے ریگولیٹری آسانی کو یقینی بنانے سے نہ صرف روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے بلکہ مقامی پروڈیوسرز کو عالمی خریداروں سے جوڑ کر برآمدات کو بھی فروغ دیا جا سکے گا۔صدر ناصر منصور قریشی نے مزید کہا کہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کے فروغ کے لیے حکومت، نجی شعبے اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان مضبوط اشتراک بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم آج جدت اور ڈیجیٹل انٹرپرینیورشپ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ہم آنے والے سالوں میں پاکستان کو علاقائی ای کامرس کے مرکز میں تبدیل کر سکتے ہیں۔آئی سی سی آئی کی قیادت نے پالیسی سازوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستان ڈیجیٹل انقلاب کے ساتھ رفتار کو برقرار رکھے اور پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے اپنی پوری صلاحیت کو بروئے کار لائے۔