سانحہ سوات: کمشنر مالاکنڈ اور دیگر متعلقہ افسران طلب
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
دریائے سوات میں سیاحوں کے جاں بحق ہونے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ نے کمشنر مالاکنڈ اور دیگر متعلقہ افسران کو طلب کر لیا۔
پشاور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ اور جسٹس فہیم ولی نے درخواست کی سماعت کی۔
پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ کمشنر مالاکنڈ اور دیگر متعلقہ افسران ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ غفلت کے باعث 17 جانیں گئیں، سیاحوں کو بروقت کیوں ریسکیو نہیں کیا گیا، سیاحوں کو ڈرون کے ذریعے حفاظتی جیکٹس کیوں نہیں دی گئیں، دریا اور سیاحتی مقامات کی دیکھ بھال کس کی ذمے داری ہے؟
ضلعی انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک آپریشن کے دوران 65 غیر قانونی تعمیرات گرائی گئی ہیں، جن میں دکانیں، ہوٹل اور پارک شامل ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ سوات میں تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا ہے، ایئر ایمبولینس موجود تھی مگر وقت کم ہونے کے باعث استعمال نہ ہو سکی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جاری وارننگ پر متعلقہ حکام نے عمل درآمد کیوں نہیں کیا؟ آئندہ سماعت پر سوات واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کی جائے۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ متعدد ذمے دار افراد کو معطل کر دیا گیا ہے۔
بعدازاں عدالت نے درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
یحییٰ آفریدی نے آئینی بینچ کا حصہ بننے سے کیوں معذرت کی؟ چیف جسٹس کا خط منظر عام پر
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا ایک خط منظرِ عام پر آیا ، جو انہوں نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے نام لکھا تھا۔ یہ خط اُس اجلاس کے بعد لکھا گیا جو 31 اکتوبر کو ہوا تھا، جس میں دونوں ججز نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے 4 نومبر کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے خط میں واضح کیا کہ انہوں نے آئینی بینچ کا حصہ بننے سے کیوں معذرت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 191 اے کے تحت، آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر درخواستوں کو صرف “آئینی بینچ” ہی سن سکتا ہے، نہ کہ فل کورٹ۔ مزید کہا کہ کیس مقرر کرنے کا اختیار بھی صرف آئینی بینچ پر مشتمل ججز کی کمیٹی کو حاصل ہے، نہ کہ سپریم کورٹ کی عام ججز کمیٹی کو۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے 13 ججز سے اس بارے میں رائے لی، جن میں سے 9 ججوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے بجائے آئینی بینچ کے سامنے ہی سنا جانا چاہیے۔ یہ بات دونوں معزز ججز (جسٹس منصور اور جسٹس منیب) کو بھی بتا دی گئی۔
انہوں نے لکھا کہ فل کورٹ اجلاس بلانا مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ اس سے ججز کے درمیان باہمی اعتماد متاثر ہو سکتا ہے اور عدالت کو غیر ضروری عوامی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہیں دونوں ججز کی طرف سے خطوط تاخیر سے موصول ہوئے، جس میں انہوں نے درخواست کی کہ معاملے کو فل کورٹ کے سامنے سنا جائے۔ ان خطوط کو محفوظ رکھنے کے لیے چیف جسٹس نے انہیں جوڈیشل کمیشن کے سیکریٹری کے حوالے کر دیا تاکہ 5 نومبر 2024 کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ان پر بات ہو سکے۔
انہوں نے خط کے آخر میں واضح کیا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے مطابق بینچز کی تشکیل صرف متعلقہ آئینی کمیٹی کا اختیار ہے، اور بغیر آئینی جواز کے فل کورٹ بنانا آئین کی خلاف ورزی ہوگا۔
Post Views: 11